اسلام میں جس طرح عبادات اور معاملات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ،اسی طرح یہ حسنِ اخلاق ،تعمیرشخصیت اور کردار سازی کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔دین کا بنیادی ماخذقرآن کریم ہے۔یہ رشد و ہدایت کا سرچشمہ اور کردار سازی کا بنیادی منشور ہے۔یہ وہ کتابِ ہدایت ہے ،جس نے انسانیت کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے حسن اخلاق اور کردارسازی کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ارشادِ ربانی ہے: بے شک، یہ قرآن سب سے سیدھے اور مضبوط راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے، یہ روشنی کا پیغامبر ہے، یہ ایک مینارئہ نور ہے، جس سے سارا عالم رہتی دنیا تک تاریکی سے نجات پاتا رہے گا۔(سورۃ الاسراء)مزید فرمایا گیا: اللہ نے تمہارے لیے قرآن نازل کیا، رسول اللہ ﷺتم پر اللہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتے ہیں،تاکہ ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں۔ یہ ایک نسخۂ کیمیا ہے، جو خاک کو کیمیا اور ذرے کوجوہربناتا ہے،اس میں بیماروں کے لیے شفا اور صحت مندوں کے لیے سامانِ سکون ہے،یہ خدا کا ایسا قیمتی اور عظیم الشان عطیہ ہے کہ اگر مضبوط اور بلند وبالا پہاڑوں پر اتارا جاتا تو وہ اس کا وزن برداشت نہ کرپاتے اور ہیبت سے ریزہ ریزہ ہوجاتے۔جب کہ سورۃ الحشر میں فرمایا گیا: ’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتاردیتے تو تم دیکھتے کہ وہ لرزہ براندام ہے اور ہیبتِ الٰہی سے ریزہ ریزہ ہوچکا ہے‘‘۔قرآن دین کامل کی نمائندہ کتاب ہے، یہ ایسی کتابِ ہدایت ہے، جو انسانیت کو سیدھی اور معتبر راہ دکھاتی ہے۔قرآن آج بھی تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور ساری مشکلات کا حل ہے، جس طرح قرآن نے صدیوں پیش تر حسن اخلاق سے عاری اور سیرت وکردار سے دور،ایک حد سے زیادہ گری ہوئی قوم کو بلندیوں کے آسمان پر پہنچادیا تھا اور اسی کتابِ ہدایت کی بدولت ایک انتہائی پستی کا شکار معاشرہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے میں تبدیل ہوگیا، جس نے ساری انسانیت کو ایک لڑی میں پرودیا، یہ سب اسی کتابِ مقدس کا اعجاز تھا، اس کی معجزانہ قوتیں آج بھی زندہ ہیں۔ قرآن آج بھی قوموں اور افراد کو بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، شخصیتوں کی تعمیر کا نسخہ آج بھی پوری طرح کارگر ہے، قرآن کا دامن اس قسم کے شہ پاروں سے بھرا پڑا ہے، ہم ان میں سے بطورِ نمونہ چند کوذکر کرتے ہیں:
کسی فرد یا قوم کی تعمیر میں سب سے بڑا رول قوتِ ایمانی کا ہے، ایمان کا درجہ فرد یا قوم کی زندگی کے لیے روح کا ہے، یہ شخصیت کو زندگی اور زندگی کو توانائی بخشتا ہے، اس کے بغیر دنیا میں نہ کوئی پنپ سکتا ہے اور نہ ابھرسکتا ہے،شخصیت بنتی ہے اسی بنیاد پر، اسے ہٹاکر کی جانے والی ہر کوشش فقط خسارے کا سودا ہے،جس کا نظارہ ہردور میں چشمِ فلک نے کیا ہے اور جس پر ماہ وسال کی گردشیں گواہ ہیں، قرآنِ کریم نے صدیوں کے اسی تجربے پر تصدیق کی مہر لگائی ہے۔(ترجمہ) قسم ہے زمانے کی، بے شک، انسان گھاٹے میں ہے ،سوائے ایمان والوں کے جنہوں نے نیک اعمال کیے، ایک دوسرے کو حق کی اور صبر کی تلقین کی۔(سورۃ العصر) یہ سورت حسن اخلاق اورشخصیت سازی کے مسئلے میں سب سے مرکزی حیثیت رکھتی ہے، اس سورت کا موضوع ہی انسانیت کی تعمیر اور نفع ونقصان کے معیار کا تعین ہے، قرآن پورے یقین کے ساتھ ( قرآن کا ہر بیان یقینی ہوتا ہے)اور ہر قسم کے شک وشبہے کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے : جو لوگ ایمان والے نہیں ہیں، وہ گھاٹے میں ہیں،اگرچہ وہ بظاہر نفع میں دکھائی دیں، اگر کوئی صاحبِ ایمان گھاٹے میں دکھائی دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے اپنے ایمان پر محنت کرنی چاہیے، قرآنِ کریم نے ایسے ایمان والوں کو ہدایت کی ہے: ’’ اے ایمان والو، تجدِید ایمان کرو‘‘۔