• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سن 47میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا، اصول یہ طے ہوا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے پاس جائیں گے جبکہ نواب اور مہاراجے اپنی ریاستوں کے الحاق کا معاملہ عوام کی خواہش کے مطابق خود طے کریں گے۔ تین ریاستیں ایسی تھیں جو آزاد رہنا چاہتی تھیں سو ان سے یہ فیصلہ بروقت نہ ہو سکا، جونا گڑھ، حیدرآباد اور جموں کشمیر۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد ہندو اکثریتی ریاستیں تھیں جن کے حکمران مسلمان تھے جبکہ کشمیر مسلم اکثریت تھی جس کا حکمران ہندو تھا، مہا راجہ ہری سنگھ۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد کو بھارت نے اس بنیاد پر اپنا حصہ بنا لیا کہ وہ ہندو اکثریتی علاقے ہیں مگر یہ اصول جموں کشمیر پر لاگو نہیں کیا، کشمیر میں بغاوت پھوٹ پڑی اور اس دوران پاکستان سے قبائلی عوام نے کشمیر کو مہاراجہ کے چنگل سے آزاد کروانے کے لئے حملہ کر دیا، اس سے نمٹنے کے لئے ہری سنگھ نے کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کی حمایت سے بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا جس کے بدلے میں یہ طے پایا کہ بھارتی فوج کشمیر میں امن و امان بحال کروائے گی اور الحاق کا معاملہ بعد ازاں کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے گا۔ بھارت سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف شکایت لے کر چلا گیا کہ پاکستان حملہ آواروں کی پشت پناہی کر رہا ہے، سلامتی کونسل نے کشمیر کو ’’حملہ آوروں‘‘ سے پاک کرنے کی سفارش کی اور پاکستان اور بھارت کو علاقے میں استصواب رائے کروانے کے لئے کہا تاکہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق الحاق کا معاملہ طے ہو سکے، دونوں ممالک نے یہ سفارشات قبول کر لیں۔ جواہر لعل نہرو اس وقت ہندوستان کے وزیراعظم تھے، کشمیر میں ایک آئین ساز اسمبلی وجود میں لائی گئی اور شیخ عبداللہ کشمیر کے وزیراعظم بن گئے۔ ہندوستانی نقطہ نظر سے اس سارے معاملے کو آئینی اور قانونی بنانے کے لئے طے کیا گیا کہ ہندوستانی سرکار کو کشمیر میں صرف مواصلات، دفاع اور خارجہ امور سے متعلق محدود اختیارات حاصل ہوں گے، اس غرض سے بھارتی آئین میں شق 370/35Aشامل کی گئی جس کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تاکہ کشمیریوں کا تشخص بحال رہے اور اس مسلم اکثریتی علاقے کی آبادی کو محفوظ رکھا جا سکے، اس مقصد کے لئے یہ قانون وضع کیا گیا کہ کوئی بھی غیر کشمیری ریاست جموں و کشمیر میں جائیداد خرید سکے گا اور نہ ملازمت حاصل کر سکے گا، یوں کشمیر کو ایک ایسی حیثیت دی گئی جو دیگر ہندوستانی صوبوں کو حاصل نہیں تھی، شق 370کے تحت یہ انتظام اُس وقت تک کے لئے تھا جب تک کشمیر کے الحاق کا معاملہ حتمی طور پر طے نہیں پا جاتا، گویا آرٹیکل 370نے ہندوستان اور کشمیر کے باہمی تعلق کی تشریح کردی اور ہندوستان کو ایک عارضی قانونی جواز فراہم کر دیا جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا تھا کہ پورے ہندوستان میں ایک سرکار اور ایک آئین ہونا چاہئے، سو اس مرتبہ جب اسے بھرپور اکثریت ملی تو اس نے ایک آرٹیکل 370کو اٹھا کر باہر پھینک دیا، بی جے پی کے حمایتیوں کے نزدیک یہ انقلابی اقدام ہے، جبکہ سیاسی مخالفین اسے ہندوستانی آئین پر شب خون مارنے کے مترادف کہہ رہے جبکہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔

مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر کا حکمران تھا، اقتدار اعلیٰ اس کے پاس تھا، بٹوارے کے وقت اس کے پاس یہ اختیار موجود تھا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لے مگر 26اکتوبر 1947تک اس نے یہ فیصلہ نہیں کیا، 26اکتوبر کو اس نے عارضی طور پر جب ہندوستانی سرکار کے ساتھ چند شرائط کے تحت معاہدہ کیا تو اس عارضی الحاق کے بدلے میں اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت حاصل کی تھی جسے بھارت نے ایک آئینی شق(370) کے ذریعے تحفظ دیا، 5اگست 2019کو جب ہندوستان نے وہ خصوصی حیثیت ختم کر کے کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا تو گویا ہندوستان نے اس معاہدے کو ہی ختم کر ڈالا جس کے تحت کشمیر کا عارضی الحاق ہوا تھا، جس کے تحت آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی تھی اور جس کے تحت بھارت کی کشمیر میں موجودگی کا(سچا جھوٹا) قانونی جواز بنتا تھا۔ اب چونکہ خود ہندوستان نے کشمیر کے ساتھ کیا گیا عارضی الحاق کا معاہدہ ختم کر دیا ہے تو اس کے ساتھ ہی جموں کشمیر کی وہ حیثیت بحال ہو گئی جو 26اکتوبر 1947سے پہلے تھی۔ یوں سمجھیں کہ اُس وقت دو فریقین میں معاہدہ ہوا، ایک فریق (کشمیر/مہاراجہ) نے چند مخصوص شرائط کے عوض دوسرے فریق (انڈین یونین) کو کشمیر میں دفاع، مواصلات اور خارجی معاملات کے محدود اختیارات دیے اور یہ اس وقت تک تھا جب تک کشمیریوں کو ان کی خواہش کے مطابق الحاق یا آزادی کا حق نہیں ملتا، چونکہ یہ حق ابھی نہیں ملا تھا سو 5اگست 2019کو آرٹیکل 370ختم کرنے بعد جموں کشمیر پر ہندوستانی سرکار کا اگر کوئی قانونی دعویٰ تھا بھی تو وہ دفن ہو چکا۔ آج بھارتی جموں کشمیر ایک ریاست بھی نہیں رہی، بھارت اب باقاعدہ طور پر اسے اپنی کالونی بنا چکا ہے، اس پر غیر قانونی طریقے سے قابض ہو چکا ہے، وہاں کوئی بھی ہندوستانی جائیداد خرید سکتا ہے، کشمیر کے پاس وہ حقوق بھی نہیں رہے جو ہندوستان کی باقی ریاستوں کے شہریوں کے پاس ہیں، کشمیر میں اس وقت اگر واحد آئینی اور قانونی حکومت موجود ہے تو وہ آزاد کشمیر کی ہے۔ یقیناً بہت سے لوگ، خاص طور سے ہندوستانی، یہ کہیں گے کہ یہ تو خالصتاً پاکستانی موقف ہے مگر ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی قانون سے اس کے برخلاف سند لادیں تو فدوی اپنے موقف سے دستبردار ہو جائے گا۔ ہاں، مہاراجہ ہری سنگھ کے بعد کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے پاس اقتدار اعلیٰ منتقل ہو گیا تھا اور یوں آئین ساز اسمبلی ہی ہندوستان سے کیے گئے معاہدے کو تبدیل کر سکتی تھی مگر یہ آئین ساز اسمبلی بھی ختم ہو چکی، یوں عملاً ہندوستانی سرکار کے پاس سوائے کشمیر میں استصواب رائے کروانے کے کوئی قانونی راستہ نہیں تھا مگر طاقت کسی قانون کو نہیں مانتی، بی جے پی کے پاس طاقت ہے، اس نے یہ کر ڈالا ہے اور شاید بھارتی عدالت عظمیٰ بھی اسے غیر آئینی قرار نہیں دے پائے گی۔

اب ہم کیا کریں؟ ہم وہ کریں جو محمد علی جناح نے اس وقت کیا جب وہ ایک لٹی پٹی مملکت کا سربراہ تھا، جب انگریز کمانڈر نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا اور جب اس کا نوزائیدہ ملک ایٹمی طاقت بھی نہیں تھا۔ اب دوبارہ وہی وقت ہے۔ بھارت نے ایک ایسے علاقے کو انڈین یونین میں ضم کر لیا ہے، گویا ہندوستان نے عملاً ایک پوری ریاست پر قبضہ کر لیا ہے جس پر پاکستان کا دعویٰ تھا۔ ہم اس مقدمے کے مدعی ہیں، جو کرنا ہے ہم نے کرنا ہے کسی اقوام متحدہ، کسی او آئی سی، کسی ترکی کسی ملائیشیا کسی ادار ے نے کچھ نہیں کرنا۔ آج ہمارا وہی فرض بنتا ہے جو کمزور ہونے کے باوجود قائداعظم نے نبھایا تھا سو کیا ہم جناح کی تقلید کر پائیں گے؟معلوم نہیں مگر کچھ نمازیں قضا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، وہ اپنے وقت پر پڑھی جاتی ہیں، یہ وہ نماز ہے جو آج کی تاریخ میں پڑھی جانی ہے، قضا ہو گئی تو وقت گزر جائے گا۔

تازہ ترین