دُنیا میں کئی خوش نصیب لکھاری ہیں، جنہوں نے ادب کی دنیا میں بہت نام پیدا کیا، ایسا ہی ایک نام امریکی ناول نگار’’ڈین برائون‘‘ کا ہے، جن کے ناولوں کا 56 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ معروف جریدے ٹائم میگزین نے اُن کو دنیا کی بااثر شخصیات میں بھی شامل کیا ہے۔ اُن کے کئی ناول نیویارک ٹائمز میں بیسٹ سیلر کے طور پر نمایاں رہے اور ادبی دنیا میں ان کی دھوم مچی رہی۔ اُن کا شمار امریکا کے موجودہ ادیبوں میں مقبول ترین ادیب کے طور پر ہوتا ہے، جس کے ناولوں کی کاپیاں کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوچکی ہیں جب بھی ان کا نیا ناول مارکیٹ میں آتا ہے تو قارئین اور مداح اسے خریدنے کے لیے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔
ڈین برائون جیسی شہرت بہت کم ادیبوں کے حصے میں آئی، لیکن ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی تخلیقی شخصیت سے کچھ منفی تاثر ات بھی جڑے ہوئے ہیں، جن میں سرِفہرست ایک تصور کچھ یوں ہے کہ وہ ایک سطحی ادیب ہیں، جن کی کہانیوں اور کرداروں میں عیسائیت اور تاریخ کو تجسس کے کلائمکس کے ساتھ شامل کرکے فارمولے کے طور پر لکھا جاتا ہے، اسی وجہ سے بہت سارے ادبی ناقدین انہیں ناپسند کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے، وہ اتنی مقبولیت کے باوجود ابھی تک نوبیل ادبی انعام سمیت کسی بڑے ادبی ایوارڈ کے لیے نامزد نہیں ہوسکے۔ فی الحال ہم نے یہاں اُن کے جس ناول کا انتخاب کیا ہے، اس کا نام Infernoیعنی جہنم ہے۔ کتابی شکل میں یہ ناول 2013 میں شائع ہوا، جبکہ اس ناول پر اسی نام سے فلم 2016 میں بنائی گئی۔ ناول اورفلم دونوں کو مقبولیت ملی۔
ڈین برائون کے والد ریاضی کی تدریس سے وابستہ اور نصابی کتب لکھتے تھے، جبکہ والدہ چرچ سے منسلک تھیں۔ اُنہوں نے اپنے تخلیقی کام میں ان دونوں جہتوں کو شامل کیا ہے۔ اُن کی کہانیوں میں عیسائیت اور ریاضی دونوں ملتے ہیں، جن کو یہ تاریخ اور منطق کے محور پر رکھ کر لکھتے ہیں۔ اپنی کہانیوں میں کئی کرداروں کے نام اصل زندگی سے لیے،جس میں ان کا تخلیق کیا ہوا پروفیسر کامرکزی کردار بھی شامل ہے۔ وہ خود بھی انگریزی اور ہسپانوی زبانوں کی تدریس سے وابستہ رہے، ساتھ ساتھ ناول نگاری بھی کرتے رہے، پھر ایک موڑ ایسا آیا، جب اُنہوں نے مستقل بنیادوں پر ناول نگاربننے کا فیصلہ کرتے ہوئے تدریس کے پیشے سے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنی پوری توجہ ناول نگاری پر مرکوز کی۔
اُنہوں نے اپنی کہانیوں کو سلسلہ وار لکھنا شروع کیا، ان کی تمام کہانیاں ایک فرضی کردار’’پروفیسر رابرٹ لینڈن‘‘ کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ اب تک اس کردار کے تناظر میں وہ پانچ ناول لکھ چکے ہیں، جن کے نام بالترتیب، اینجلز اینڈ ڈیمونز، دی ڈیوانچی کوڈ، دی لوسٹ سمبل، انفیرنو اور اوریجن شامل ہیں۔ زیرِ نظر ناول Inferno یعنی جہنم بھی ایسے ہی تخلیقی احساس کے ساتھ لکھا گیا ہے، جس کو پڑھ کر ان کے روایتی اندازِ تحریر کا پتہ چلتا ہے، یہ جس طرح شعوری طور پر مذہب کو بھی کہانیوں میں اپنے مخصوص نگاہ سے پیش کرتے ہیں، اس کی وجہ سے انہیں ادبی حلقوں میں پسند نہیں کیا جاتا ہے۔
ڈین برائون کے ناول’’جہنم‘‘ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ مرکزی کردار پروفیسر رابرٹ لینڈن جس کا تعلق ہاورڈ یونیورسٹی سے ہے، وہ نسیان کا مریض ہے اور اپنے کیرئیر کے اس موڑ پر، اپنی یادداشت کمزور ہونے کی وجہ سے اُس کو کئی طرح کی پریشانیاں جھیلنا پڑتی ہیں، اسی تناظر میں کہانی میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کو ایک بڑی دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے، جس میں ایک وائرس کے ذریعے آدھی سے زیادہ دنیا ختم ہوجانے کا خدشہ ہے، اب پروفیسر کے کردار کے ذریعے بتایاگیا ہے، کس طرح وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر دنیا کو اس عذاب سے محفوظ کرتا ہے ۔ یہ کردار پچھلے ناولوں سے ہوتا ہوا، اس ناول کے بعد، مستقبل میں آنے والے ناولوں کی کہانیوں میں اس طرح ضم ہوجائے گا، قاری کو محسوس تک نہ ہوگا کہ کہانی بدل چکی ہے۔ ڈین برائون کا یہ بھی خاصا ہے کہ وہ اس کردار کے ساتھ کہانی کو بیان کرتے ہوئے ایک مختصر مدت کا منظر نامہ مہیا کرتے ہیں،یوں ایک خاص وقت میں مشن کو مکمل کرنا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے کہانی میں بہت تجسس پیدا ہوجاتا ہے، ناول’’جہنم‘‘ بھی اس بات کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔
ناول نگار کا خیال ہے، وہ اس سیریز کے تحت تقریباً درجن بھر ناول لکھیں گے، ابھی تک ان ناولوں کی تعداد پانچ ہے، جن میں سے تین پر ہالی ووڈ میں فلمیں بن چکی ہیں اور دنیا بھر میں سینما اور ادب کی شعبوں میں اُنہیں بے پناہ مقبولیت مل چکی ہے، لیکن ان پر تاحال سطحی ادب لکھے جانے کا الزام ایسا ہی ہے، جس طرح پاکستان میں رضیہ بٹ، عمیرہ احمد اور نمرہ احمد وغیرہ کے تخلیق کردہ ادب کے سطحی ہونے کی بات کی جاتی ہے۔ اسی اعتراض کا سامنا ڈین برائون کو بھی ہے، لیکن وہ کسی بات کی پرواہ کیے بغیر، اپنے طے شدہ فارمولے کے مطابق، اپنے پسندیدہ کردار کے ہمراہ، ناولوں کی سیریز تخلیق کر رہے ہیں، جس کی دنیا بھر میں طلب اور پسندیدگی برقرار ہے۔ اُنہوں نے ناول نگاری میں ماضی کے معروف امریکی ادیب سڈنی شیلڈن کے انداز کوبھی مدنظر رکھا ہے اور انہی کی راہ پر چلتے ہوئے، ناول کی پگڈنڈی سے ہوتے ہوئے فلم کے گلستان میں داخل ہوچکے ہیں۔
ڈین برائون کی فلم’’جہنم‘‘میں پروفیسر رابرٹ لینڈن کا مرکزی کردار معروف ہالی ووڈ اداکار’’ٹام ہانکس‘‘ نے ادا کیا ہے۔ اس سے پہلے اسی ناول نگار کے دیگر دو ناولوں پر بننے والی فلموں میں بھی ٹام ہانکس نے ہی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ اس فلم کے ہدایت کار’’رون ہاورڈ‘‘ ہیں، جو ہالی ووڈ کے منجھے ہوئے ہدایت کار اور اداکار ہیں، 60کی دہائی سے فلم کے شعبے میں فعال ہیں۔ فلم کا اسکرپٹ ’’ڈیوڈ کوئپ‘‘ نے لکھا ہے، جن کے کریڈٹ پر اس فلم سے پہلے جراسک پارک اور مشن امپاسبل جیسی فلمیں ہیں۔
اس فلم کے دیگر فنکاروں میں فیلیسٹی جانز، سڈسی بیبٹ، بین فوسٹر اور دیگر شامل ہیں، جبکہ دو مسلمان اداکاروں نے بھی کام کیا ہے، جن میں سے ایک عمر ہیں، جن کا تعلق فرانس سے ہے، جبکہ دوسرے ہندوستانی فنکار عرفان خان ہیں، جنہوں نے اپنے کردار سے فلم بینوں کو بے حد متاثر کیا ہے۔ یہ فلم دنیا بھر میں پسند کی گئی اور اس نے باکس آفس پر بھی کامیابی حاصل کی۔ فلم کی عکس بندی اٹلی، ہنگری اور ترکی میں ہوئی ہے، جبکہ انگریزی، فرانسیسی، اطالوی اور ترکی زبانیں فلم کے اسکرپٹ میں استعمال ہوئی ہیں۔ ان زبانوں کے علاوہ، اسے دنیا بھر میں مقامی زبانوںکے ساتھ ڈب کرکے ریلیز کیا گیا ہے۔
ڈین برائون نے یہ بات سمجھ لی ہے، اگر فارمولا ادب ہی تخلیق کرنا ہے، تو اس کے لیے فلم کے میڈیم کا سہارا لینا پڑے گا، تاکہ مقبولیت کا تناسب برقرار رہے، جس طرح پاکستان میں ڈائجسٹ لکھاریوں نے ڈراما نگاری پر اپنی اجارہ داری قائم کی ۔ ڈین برائون کے لکھے ہوئے ناولوں میں شاید اتنی جان نہ ہو، لیکن ان کے ناولوں پر بننے والی فلموں کی وجہ سے ان کے کام کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس کے باوجود آنے والا وقت طے کرے گا کہ ادبی طورپر ان کامقام کیاہے اور وہ ادبی تاریخ کا مستند حوالے بن سکیں گے یانہیں ،لیکن فی الحال ان کی شہرت کاچاند روشن ہے ۔ ناول اور فلم کے مابین اس تخلیقی تعلق میں، یہاں ناول سے زیادہ فلم آگے دکھائی دے رہی ہے، اس لیے یہ ناول پڑھنے کی بجائے دیکھنے میں خاصے کی چیز ہے، اس فلم میں ڈین برائون کے کمزور کرداروں کا بوجھ اچھے اداکاروں نے اٹھا رکھا ہے، جس طرح ایک مثال بھارتی اداکار عرفان خان کی ہے، انہوں نے فلم میں جو کردار نبھایا ہے، وہ ناول میں بے نام تھا، فلم کے ذریعے اس کو نام ملا، اس طرح کی بہت ساری تبدیلیوں سے گزر کر یہ فلم ناول سے کئی قدم آگے دکھائی دیتی ہے۔