صاحبِ قرآنﷺ نے نزولِ قرآن کے آغاز سے پوری مکی زندگی صرف ایمان کی محنت پر گزاری اور عمل کی جگہ پر نماز اور تلاوتِ قرآن کے علاوہ کوئی حکمِ شرعی بندوں کو نہیں دیا گیا، بندوں میں یہ یقین بنایاگیا کہ اصل چیز اللہ کی رضا ہے، ساری محنت اسی لیے کی جانی چاہیے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے، اس لیے زندگی کے ہر مسئلے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اللہ کی مرضی کیاہے؟ اللہ کی مرضی اور اس کا حکم جان لینے کے بعد پھر اپنی کوئی مرضی باقی نہیں رہ جاتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) فیصلہ صرف اللہ کا ہے، اسی پر میرا بھروسا ہے اور بھروسا کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔(سورۂ یوسف)
جب کہ سورۃ المائدہ میں فرمایا گیا:( ترجمہ) اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق جولوگ فیصلہ نہیں کرتے، وہ فاسق ہیں۔جب اللہ اور اس کے رسول ﷺنے کسی قضیے میں فیصلہ سنادیا تو پھر کسی مومن مرد یا عورت کے لیے اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔نماز اور تلاوتِ قرآن بھی اگرچہ عمل کے درجے کی چیز ہیں، لیکن یہ بھی ایمان ہی کا تکملہ ہیں، ایمان کو غذا انہی کے وسیلے سے ملتی ہے، اللہ سے رابطے کا یہی ذریعہ ہیں، بندہ ان ہی واسطوں سے اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے،یہ دونوں چیزیں عبدومعبود کے رشتے کو مضبوط کرتی ہیں، اس طرح گویا یہ بھی ایمان ویقین ہی کا حصہ ہیں۔ ایمان نام ہے دل سے مان لینے کا اور اسلام نام ہے سرِتسلیم خم کردینے کا، جسے قرآن اتباع، اطاعت اورانقیاد وغیرہ اصطلاحات سے ذکر کرتا ہے، قرآن اپنے ماننے والوں کا شروع سے یہ ذہن بناتا ہے کہ رب کی اطاعت ہی بندگی ہے، ایسے لوگوں کو قرآن رضوانِ الٰہی کا پروانہ دیتا ہے: ( ترجمہ) ’’اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہ سعادت رب سے ڈرنے والوں کو ملتی ہے‘‘۔
قرآن نے یہ فکردی ہے کہ قوتوں کا سرچشمہ رب العالمین ہے، موت وحیات کے تمام مسائل کی ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے،مال واسباب صرف ظاہری ذرائع ہیں، نہ یہ کسی کو زندگی دے سکتے ہیں اور نہ کسی مسئلے کو بناسکتے ہیں، فیصلے تمام تر احکم الحاکمین کے دربار سے ہوتے ہیں،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کیاوہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا، ہرگز نہیں یہ سارا مال جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔(سورۂ ہمزہ)جب کہ سورۂ آل عمران میں ہے:( ترجمہ) اگر اللہ تمہارا مددگار ہوتو تم پر کوئی غالب نہیںآ سکتا، اوراگر اللہ تمہیں رسوا کرے تو پھر اس کے بعد تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا، پس بھروسا صرف اللہ پر کرنا چاہیے‘‘۔اس طرح تمام وہ اچھی باتیں جو اللہ کو پسند ہیں، بندہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اورہر ایسے کام سے ڈرتا ہے، جن سے پروردگار ناراض ہوتا ہے،اس طرح انسان فضائل واخلاق کا پیکر،امن ومحبت کا پیامبر اور خداشناشی وخودشناشی کا سنگم بن جاتا ہے، اسے دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے، اس کی پیشانی میں خدا کا نور جھلکتا ہے، اس کے پاس بیٹھنے کو جی چاہتا ہے، اس کی باتیں دل میں اترتی چلی جاتی ہیں، اس طرح ایک معیاری اور تعمیرپسند سوسائٹی کی بنیاد پڑتی ہے، تو انسان کی شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑا حصہ ایمان ویقین کا ہے،یہ نہ ہوتو ساری چیزیں کھوکھلی ہیں۔