کاتبِ وحی یا کاتبینِ وحی ایک اسلامی اصطلاح ہے، جس کا اطلاق اُن صحابہ کرامؓ پر ہوتا ہے، جنہوں نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں وحی کو لکھا یا مدوّن کیا۔ کاتبینِ وحی کی تعداد کے ضمن میں تاریخی کتب میں خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین نے ان کی تعداد 16بتائی ہے۔ جب کہ بعض نے 42افراد کا ذکر کیا ہے۔ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اصل مدار تو حفظِ قرآن مجید ہی پر تھا، لیکن ساتھ ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابتِ قرآن کا بھی خاص اہتمام فرمایا۔ اُس دَور میں جب کہ لکھنے پڑھنے کے وسائل بہت کم تھے۔ صحابہ کرامؓ نے بڑی دل چسپی سے کتابت سیکھی اور سکھائی بھی۔ بعض اہلِ فن کو خدمتِ نبوی ؐ میں رہ کر وحی الٰہی کی کتابت کا شرف حاصل ہوا۔ بعض نے وحی کی کتابت فرمائی۔ بعض نے احادیث لکھیں، تو بعض نے دستاویزات اور بعض نے احکامِ زکوٰۃ و فرامینِ نبوی ؐ کی کتابت کی اور ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ آپ ؐ نے بہت سے صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو اس مقصد کے لیے مقرر فرمایا ہوا تھا، جو حسبِ ضرورت کتابتِ وحی کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اس زمانے میں چوں کہ عرب میں کاغذ کم یاب تھا، تو کتابتِ وحی کے لیے کھجور کی شاخیں، پتھر کی سِلیں،چمڑے کے پارچے اور جانوروں کی ہڈیاں بھی استعمال کی گئیں، لیکن یہ طے ہے کہ پورا قرآنِ کریم آپ ؐ کی نگرانی ہی میں لکھ کر محفوظ کرلیا گیا تھا۔
کتابتِ قرآن کا طریقہ ٔ کار حضرت زیدؓ نے اس طرح بیان فرمایا ’’مَیں رسول اللہؐ کےلیے وحی کی کتابت کرتا تھا۔ جب آپ ؐ پر وحی نازل ہوتی، تو آپ ؐ سخت بوجھ محسوس کرتے، جسمِ اطہر پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے۔ پھر آپ سے یہ کیفیت ختم ہو جاتی تو میں مونڈھے کی ہڈی یا کسی اور چیز کا ٹکڑا لے کر خدمتِ اقدس ؐ میں حاضر ہوتا۔ آپؐ لکھواتے رہتے، مَیں لکھتا جاتا۔ یہاں تک کہ لکھ کر فارغ ہوجاتا۔ قرآن کے نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے ایسا محسوس ہوتا، جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہو اور مَیں کبھی چل نہیں سکوں گا۔ بہرحال، جب میں فارغ ہوتا، تو آپ ؐ فرماتے ’’پڑھو۔‘‘ میں پڑھ کر سناتا۔ اگر اس میں کوئی فروگزاشت ہوتی، تو آپ ؐ اس کی اصلاح فرمادیتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے۔ کتابتِ وحی کا کام صرف حضرت زید بن حارثؓ ہی کے سپرد نہ تھا۔ بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ خدمت سر انجام دی، لیکن چوں کہ ان کی تعداد کے حوالے سے کچھ تضاد پایا جاتا ہے اور یہ موضوع بھی بے حد حسّاس ہے، پھر اس پر کتب بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، تو ہم قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے ’’سرچشمہ ٔ ہدایت ‘‘ کے ان صفحات پر چند معروف کاتبینِ وحی کی (جن کے ناموں پر سب کا اتفاق موجود ہے) حیاتِ مبارکہ سےمتعلق تفصیلی مضامین کی اشاعت کا ایک سلسلہ شروع کررہے ہیں۔ لیجیے، آج ملاحظہ کیجیے، اس سلسلے کا پہلا مضمون۔ (ایڈیٹر،سنڈے میگزین)
………٭…٭…٭…٭…٭……
