• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو دنیا بھر کے مسلمان اس بے مثال قربانی کی غم انگیز مگر توانائی بخش یاد سے دلوں کو معمور کرتے ہیں جو نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حق کی سربلندی کیلئے بارگاہ الٰہی میں پیش کی۔ ہجری کیلنڈر کے 61 ویں برس اس تاریخ کو امام عالی مقام کا وہ سفر ظاہری طور پر ختم ہوگیا جو جبر کے ذریعے مطلق العنانیت اور موروثی حکمرانی قائم کرنیوالے اس وقت کے مدعیِ خلافت کے مطالبہ بیعت سے ان کے انکار کے بعد افراد خاندان اور رفقائے قافلہ کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔ ’’کربلا‘‘ وہ مقام ہے جہاں 72 نفوس قدسیہ کی اپنے لہو سے دی گئی شہادتِ حق دین اسلام کو اس کی اصل صورت میں نئی زندگی دینے کا ذریعہ بنی۔ نواسہ رسولؐ کے 28 رجب 60 ہجری کو آغاز سفر سے 10محرم 61ہجری کی شام نیزے پر سربلند کئے جانے تک سفر کے مختلف مرحلے دیکھتے جائیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہ تگ و دو اقتدار کیلئے نہ تھی، کربلا میں دو نظریات کا تصادم ہوا تھا۔ یوں ہر پہلو کی تشریح کیساتھ حق بھی واضح ہوگیا جسے موت، مرگ اور فنا پر غالب آکر سرخرو ہونا ہے اور باطل بھی نمایاں ہوگیا جو ابتدائے آفرنیش سے روپ بدل بدل کر سامنے آتا رہا ہے اور آتا رہے گا۔ مگر بالآخر فنا جس کا مقدر ہے۔ نواسہ رسول ؐنے آغاز سفر سے پہلے جو خطوط لکھے ،دوران سفر جو خطبات دیئے اور میدان کربلا میں جو خطاب کیا ان سب میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرنے، اسلامی حدود کی پابندی کئے جانے، امت کو خلفشار سے بچانے اور افہام و تفہیم کو شعار بنانے کی تلقین نظر آتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ کی آغوش میں تربیت پانے والی جس ہستی کو جوانان جنت کے دو سرداروں میں سے ایک سردار ہونے کی خوشخبری دی جاچکی ہو اور جس کے بارے میں آنحضرت ؐکا یہ ارشاد ہو کہ ’’حسین ؓمجھ سے ہے اور میں حسین ؓسے ہوں‘‘ اس سے بہتر کون جان سکتا تھا کہ اسلام محض عبادات تک محدود نہیں، پورا طرز زندگی ہے۔ پیغمبر اسلام نے زمانہ جاہلیت کی علاماتِ تفاخر قیصر و کسریٰ کے ٹھاٹھ باٹھ اور موروثی اقتدار کے تمام طریقوں کو پیروں تلے روند کر ایسے اقتدار حکومت کا نمونہ پیش کیا جس میں عنان حکومت چلانے والی شخصیت رعایا کے عام فرد جیسی سادہ زندگی گزار رہی تھی تو یہ دراصل اسلامی تعلیمات کا تقاضا تھا۔ امام عالی مقامؓ رسولؐ کے انداز حکمرانی کی روح کو سمجھتے تھے اور وصال رسول ؐکے بعد منتخب ہونے والے خلفائے راشدین کی سادگی، عدل گستری اور امانت کا مشاہدہ بھی کرچکے تھے۔ ان کیلئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ مطلق العنان شخصی اقتدار کی بیعت کرکے اس نظام کو اس کے تشویش کا باعث بننے والے معاملات سمیت شرعی احکام کے مطابق درستی کا سرٹیفکیٹ دیدیتے۔ دین کو اس نقصان سے بچانے کیلئے امام عالی مقام نے ایسی قربانی دی کہ امامت و قیادت کے منصب کیلئے مثال بن گئی۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم واقعہ کربلا کی یاد مناتے ہوئے اس کی حقیقی روح تازہ کریں اور آج کی دنیا کے اس نقشے کو سمجھیں جس کی نشاندہی شاعر مشرق علامہ اقبال پہلے ہی ان الفاظ میں کرچکے ہیں ؎

ریگِ عراق منتظر، کشتِ حجاز تشنہ کام

خون حسینؓ بازدِہ کوفہ و شامِ خویش رَا

(ترجمہ :عراق کا ریگستان انتظار میں ہے اور حجاز کی کھیتی پیاسی ہے۔ اپنے کوفہ و شام کو خون حسینؓ دے کر پھر ترو تازہ اور شاداب کر!)

مسلم حکمرانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عالمی نقشے پر جاری آج کی کربلا کو سمجھیں۔ امام عالی مقام کی ذات کو اتحاد و اتفاق کا ذریعہ بنائیں۔ خود کو منظم کریں۔ اسلامی تعلیمات جن اعلیٰ انسانی قدروں کی امین ہیں، ان کے تحفظ کے لئے مستقل مشاورت کا راستہ اختیار کریں، مشترکہ میکنزم بناکر اسلام دشمن قوتوں کی سازشیں ناکام بنائیں اور دنیا کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ ریاست مدینہ کے نظام کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں دنیائے اسلام ہی نہیں، کرہ ارض کے تمام مسائل کا حل نظر آئے گا۔

تازہ ترین