• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویؐ میں سنّت ِ ابراہیمی قربانی کو دین کا بنیادی شعار قرار دیتے ہوئے اس کی فضیلت و اہمیت پر مفصّل روشنی ڈالی گئی ہے۔ارشادِ ربانی ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر یعنی پس نماز پڑھو اپنے رب کے واسطے اور قربانی کرو۔’’قربانی‘‘ کا لفظ قربان سے نکلا ہے،عربی زبان میں قربانی اس عمل کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے ،خواہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات، لیکن عرفِ عام میں یہ لفظ قربانی کے جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے ۔چناں چہ قرآن کریم میں یہ لفظ چند جگہ مستعمل ہوا ہے اور اکثر مواقع پرقربانی کے جانور کا ذبیحہ ہی مراد ہے ۔

رسول اکرم ﷺکا ارشادِ گرامی ہے: قربانی کے دن اللہ کو قربانی سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں، قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا۔ نیز فرمایا: قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے یہاں سندقبولیت حاصل کر لیتا ہے،اس لیے تم قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔(ترمذی) قربانی کا بنیادی مقصد اپنے رب کے ہر حکم کے آگے سرتسلیم خم کردینا اور اہل ایمان میں جذبہ ایثار پیدا کرنا ہے۔قربانی کرنے والے شخص کی نیت یہ ہونی چاہیے کہ آج ہمارے رب نے جانور کی قربانی کا حکم دیا ہے تو ہم اسے بہ خوشی تسلیم کرتے ہیں اور کل اگر ہمارا رب ہماری جان کی قربانی مانگے گا تو ہمارے مالک وخالق کے نام پر یہ جان بھی قربان ہے۔ذیل میں قربانی کے بنیادی مسائل و احکام بیان کیے جاتے ہیں:۔

قربانی کے بنیادی مسائل و احکام

٭… قربانی ہر اس عاقل ،بالغ مقیم مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے جو نصاب کا مالک ہے یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا سامان ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے۔یعنی ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا رہائش کے مکان سے زائد مکانات یا جائیداد وغیرہ ہوں یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہو،جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو یا مال تجارت، شیئر ز وغیرہ ہوں تو اس پر قربانی کرنا لازم ہے۔(ردالمحتار، کتاب الاضحیۃ)

قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں، اگر کوئی شخص ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے نصاب کا مالک ہوجائے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔(فتاویٰ ہندیہ)٭… اگر کوئی قربانی کے تین دنوں میں سے آخری دن بھی کسی صورت سے نصاب کے برابر مال یا ضرورت سے زائد سامان کا مالک ہوجائے تو اس پر قربانی واجب ہے۔(ردالمحتار، کتاب الاضحیۃ)

٭… جس کے پاس رہائش کے مکان کے علاوہ زائد مکان موجود ہے، خواہ تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو، ضروری مکان کے علاوہ پلاٹ/مکانات ہیں، ضروری سواری کے علاوہ دوسری گاڑیاں ہیں، تو یہ شخص صاحب نصاب ہے، اس پر قربانی واجب ہے۔(ہندیہ، کتاب الاضحیۃ)٭… تجارتی سامان خواہ کوئی بھی چیز ہو، اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس کے مالک پر قربانی واجب ہوگی۔(بدائع)

٭… جس پر صدقۂ فطر واجب ہے، اس پر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہے، اور اگر اتنا مال نہ ہو جتنے کے ہونے سے صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر قربانی کرے گا تو ثواب ملے گا۔(شامی)

٭… اگر عاقل بالغ مقیم عورت صاحب نصاب ہے، یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنی چیزیں ہیں کہ ان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو ایسی عورت پر قربانی واجب ہے۔(ہندیہ، کتاب الاضحیۃ)

٭… قربانی کے ایام میں قربانی کا جانور ذبح کرکے قربانی کرنا ضروری ہے، اس کے بدلے رقم صدقہ کرنا، حج کرانا، کسی غریب کی امداد کردینا کافی نہیں۔(فتاویٰ ہندیہ) ان چیزوں کے کرنے سے الگ ثوب ملے گا، لیکن قربانی نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔(فتاویٰ ہندیہ) قربانی کے ایام گزر جانے کی صورت میں قربانی کے ایک حصے کی قیمت کے برابر رقم صدقہ کردینا لازم ہوگا۔(ردالمختار)