سرد رات کا دوسرا پہر شروع ہوا چاہتا ہے۔ مکّے سے4کلومیٹر کے فاصلے پر سب سے پُرخطر پہاڑ’’ثور‘‘ اللہ کے دو عظیم المرتبت مسافروں کو اپنی آغوش میں پناہ دینے کے لیے بے چین ہے۔ ربِ کائنات کے محبوبؐ آج اپنے محبوبؓ کے ساتھ اسے شرف میزبانی بخش رہے ہیں۔ ثور کی چوٹی پر برسوں سے غیر آباد غار کی بھی آج قسمت چمکنے کو ہے کہ اس میں آج کائنات کے شہنشاہ جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ سیّدنا ابوبکرصدیقؓ غار میں جھانکتے ہوئے فرماتے ہیں’’میرے ماں باپ آپ پر قربان! اے اللہ کے رسولؐ میں پہلے اندر جاکر اطمینان کرلوں، پھر آپ اندر تشریف لائیں۔‘‘ سیّدنا ابوبکرؓ اندر جا کر غار کی صفائی کرتے ہیں، وہاں موجود چند سوراخوں کو اپنے تہ بند کے کپڑے سے بند کردیتے ہیں۔ کاملِ اطمینان کے بعد سرکار دوعالمؓ کو اندر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ دشوار گزار پہاڑ کی چڑھائی، نوکیلے پتھروں سے لہولہان پیروں اور رات بھر کی بے داری کی بناء پر آپؐ اپنے دوست کے زانوئے مبارک پر سر رکھ کر سوجاتے ہیں۔ ابھی چند ہی ساعتیں بیتی تھیں کہ اچانک ایک کھلے سوراخ سے ایک ناگ پھن پھیلائے نمودار ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ برق رفتاری سے سوراخ کے منہ پر اپنی ایڑی پھنسا دیتے ہیں۔ سانپ راستہ بند دیکھ کر غصّے سے دانت ایڑی میں پیوست کر دیتا ہے۔ شدید تکلیف کی ایک دردناک لہر تلووں سے دماغ تک سرایت کرجاتی ہے،مگر قوتِ ایمانی اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہونٹوں کو سی دیا، تو جسم کو ساکت کرلیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود ڈبڈبائی آنکھوں سے ٹپکنے والے ایک خوش قسمت آنسو کو حضورؐ پُرنور کے چہرۂ انور کو چومنے کا شرف حاصل ہو ہی گیا۔ حضورؐ کی آنکھ کھلتی ہے اور دیکھتے ہیں کہ سیّدنا ابوبکرؓکا چہرہ شدّتِ تکلیف سے زرد ہو رہا ہے۔ فرمایا،’’ کیا بات ہے ابوبکرؓ.....؟‘‘۔ ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے پائوں پر سانپ نے کاٹ لیا ہے۔‘‘ یہ سن کر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کی ایڑی پر اپنا لعابِ دہن لگاتے ہیں، جس سے نہ صرف زہر کا اثرزائل ہو جاتا ہے، بلکہ درد بھی ختم ہو جاتا ہے۔صبح غصّے سے بپھرے مشرکینِ مکّہ کھوجیوں کی مدد سے غار کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ان کی آوازیں سن کر فرماتے ہیں۔ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی قوم آپ کو تلاش کرتی یہاں تک آ پہنچی ہے۔‘‘ ابھی حضرت ابوبکرؓ کی بات مکمل بھی نہ ہو پائی تھی کہ اللہ نے وحی نازل فرما دی اور حضورؐ نے اپنے یارِ غار سے فرمایا ’’اے ابوبکرؓ ! فکر نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۂ توبہ۔40) اِدھر اللہ کی شانِ کریمی دیکھیں کہ مشرکین غار کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ سرکارِدوعالمؐ سے فاصلہ صرف چند گز کا ہے، لیکن غار کے منہ پر تو مکڑی کا برسوں پرانا جالا ہے اور ببول کے درخت کی جھکی شاخ نے اندر جانے کا راستہ بند کر دیا ہے۔ جنگلی کبوتروں کا گھونسلا اور انڈے بھی ہیں، چناں چہ مایوس ہو کر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تین رات قیام فرمایا۔ اس پورے عرصے میں سیدنا ابوبکرؓ اپنے خاندان سمیت آپ کی خدمت پر مامور رہے۔ عبداللہ بن ابوبکرؓ رات کو یہاں آجاتے اور مکّے کے حالات سے باخبر کرتے۔ سیدنا ابوبکرؓ کا غلام، عامر بن فہیرہ دن بھر بکریاں چَراتے اور رات کے ایک پہر کے بعد بکریاں لے آتے، تاکہ دونوں حضرات دودھ پی لیں۔14ربیع الاول پیر کے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق و ہم دَم، غم گسار و جاں باز، یارِ غار سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اَن جانی اور پُرخطر راہوں پر چل پڑتے ہیں۔ غارِ ثور میں قیام سے متعلق حضرت عمرؓ بن خطاب فرماتے ہیں کہ’’ ابوبکرؓ کی ایک رات اور ایک دن، عمرؓ کی زندگی بھر کی عبادت سے افضل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)۔
نام و نسب: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبد اللہ، جب کہ کنیت ابوبکراور لقب صدیقؓ ہے۔ آپؓ 573عیسوی میں مکّہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو برس اور چند ماہ چھوٹے تھے۔حسن و جمال کے باعث آپؓ عتیق کے نام سے بھی مشہور ہوئے۔ والد کا نام عثمان بن عامر اور کنیت ابوقحافہ تھی اور والدہ ماجدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت امّ الخیر تھی۔ قبولِ اسلام سے قبل آپؓ کا نام والدین نے عبدالکعبہ رکھا تھا۔ جب مشرف بہ اسلام ہوئے، تو سرور کائنات صلّی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام تبدیل کرکے عبداللہ رکھ دیا۔ آپؓ کا سلسلہ نسب بنوتمیم سے تھا، جو اس طرح ہے’’ ابوبکر بن ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعید بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نذاربن معد بن عدنان۔‘‘ امام نووی لکھتے ہیں کہ’’ طلوع ِاسلام سے قبل ہی آپ کا شمار قریش کے رئوساء میں ہوتا تھا۔‘‘
حلیہ مبارک: آپؓ کا رنگ گورا، بدن چھریرا، دونوں رخسار اندر کو دھنسے ہوئے، قد قدرے جھکا ہوا، چہرے کی رگیں نمایاں، پیشانی چوڑی اور بلند تھی۔ آنکھیں نیچی رکھتے تھے۔ مہندی اور کسم کا خضاب استعمال کیا کرتے تھے۔ جوانی میں حسین و جمیل شخصیت کے مالک تھے۔
بچپن: سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے زمانہ ٔ جاہلیت میں آنکھ کھولی،جہاں دیگر لاتعداد برائیوں اور خرابیوں کے علاوہ بدکاری و بے حیائی عام تھی، لیکن آپؓ کو ان چیزوں سے نفرت تھی۔ شروع ہی سے ذہین تھے۔ پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق تھا، چناں چہ والد ابو قحافہ نے آپ کی تعلیم پر خصوصی توجّہ دی۔ قریش کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ ہم عمر اور ہم مزاج ہونے کی وجہ سے بچپن ہی سے حضور نبی کریمؐ سے ایک تعلق پیدا ہو گیا تھا، جو وقت کے ساتھ ساتھ گہری رفاقت اور شدید محبت میں بدل گیا اور زندگی کے آخری سانسوں تک قائم و دائم رہا۔
