سندھ دھرتی اولیا اور صوفیائے کرام کی سرزمین ہے جہاں بلارنگ ونسل، مذہب، پیار محبت اور امن کا درس ملتا ہے۔ سندھ کو ہر دور میںعلمی اور مذہبی حوالے سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ برصغیر میں سب سے پہلے اسلام کے نور نے اسی سرزمین کو منور وتاباں بنایا ۔ ہر زمانے میں اس خطہ ارضی میں اسی شخصیات پیدا ہوئی جنہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی علمی وادبی اور تحقیقی کاوشوں سے لازوال خدمات انجام دیں۔ اسی ہی نابغہ روزگار شخصیت محقق،ماہر لسانیات، عالم دین ، معلم اور ماہر تعلیم و مترجم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان تھے جنہوں نے اپنی تمام زندگی تعلیم اور دین اسلام کے فروغ کے لیے وقف کیے رکھی ۔
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان جبل پور، سی پی ہندوستان میں یکم جولائی 1912 کو پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم جبل پور کے مدرسوں میں قرآن پاک اور دینی تعلیم حاصل کی ۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ اور بڑے بھائی کے زیر تربیت رہے ۔ مڈل کے بعد علی گڑھ چلے گئے ، یہاں سے1929میں میٹرک پا س کیا انٹر کا امتحان1931میں پاس کیا۔1933میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔1935 میں فارسی میں ایم اے پاس کیا اور1936میں ایم اے اردو کیا ۔ اس کے بعد ایل ایل بی کی سند حاصل کی۔ حضرت قاری ضیا الدین اور مولانا سلیمان اشرف سے تفسیرقرآن اور بخاری شریف پڑھی۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں علی گڑھ مرکزی اہمیت کا حامل رہا۔ انہوں نے اپنی زیادہ ترزندگی بزرگوں کی خدمت کرنے میں وقف کی ۔1936میں تعلیم سے فارغ ہوکر علی گڑھ سے جبل پور واپس تشریف لے آئے۔ جبل پور واپس آنے کے بعد چند ماہ فارغ رہے اور کچھ دنوں بعد ہی پبلک سروس کمیشن کا امتحان پا س کرکے بطور لیکچرارکنگ ایڈورڈ کالج امرواتی میں تقرر ہوا ۔ کچھ عرصے بعد ناگ پور یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ مقررہوئے۔1936 سے1948تک وہ ناگ پور ہ یونیورسٹی ہندوستان کے صدر شعبہ اردو رہے۔
ڈاکٹر صاحب کے استاد پروفیسر ضیا الدین احمد اور نواب حبیب الرحمن شیروانی نے انہیں چھٹی صدی کے مشہور شاعر سید حسن غزنوی پر مقالہ لکھنے کو کہا ۔ لہذا آپ نے ’’ حیات وادبی کارنامے کے عنوان سے مقالہ لکھ کرپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔1959میں ناگپور یونیورسٹی ہندوستان سے انہوں نے ڈاکٹر آف لیٹرز(ڈی لٹ) کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ نے بہرام شاہ غزنوی کی تاریخ انگریزی میں مرتب کی۔
فارسی شعرا سید حسن برہانی ،نجیب الدین ، عثمان مختاری اور متعدد شعرا پر تحقیقی مقالے تحریر کیے جو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام پنجاب یونیورسٹی سے شائع ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعدانہوں نے پہلے کراچی میں سکونت اختیار کی اور اسلامیہ کالج کراچی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ 1950میں بابائے اردو کی درخواست پر اردو کالج کراچی کے صدر شعبہ اردو کا عہدہ سنبھالا ۔
بعدازاں وہ علامہ آئی آئی قاضی اور ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے اصرار پر سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے جہاں انہیں صدر شعبہ اردو کی ذمہ داریاں تقویض کی گئیں۔ وہ اس عہدے پر 1976تک فائز رہے ۔
