عدیلہ سلیم
وفاقی حکومت کی جانب سے پلاسٹک اور پولی تھین بیگز پر پابندی عائد کر دی گئی ۔دکانداروں اور صارفین کو متبادل بیگ تلاش کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔دیکھا جائے تو روزمرہ زندگی میں پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
ان سے ہمارے پورے ماحول کو خطرہ لاحق ہے، پاکستان یہ قدم اٹھانے والا 128 واں ملک ہے
ویسے تو پلاسٹک بیگ کے استعمال سے زندگی آسان ہے، مگر اس سے ماحول کو ایک خطرناک خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان پلاسٹک بیگ کے استعمال پر پابندی عائد کرنے والا 128 واں ملک بن چکا ہے ۔پلاسٹک آلودگی پر قابو پانے کے لیے ان عالمی کوششوں کا مقصد پلاسٹک کو سمندری ،ماحولیاتی نظام اور جنگلی حیات سے ہونے والے نقصان کو کم کرنا ہے ۔
اگر ایسا نہ ہوسکا تو اگلی دہائی میں سمندر میں پلاسٹک کی مقدار تین گنا بڑھ سکتی ہے ۔سڑک پر جگہ جگہ پلاسٹک بیگز ہی نظر آتے ہیں ۔پلاسٹک بیگز کی تھیلی جسے عرف عام میں ’’شاپر ‘‘ کہا جاتا ہے۔اکثر گزرگاہوں پر پلاسٹک سے بنے یہ شاپنگ بیگ پودوں سے لپٹے، مین ہولوں میں پھنسے، فٹ پاتھوں پر بکھرے حتیٰ کہ بجلی کی تاروں سے لٹکے نظر آتے ہیں۔ گویا یہ رنگ برنگ اور چھوٹے بڑے شاپر اچھے خاصے ماحول کو بدنما کردیتے ہیں۔
پلاسٹک کو ختم کرنے کے لیے ہم ان کو یا تو ری سائیکل کرسکتے ہیں یا جلا سکتے ہیں ۔اگر ہم پلاسٹک کو جلا دیتے ہیں تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ،کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروس آکسائیڈ، میتھین ، سلفر ڈائی آکسائیڈ وغیرہ جیسی نقصان دہ کیمیائی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے اور یہ گیسیں گرین ہاوس پر اثرانداز ہوتی ہیں اور ہمارے ماحول کو خطرے میں ڈالتے ہیں ۔ پلاسٹک پائپوں اور سینٹری لائنوں کو بلاک کر کے سڑکوں پر نکل آتا ہے ، جس سے ملیریا ،ہیضہ اور دیگر بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے پلاسٹک آلودگی کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ پلاسٹک کا خاتمہ ناممکن نہیں ہے ۔اگرچہ اس کے لیے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی۔ کپڑے کی تھیلوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ ناکارہ ہونے کے بعد بھی ماحول کے لیے باعث نقصان نہیں بنتیں۔ اگر کوڑے میں پھینک دیئے جائیں تو چند ماہ بعد کھاد کی شکل اختیار کرلیتے ہیں-بگلادیش کی حکومت اپنے شہریوں کو بائیو ڈی گریڈ ایبل شاپنگ بیگ کے ایونٹ لگانے کی خاطر مالی امداد دے رہی ہے۔
ان ایونٹوں میں گنے کے پھوک، کیساوا کی جڑوں اور دیگر نامیاتی مواد سے شاپنگ بیگز بنتے ہیں۔ یہ بیگ کئی بار استعمال ہوسکتے ہیں۔ نیز جب ناکارہ ہوکر کوڑے میں پھینکے جائیں تو دو تین ماہ بعد تحلیل ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں گنا اور گندم اہم فصلیں ہیں۔ ان کی تلچھٹ بھی شاپنگ بیگ بنانے میں کام آسکتی ہے۔ یوں شاپنگ بیگ بنانے والوںکو خام مال اپنے ملک ہی سے میسر ہو گا۔
بنگلا دیشی خام مال بیرون ملک سے منگواتے ہیں۔ اسی لیے بایوڈ گریڈ ایبل شاپنگ بیگ بنانا انہیں مہنگا پڑتا ہے۔ انسانیت کا انحصار پلاسٹک بیگز پر ہر سال مضبوط سے مظبوط ہورہا ہے ۔انسان ہر سال 300 ملین ٹن پلاسٹک تیار کرتا ہے ،مگر ری سائیکلنگ میں پلاسٹک کا صرف ایک حصہ دوبارہ پلانٹ تک جاسکتا ہے ۔پلاسٹک بیگ پر پابندی لگانے کے کیا فائدے اور نقصانات ہے ۔اس بارے میں چند نکات ذیل میں بتائیں جا رہے ہیں۔
پلاسٹک بیگز پر پابندی کے فائدے
٭پلاسٹک کے بیگز بایو ڈگریڈایبل نہیں ہیں۔جب پلاسٹک کے بیگز بکھر جاتے ہیں تو وہ سمندروں، دریاؤں ،کھیتوں،شہروں اور محلوں کو آلودہ کرتے ہیں ۔پابندی سے بیگز ختم ہوجائے گے اورآلودگی بھی کم ہو گی۔
٭نکاسی آب کے بنیادی ڈھانچے زیادہ موثر انداز میں چلتے ہیں ۔پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ اکثر نکاسی آب کے نظام کو خراب کر دیتا ہے ۔
٭ پلاسٹک کے بیگز بارش کا پانی جمع کرتے ہیں اور اس سے مچھروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ پابندی کی وجہ سے مچھروں کی افزائش میںبھی کمی واقع ہوگی ۔پلاسٹک میں موجود ایک کیمیکل فینول انتہائی خطرناک ہے۔ اس کیمیائی مرکب کے استعمال سے دل اور جگر کے امراض اور خون میں شکر کی مقدار بڑھنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ پلاسٹک کے برتن مائیکرو ویو میں استعمال نہ کیے جائیں ،کیوں کہ پلاسٹک کے برتن میں اچانک تیز ہوتے ہوئے ٹمپریچر اور پلاسٹک چکنائی کے ملاپ سے ڈائی آکسین نامی کیمیائی مادہ بنتا ہے جو بعد ازاں انسانی جسم میں پہنچ کر کینسر اور دیگر بہت سی خرابیوں کا باعث بنتا ہے۔