قبولِ اسلام: یہ نبوت کا چوتھا سال تھا کہ جب حکمِ خداوندی ہوا۔ ’’اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم! اب آپ احکام الٰہی عام کیجیے اور مشرکین کی پروا نہ کیجیے۔‘‘ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اسلام کی دعوت دی، تو آپؓ نے فوراً قبول کر لیا اور مَردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا اعزاز پایا۔ اس کے فوراً بعد سیدنا ابوبکر صدیق ؓ ہی نےسب سے پہلے اعلانیہ مشرکین کو اسلام کی دعوت دی۔ اس دور میں حق کی آواز بلند کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ چناں چہ آپؓکی اس جرأت پر اہلِ قریش چراغ پا ہو گئے اور شدید تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، پتھروں سے زخمی کیا جاتا، گلے میں رسّا ڈال کر بازاروں میں کھینچا جاتا، تو ایسے میں سیّدنا ابوبکر صدیقؓ آپ کی مدد کو پہنچتے۔ مشرکین سے جھگڑا کرتے، خود بھی مشرکین کے تشدد کا نشانہ بنتے، لیکن نبیؐ کا ساتھ نہ چھوڑتے۔ سائے کی طرح ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے۔
لقب: نبوت کے بعد صدیقیت ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ پوری زندگی ہر لمحہ نبی مکرمؐ کے ساتھ رہے۔ بعثت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کھلی کتاب کی طرح آپؓ کے سامنے تھی۔ آپؓ کا معمول تھا کہ حضور اکرمؐ کی ہر بات اور ہر عمل پر فوراً ’’آمین‘‘ کہہ کر تصدیق کر دیا کرتے تھے۔ کفارِ مکّہ نے جب آپؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے واقعے کا ذکر کیا، تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’اگر یہ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے، تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔‘‘ معراج سے واپسی پر ذی طویٰ کے مقام پر آپؐ نے فرمایا۔ ’’اے جبرائیل! میری قوم میری تصدیق نہیں کرے گی۔‘‘ جبرئیل امینؑ نے کہا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی تصدیق ابوبکرؓ کریں گے، وہ صدیقؓ ہیں۔‘‘
کاتبِ وحی: قرآن کریم کی حفاظت کے لیے حضور نبی کریمؐ نے دہرے وسائل سے کام لیا۔ ایک حفظِ قرآن اور دوسرے کتابت، یعنی لکھ کر محفوظ کر لینا۔ چناں چہ جیسے ہی وحی نازل ہوتی، آپؓ اسے صحابہؓ کو حفظ کروا دیتے اور اپنی نگرانی میں اس کی کتابت کروا کر تصدیق فرماتے۔ زمانہ جاہلیت میں عربوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج عام نہ تھا، لہٰذا ابتدائی زمانے میں جو اشخاص مسلمان ہوئے، ان میں لکھنے پڑھنے والے کم تھے۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہؓ کے ساتھ آپؓ کو بھی وحی کی کتابت کی ذمّے داری عطا فرمائی۔طبقات القراء لا بن الجزریؓ اور مناہل العرفان میں آپؓ کے کاتب وحی ہونے کی صراحت موجود ہے۔
تدوینِ قرآن: قرآنِ کریم کی تدوین سیّدنا ابوبکرؓ کا بڑا کارنامہ اور امّتِ مسلمہ پر احسانِ عظیم ہے۔ جنگِ یمامہ میں70سے زائد حفاظ و قراء شہید ہو گئے تھے، چناں چہ قرآن کو کتابی صورت میں یک جا کر کے محفوظ کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی۔ سیّدنا عمر فاروقؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مشورہ دیا کہ جلد از جلد اس کام کومکمل کیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زید بن ثابت کو یہ ذمّے داری سونپی۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ ’’شروع میں تو مجھے تامّل رہا، لیکن پھر اللہ کی رضا سے قرآنی آیات کو تلاش کر کے جمع کرنے کا کام شروع کیا، جو مجھے مختلف لوگوں اور صحابہؓ سے اونٹ، بکریوں کے شانوں کی ہڈیوں، درخت کے پتّوں اور چمڑے کے ٹکڑوں پر لکھی ہوئی ملیں۔ مَیں نے یہ سب جمع کرکے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں پیش کردیں۔‘‘ ابویعلی، حضرت علیؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’قرآن شریف سے متعلق سب سے زیادہ اجر، حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ملے گا۔ کیوں کہ آپ ہی وہ شخص ہیں، جنہوں نے اولاً قرآن شریف کو کتابی صورت میں جمع کیا۔‘‘ امام ابن حزم نے لکھا کہ ’’حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں کوئی شہر ایسا نہ تھا، جہاں لوگوں کے پاس قرآن موجود نہ ہو۔‘‘
سخاوت و فیاضی: سیّدنا ابوبکر صدیقؓ تمام صحابہ کرام میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’ جتنا نفع مجھے ابوبکرؓ کے مال نے دیا، اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا۔ میر ے اوپر کسی کا احسان نہیں رہا، سب کا اتار دیا،البتہ ابوبکرؓ کا میرے اوپر احسان اتنا بڑا ہے کہ اس کا بدل قیامت کے روز اللہ ہی عطا کرے گا۔‘‘ (ترمذی)۔ یہ حضرت ابو بکر صدیقؓ ہی تھے، جنہوں نے غزوۂ تبوک کے موقعے پر اپنے گھر کا پورا مال و اسباب لا کر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضورؐ نے پوچھا۔ ’’اےابوبکرؓ !اپنے اہل و عیال کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے؟‘‘ تو حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا۔’’ ان کے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ ہی کافی ہیں۔‘‘
غلاموں کو آزاد کروانا: حضرت ابوبکر صدیقؓ صاحبِ ثروت تھے، اللہ نے مال و دولت سے خوب نوازا تھا۔ مجبور، بے کس غلاموں کو آزاد کروانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ حضرت بلالؓ پر ان کا مالک، امیہ بن خلف تپتی دھوپ میں گرم ریت پر لٹا کر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا تھا،آپؓ نے اسے منہ مانگی رقم دے کر حضرت بلال حبشیؓ کوآزاد کروایا۔اس کے علاوہ آپ نےدائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے سیکڑوں افراد کو آزاد کروایا، جن میں ضعیف، بوڑھی عورتیں، نوجوان اور کم عمر بچّے بھی شامل تھے۔
غزوات میں شرکت: بعثتِ نبوت سے لے کر وصال ِرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک، دن ہو یا رات، جنگ ہو یا امن۔ برے حالات ہوں یا مصائب و آلام کے کوہِ گراں، آپؓ ہر وقت اور ہر لمحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔ آپؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی اور شجاعت و بہادری کے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ آسمانوں پر فرشتے بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ غزوۂ احد اور غزوۂ حنین میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے، لیکن اس نازک موقعے پر بھی سیّدنا ابوبکر صدیقؓ، حضورؐ کی حفاظت کے لیے ساتھ موجود تھے۔غزوۂ بدر میں آپؓ کے صاحب زادے، عبدالرحمٰن، مشرکین کے ساتھ جنگ میں شریک تھے۔ جب عبدالرحمٰن مسلمان ہوئے، تو اپنے والد سے عرض کیا۔ ’’اے ابا جان! آپ بدر کے روز کئی مرتبہ میرے تیر کی زد میں آئے، مگر میں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔‘‘ آپؓ نے جواب دیا۔ ’’اے جانِ پدر! واللہ اگر تو میرے نشانے پر آ جاتا، تو میں کبھی بھی نشانہ خطا نہ کرتا۔‘‘ (ابنِ عساکر)۔