1988میں سندھ یونیورسٹی میں آپ کی علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات کے صلے میں پروفیسر ایمریطس کےعہدے پر فائزکیا گیا ۔ڈاکٹر غلام مصطفےٰ ملن ساری، انکساری،مہمان نوازی، ادب، پیار، لحاظ ، سخاوت اور دیگر اوصاف کے مالک تھے۔ وہ جس طرح فارسی ، عربی اور انگریزی زبان میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے، اسی طرح تصنیف وتالیف، شاعری ، تحقیق وتنقید، تراجم، لسانیات اور متعدد دوسرے موضوعات پر ان کی کم وبیش سو سے زائد کتابیں شائع ہوئیں ۔ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے اردو کی ترویج وترقی کے حوالے سے بے شمار خدمات انجام دیں۔
انہوں نے اردو زبان پر ایک ماہر لسانیات کی حیثیت سے نگاہ ڈالی اور دیگر کامل زبانوں پر اردو کے اثرات تلاش کیے، جس سے اردو کی اہمیت بڑھ گئی ۔ اردو زبان کی خدمات کے سلسلہ میں ان کا ایک اہم کارنامہ ان کا تحقیقی مضمون ’’ اردو املا کی تاریخ‘‘ ہے۔ جس میں قدیم اردو کے نمونے پیش کیے گئے ہیں اور حرف پر تنقید علاقائی حروف کی اشکال کی مدد سے کی گئی ہے۔ڈاکٹر صاحب کی لغت نویسی ان کی شبانہ روز محنت شاقہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سلسلے میں ان کا اولین باقاعدہ اور باضابطہ کام ’’ سندھی اردولغت‘‘‘(1953-1954)ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اردو صرف ونحو پر کتاب لکھی، جس کا عنوان ’’ اردو صرف ونحو‘‘ ہے۔ اس میں اردو نحو کے قواعد اور اصولوں کو مثالوں کے ذریعے واضح کیاگیا ہے۔ انہوں نے ایسے الفاظ کی تفصیل فراہم کی ہے جن کا املا غلط رائج ہوچکا تھا ۔ ایک باب ’’ املا اورعلامات وقف‘‘ کے متعلق ہے، جس میں غلط اور درست املا کے فرق کے ساتھ معنی بھی دیے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی اردو نصاب کی تدوین کے سلسلے میں خدمات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے شاگردوں میں ابن انشا ، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی،ڈاکٹر اسلم فرخی،ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر معین الدین عقیل ، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر الیاس عشقی اور قمر علی عباسی شامل ہیں۔انہوں نے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبان میں100سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔
آپ کی کتاب اقبال اور قرآن پر آپ کو اقبال ایوارڈ دیاگیا۔ اس کےعلاوہ ادبی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر علمی نقوش، اردو سندھی لغت، سندھی اردو لغت، حالی کا ذہنی ارتقا، تحریر وتقریر، حضرت مجد الف ثانی، گلشن وحدت ، مکتوبات معصومیہ، اقبال اور قرآن ، معارف اقبال، اردو میں قرآن وحدیث کے محاورات، فکرونظر، ہمہ قرآن درشان محمدﷺ، مولانا عبیداللہ سندھی کی سرگزشت کابل کے نام قابل ذکر ہیں ۔
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی ادبی وتعلیمی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے انہیںصدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا ۔ اس کے علاوہ نقوش ایوارڈ، اقبال ایوارڈ اور انجمن ترقی اردو کی طرف سے نشان سپاس کے اعزازات بھی دیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے خان آرزو اور انشا اللہ خان انشا کی تصریحات کے متعلق معلومات فراہم کیں۔’’ اردو املا کی تاریخ‘‘ میں غالب اور احسن کے علاوہ ان جملہ تحقیقات کا ذکر کیا گیا ہے ، جواس موضوع کے سلسلے میں ہوتی رہی تھیں۔
