
تک مولانا کو لیکچر سیریز کے لئے کیوں مدعو نہیں کیا۔ مولانا ایک کُل وقتی سیاستدان اور ایک سو برس پرانی مذہبی سیاسی جماعت کے قائد ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ تک کہتے ہیں کہ اس ملک میں فوج کے بعد اگر کسی کے پاس منظم طاقت ہے تو وہ مولانا ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کیا ہے اور کمزوری کیا، کس موقع پر سیاست کی کونسی کل سیدھی کی جانی چاہئے اور کسے مروڑنا چاہئے اور کتنا، غالباً موجودہ سیاسی قبیلے میں مولانا سے بہتر کوئی نہیں جانتا، مولانا نے ابھی آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جیسی تجربہ کار جماعتوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ مولانا کا کرنا کیا ہے؟ بخدا نہ تو یہ قصیدہ ہے نہ تعلی نہ خوشامد نہ طنز۔ میں دل سے یقین رکھتا ہوں کہ مولانا اگر مذہبی سیاسی رہنما کے بجائے ماہرِ طبیعات ہوتے تو بھی صفِ اول میں ہوتے۔ جرنیل ہوتے تو بنا جنگ کئے دشمن کو نہتا کر کے باندھ دیتے۔ پروفیشنل شطرنجی ہوتے تو بورس کیسپروف آپ پر خوشی خوشی مورچھل جھلتا۔ موسیقار ہوتے تو اے آر رحمٰن، فضل الرحمٰن کی پنڈلیاں دبا رہا ہوتا۔ آپ یہ دیکھیں کہ دو ڈھائی ہفتے سے اس ملک میں ہو کیا رہا ہے۔ مولانا نے ابھی آزادی مارچ کا صرف اعلان کیا ہے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جیسی تجربہ کار جماعتوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ مولانا کا کرنا کیا ہے؟جانا ہے کہ آنا ہے؟ جا کر آنا ہے کہ آ کر جانا ہے یا تھوڑا سا آگے جا کر آنا ہے یا پھر آنا جانا ہے۔مولانا بذاتِ خود پارلیمنٹ سے باہر ہیں۔342 کی قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کی 16 سیٹیں ہیں اور 104سیٹوں کے ایوانِ بالا میں چار سینیٹرز ہیں لیکن مولانا کی جماعت سے تگنی چوگنی سیٹیں رکھنے والی پیپلز پارٹی اور ن لیگ تک چندیا کھجا رہے ہیں کہ مولانا کا چہرہ مسلسل اتنا پُرسکون اور باڈی لینگویج اتنی بااعتماد کیوں ہے۔حکومتی وزرا بلاوقفہ اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں کہ مولانا کے ہاتھ میں ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ کچھ لو کچھ دو اور لچکدار سیاست کا راستہ چھوڑکر تصادم کی شاہراہ پر آنا چاہتے ہیں۔حالانکہ مولانا نے آزادی مارچ شروع نہیں کیا اور ابھی صرف ہتھوڑی سے طبلہ کَس کے اس پر بیانیے کا پاؤڈر ہی مل رہے ہیں مگر وزرا نے کورس کی شکل میں تنقیدی گھنگرو باندھ کے تا تا تھئیا شروع کر رکھا ہے، بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ کبھی مولانا کی پریس کانفرنس چینلوں سے غائب ہو رہی ہے، کبھی میڈیا کو زبانی کہا جا رہا ہے کہ مارچ اور دھرنے کی کوریج نہیں کرنی۔ کبھی جمعیت علمائے اسلام کے نام سے دھرنے کے شرکا کے لئےجعلی ہدایات تو کبھی آزادی مارچ کی حمایت میں جعلی خط سامنے لائے جا رہے ہیں۔نظم و نسق کا ذمہ دار وفاقی وزیرِ داخلہ کہہ رہا ہے کہ مولانا کا اسلام آباد میں آنا خود کشی کے برابر ہو گا اور خیبر پختونخوا کا وزیرِ اعلیٰ کہہ رہا ہے کہ میں دیکھتا ہوں جمعیت کا جلوس اٹک کا پل کیسے پار کرتا ہے؟وزیرِ اعظم عمران خان کو ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی جتنی آسان محسوس ہو رہی ہے، حزب اختلاف سے معاملہ فہمی سے نمٹنا اتنا ہی مشکل لگ رہا ہے ۔مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ شروع ہو نہ ہو، کامیاب ہو کہ ناکام، پر ایک بات تو بارِ دگر کھل گئی ہے کہ برسراقتدار آنا بچپن کا شوق پورا ہونے جیسا ہو سکتا ہے مگر حکومت چلانا بچوں کا کھیل ہرگز نہیں۔وہ الگ بات کہ کوئی بھی بچہ باپ کی گود میں بیٹھ کر اسٹیئرنگ گھما کر کہے بابا دیکھو اور باپ دلارے کا دل رکھنے کے لئے کہتا رہے ہاں بیٹے تو ہی گاڑی چلا رہا ہے اور زبردست چلا رہا ہے ۔