صحابہ میں سب سے افضل: امام نووی تحریر کرتے ہیں کہ’’ آپ علم و فضل، سخاوت و فیّاضی، ایثار و قربانی میں سب صحابہؓ سے افضل تھے۔‘‘ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ’’آپ سب صحابہ میں زیادہ فصیح و بلیغ خطیب تھے۔ صحابہ میں عاقل، کامل اور صاحبِ رائے تسلیم کیے جاتے تھے۔‘‘
رسول اللہؐ کے سب سے زیادہ محبوب: حضرت عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں کہ’’ میں نے رسول اللہؐ سے پوچھا۔ ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’عائشہؓ ۔‘‘ پھر میں نے پوچھا’’ مَردوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟‘‘ حضور نے فرمایا۔ ’’عائشہ کے والد ابوبکرؓ۔‘‘ (بخاری)۔
نائبِ رسول: رسول اللہؐ نے صدیق اکبرؓ کو اپنی زندگی ہی میں اپنا نائب بنا دیا تھا۔ نماز میں بھی اور حج میں بھی۔ 9ہجری کو اسلام کے پہلے حج کے موقعے پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو حاجیوں کا امیر بنا کر مکّہ روانہ کیا۔ وصال سے قبل مرض الموت میں شدت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ’’ ابوبکرؓ سے کہو نماز پڑھائیں۔‘‘ سیّدہ عائشہؓ نے کہا۔ ’’یارسول اللہؓ! میرے والد بہت رقیق القلب ہیں، وہ آپ کی جگہ نماز نہ پڑھا سکیں گے۔‘‘ لیکن چوں کہ حکمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھا، چناں چہ سیّدنا صدیق اکبرؓ نے پہلی نماز، عشاء کی پڑھائی، پھر وصال کی صبح تک17نمازوں کی امامت کرائی۔
جنّت کی بشارت: رسول اللہؓ نے مختلف مواقع پر صدیق اکبرؓ کو جنّت کی بشارت دی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’حضورؐ نے فرمایا، ’’اے ابوبکرؓ !میری امّت میں سے سب سے پہلے تم جنّت میں داخل ہو گے۔‘‘ (ابو دائود)۔حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا، ’’تم غار میں میرے ساتھی رہے، حوضِ کوثر پر بھی میرے ساتھ رہو گے۔‘‘ (بخاری)۔
مرتد اور منکرِ زکوٰۃ سے جہاد: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کچھ لوگ زکوٰۃ سے منکر ہو گئے اور بہت سے نبوت کے جھوٹے دعوے دار پیدا ہو گئے تھے، آپؓ نے ان سب کے خلاف جہاد کا حکم جاری فرمایا۔ سب سے زکوٰۃ وصول کی اور فتنوں کو ختم کیا۔
عظیم الشان فتوحات: صدیق اکبرؓ کے مختصر دورِ خلافت میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئیں۔ اسلامی سلطنت میں75800مربع میل کا اضافہ ہوا، اسے اگر ان کی خلافت کے ہر دن سے تقسیم کر دیا جائے، تو ہر دن یعنی چوبیس گھنٹے میں چورانوے (94)میل روزانہ اسلامی مملکت میں اضافہ ہوتا رہا، جب کہ ان دنوں فوج کی نقل و حرکت کا ذریعہ اونٹوں اور گھوڑوں کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔
وصال: 8 جمادی الثانی 13 ہجری کو بیمار ہوئے، طبیعت زیادہ بگڑی، تو صحابہؓ کے مشورے سے حضرت عمر فاروقؓ کو اپنا جاں نشین مقرر فرمایا۔ بروز پیر 22جمادی الثانی13 ہجری بہ مطابق 22اگست634 عیسوی کو 15روز بیمار رہنے کے بعد61 سال کی عمر میں رحلت فرما گئے۔ سیّدنا عمر فاروقؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی، حجرۂ عائشہ میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں آرام فرما ہوئے۔