• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر میں کسی کا یہ قول زبان زد عام ہے کہ ’’بھارت کو کشمیر چاہئے، کشمیری نہیں‘‘۔ اسی لئے اس نے کشمیریوں پر ظلم کی تمام حدیں پار کر لی ہیں جس کا ردعمل بھی اتنا ہی سخت سامنے آرہا ہے۔ وادی میں تقریباً روزانہ شہدا کے جنازے اٹھتے ہیں، جن میں عورتیں، مرد، نوجوان اور بچے ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ نوجوان نسل اب جلسے جلوسوں سے آگے بڑھ کر ہتھیار اٹھا رہی ہے۔ بھارتی فوج انہیں کچلنے میں بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔ بھارتی فوجی نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ بعض خود کشیاں کر رہے ہیں اور بعض ایک دوسرے کو گولیاں مار رہے ہیں۔ اور ان واقعات کی خبریں بین الاقوامی میڈیا میں بھی آرہی ہیں۔ کشمیری قیادت کھل کر بھارت کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ حریت کانفرنس کا تو روزِ اول سے نصب العین ہی بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے نکالنا ہے۔

اب بھارت نواز جماعتیں اور ان کے لیڈران بھی بھارتی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور مودی سرکار پر پاکستان سے مذاکرات کے لئے دبائو ڈال رہے ہیں۔ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نہایت سخت زبان میں کشمیریوں کے قتل عام پر بھارت کی مذمت کر رہے اور متنبہ کر رہے ہیں کہ بھارتی مظالم سے جموں و کشمیر میں مزاحمتی تحریک روز بروز مضبوط ہو رہی ہے، مودی حکومت بھارتی آئین سے اس شق کو منسوخ کرنے پر بضد ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں۔ اسے بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت حاصل ہے۔

سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے صاف کہا ہے کہ اس شق کو ختم کیا گیا تو بھارت سے مقبوضہ کشمیر کا رسمی تعلق بھی ختم سمجھیں۔ ہم نے جن شرائط پر بھارت سے تعلق قائم کیا تھا، ان کی خلاف ورزی کی گئی تو ہم بھی بھارت سے تعلق رکھنے کے پابند نہیں، اس سے بھی ایک سخت بیان مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے سابق اسپیکر اور نیشنل کانفرنس کے رہنما اکبر لون کا سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کپواڑہ میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’جو شخص پاکستان کو ایک گالی دے گا میں اس کو دس گالیاں دوں گا، بھارت پاکستان سے دوستانہ تعلقات رکھے میں امن کا داعی ہوں اور پاکستان کا دوست ہوں‘‘۔

انہوں نے پاکستان کی حمایت میں نعرے لگوائے۔ گزشتہ سال انہوں نے اسمبلی میں بھی پاکستان کی حمایت میں نعرے لگائے تھے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی حمایت کس درجے پر ہے، آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت اقوام متحدہ کی قردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل چاہتی ہے۔ اپنے تاسیسی نظریے کے اعتبار سے آزاد کشمیر کی حکومت پوری ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ ہے اسی لئے سرکاری طور پر اسے ’’آزاد حکومت جموں و کشمیر‘‘ کا نام دیا گیا ہے مگر اس کی یہ حیثیت بین الاقوامی طور پر تسلیم نہیں کی جاتی، اسے پاکستان کے زیر انتظام لوکل اتھارٹی قرار دیا جاتا ہے۔ یہی حیثیت کنٹرول لائن کے دوسری طرف کے علاقے کی بھی ہے جسے ’’بھارتی مقبوضہ کشمیر‘‘ کا رتبہ دیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر پاکستان کی ذمہ داری ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر بھارت کی۔ چنانچہ بین الاقوامی فورموں پر یہی دو ممالک جموں و کشمیر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس طرح 84ہزار مربع میل سے زائد رقبے والی ریاست عالمی سطح پر پاکستان اور بھارت کے درمیان محض زمین کا تنازع بن کر رہ گئی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر چاہتے ہیں کہ پاکستان اس صورت حال کے منفی پہلوئوں پر غور کرے۔ فاروق حیدر مظفر آباد کے اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی تحریک آزادی کشمیر کے لئے جدوجہد اور خدمات لازوال ہیں۔ ان کے والد راجہ حیدر خان 1931میں سری نگر جیل کے باہر بغاوت والے واقعے میں اس وقت گرفتار ہوکر پابندِ سلاسل ہوئے جب وہ بہت کم عمر اور آٹھویں جماعت کے طالبعلم تھے۔ وہ آزاد کشمیر کے وزیر دفاع بھی رہے۔ خود راجہ فاروق حیدر متعدد بار آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اہم وزارتوں پر فائز رہے۔ وہ دوسری بار آزاد ریاست کے وزیراعظم بنے ہیں۔ ایک عملیت پسند وزیراعظم کے طور پر انہوں نے تعمیر و ترقی کے دوسرے کاموں کے علاوہ آزاد حکومت کو مالی خود مختاری دلائی جو ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ جموں و کشمیر کے مستقبل کے بارے میں وہ بہت پُرامید ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت کو ریاست سے جانا ہی جانا ہے، جان کی بازی لگانے والے کشمیری اب اسے ٹکنے نہیں دیں گے۔ دیر صرف اس لئے ہو رہی ہے کہ کشمیریوں کو اس مسئلے کا فریق نہیں مانا جاتا، جس کی وجہ سے عالمی برادری اسے صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان زمین کا جھگڑا سمجھتی ہے اور ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کی خواہشات کا اسے ادراک ہی نہیں۔ جس طرح فلسطین کے معاملے میں پی ایل او کا اختیار تسلیم کیا گیا اسی طرح آزاد کشمیر کی حکومت کو بھی تنازعہ کشمیر کے تناظر میں عملی کردار دیا جائے، حریت کانفرنس کا رول تسلیم کیا جائے یا دونوں کو مشترکہ کردار دے کر تحریک آزادی کو آگے بڑھایا جائے۔ دنیا کی نظر میں کشمیری جب جموں و کشمیر کے تنازع میں اصل فریق تسلیم کئے جائیں گے تو ان کی بات زیادہ توجہ سے سنی جائے گی۔ اس وقت دنیا کشمیر کے حوالے سے صرف پاکستان اور بھارت کو فریق سمجھتی ہے جب تک کشمیریوں کو حقیقی رول اور اسٹیٹس نہیں دیا جائے گا یہ مسئلہ تعطل کا شکار رہے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیریوں کی اصل منزل پاکستان ہے، وہ اسے کبھی دھوکہ نہیں دیں گے۔ پاکستان میں شاید کوئی دھوکہ دے سکتا ہے مگر کشمیری ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔

تازہ ترین