٭… دیہات میں قربانی کا وقت : (جہاں جمعہ اور عیدین کی نماز واجب نہیں ہے) وہاں صبح صادق طلوع ہونے کے بعد سے قربانی کرنا جائز ہے۔(ہندیہ)٭… شہر اور قصبات جہاں جمعہ اور عیدین کی نماز واجب ہے ،وہاں عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ہے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد قربانی کرے۔(فتح القدیر) اگر کسی نے عید کی نماز سے فارغ ہونے سے پہلے قربانی کی ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا،اس پر نماز کے بعد دوسری قربانی کرنا لازم ہوگی۔(فتاویٰ ہندیہ)

٭… پورے شہر میں کسی مسجد یا عیدگاہ میں عید کی نماز ہوگئی تو اس وقت قربانی کرنا جائز ہے، خود قربانی کرنے والے کا عید کی نماز سے فارغ ہونا شرط نہیں۔(فتاویٰ ہندیہ)اگر کسی وجہ سے عید کی نماز دسویں تاریخ کو نہیں پڑھی گئی تو اس روز زوال کے بعد جانور ذبح کرنا جائز ہوگا۔(فتاویٰ ہندیہ)

٭… قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں:پہلی قسم: اونٹ نرو مادہ۔ دوسری قسم: بکرا، بکری، مینڈھا، بھیڑ، دنبہ نرو مادہ، تیسری قسم: گائے بھینس نرو مادہ۔(فتاویٰ ہندیہ)ان جانوروں کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی جائز نہیں، اور ان کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ یہ وحشی نہ ہوں،بلکہ پالتو اور آدمیوں سے مانوس ہوں۔(بدائع) ٭… اگر باپ کی وفات ہوچکی ہے، اور اولاد ایک ساتھ رہ کر کاروبار کرتی ہے تو اگر ان کےمشترک مال یا جائیداد کو شرعی طور پر تقسیم کرنے کے حساب کے بعد ہر اولاد صاحب نصاب ہوجاتی ہے تو ہر ایک بالغ اولاد کو اپنے اپنے نام سے قربانی کرنا ضروری ہے، اگر کسی ایک بھائی کی طرف سے قربانی کی باقی بھائیوں کی طرف سے نہیں کی تو بقیہ بھائیوں کے ذمہ قربانی کا وجوب باقی رہ جائے گا۔(بدائع)

٭… میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے، اور میت کو ثواب ملے گا۔ حضرت علی ؓایک دنبہ اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک دنبہ نبی کریمﷺ کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔(ردالمحتار)

٭… گائے، بیل بھینس اور اونٹ، اور اونٹنی میں سات حصے ہیں ،لہٰذا کسی بھی بڑے جانور میں سات افراد شریک ہو کر سات حصے قربانی کرسکتے ہیں، البتہ یہ شرط ہے کہ کسی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو، اور سب کی نیت قربانی یا عقیقہ کرنے کی ہو، گوشت کھانے یا لوگوں کو دکھانے کی نیت نہ ہو۔(بحر)

٭… اگرکسی پر قربانی واجب تھی، لیکن قربانی کے تینوں دن گزر گئے، اور اس نے قربانی نہیں کی تو ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کردے، اور اگر قربانی کا جانور خرید لیا اور کسی وجہ سے قربانی نہ کرسکا تو زندہ جانور صدقہ کردیا جائے، اور اگر مسئلے سے ناواقف ہونے کی وجہ سے بقر عید کے بعد اس جانور کو ذبح کر ڈالا تو غرباء پر اس کا گوشت تقسیم کردیا جائے، مال داروں کو نہ دیا جائے۔(شامی)اور اگر جانور ضائع ہوگیا اور قربانی نہ کرسکا، اور خریدنے والا اگر امیر ہے تو اس کے ذمہ اس کی قیمت کا صدقہ کردینا واجب ہے۔(درالمختار)

(…جاری ہے…)

تازہ ترین