ڈاکٹر صاحب کی اردو زبان کی خدمات کے سلسلے میں ایک اہم کارنامہ قدیم شاعروں اور ادیبوں کے مخطوطات ومطبوعات کی لسانی خصوصیات کا احاطہ کرنا ہے۔ان کے دوصاحبزادے ڈاکٹر سراج احمد خان اور دوسرے ظفر احمد خان ہیں۔ڈاکٹر غلام مصطفے خان، حیدرآباد کی روحانی شخصیت تھے، آپ کے مریدین اور عقیدت مندبڑی تعداد میں ان کے مزار کی زیارت اور فاتحہ خوانی کرکے لیے آتےہیں، انہیں یہاں سے روحانی فیض حاصل وہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے نصاب کو مرتب کیا بلکہ بچوں کا نصاب بھی ترتیب دیا ، اس کے علاوہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کا نصاب بھی مرتب کرنے والوں میں شامل رہے ۔
وہ تمام عمر آسان اردو پڑھنے اور لکھنے پر زور دیتے رہے ان کا ایک مضمون ’’ نظریہ پاکستان‘‘ کے عنوان سے انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں شامل ہے، جو پاکستان کی اساس پر ہے ۔یہ مضمون مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور سے شروع ہوتاہ ے اور مجدد الف ثانی کی تحریک سے ہوتا ہوا تمام اہم تاریخی واقعات کو بیان کرتے کرتے قیام پاکستان تک پہنچتا ہے۔
اس مضمون کی جامعیت اختصار اور افادیت کے پیش نظر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے بھی اسے اپنے تعلیمی نصاب میں شامل کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے تحقیق کے موضوع پر اپنی نوعیت کا پہلا مضمون لکھا اور اس میں عربی اور فارسی کو ضروری قرار دیا۔ عربی صرف ونحو کو سمجھنے کے لئے ’’قرآنی عربی‘‘ کے عنوان سے کتابچہ تحریر کیا۔ اس میں انہوں نے عربی قواعد اور مصادر سمجھائے۔ اردو املا کا پر بھی شامل نصاب کیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے ’’منتخابات ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی،جس میں طویل مضمون ’’ اردو املاک کی تاریخ ‘‘ بھی شامل کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے صحیح اردو لکھنے کا قاعدہ بتایا اور اردو املا کی صحت پر خاص توجہ دی ہے۔ اردو عروض پر ایک مضمون ’’اردو عروض ‘‘ کے عنوان سےتحریر کیا،اگرچہ یہ مختصر سا مضمون ہے لیکن اس میں اردو شاعری کی مروجہ بحور اور اوزان بھی بیان کئے گئے ہیں۔انہوں نے شاعری کے تمام نکات کوپیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب جہاں ضرورت محسوس کرتے طلبہ کے لئے خود بھی کتابیں تحریر کرتے اور کراتے بھی۔
انہوں نے خاص طور پر نصاب میں نعتیہ ادب کو شامل کرتے ہوئے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ڈاکٹرغلام مصطفے نے نوجوانوں اور عام قاری کو صحیح اردو لکھنے اور پڑھنے کی طرف متوجہ کرنے کے لئے شعوری طور پر صحیح املا کی طرف راغب کیا۔ان کی ساری زندگی اردو کی خدمت سے عبارت ہے۔ انہیں اردو کے بحیثیت قومی زبان ہونے کا احساس اور شعور تھا۔ جب بھی اردو زبان کے حوالے سے بات ہو گی ان کے ذکر کے بغیر اس کی تاریخ ادھوری رہے گی۔
ڈاکٹر غلام مصطفی صرف ایک شخصیت ہی کا نام نہیں بلکہ آسمان علم کے درخشندہ اور تابندہ ستارے، علم و ادب کے کوہ گراں، عظیم مربی اور علم و حکمت کا ایک جاوداں باب کا عنوان بھی ہیں۔ آپ کی علمی ضیاء پاشیوں سے ایک جہاں روشن ہوا ہے۔ آپ اعلیٰ پائے کے مدرس ،بے مثال مقرر، خوش بیان، عظیم محقق اور صالح مربی اسلام تھے۔
آپ کی گفتگو سے ٹپکتی مٹھاس کے اپنے پرائے سبھی معترف تھے۔ جس طرح آپ کا ظاہر صاف پاکیزہ اور معطر تھا، عین اسی طرح آپ کا باطن بھی اجلا اجلا نکھرا نکھرا اور معطر و منور تھا اس پر مستزاد نفیس الطبع ،ذوق سلیم اور شستہ زبان یہ سب عوامل ان کے اوصاف حمیدہ کا حصہ تھے۔آپ عالم باعمل اور شب زندہ دار تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کی زبان و قلم میں یہ تاثیر رکھی تھی کہ فصاحت و بلاغت اور ادب کے دیگر قرینوں سے مزین تحریر و تقریر عام شخص بھی آسانی سے سمجھ لیتا اور اسے اپنی حرز جان بنا لیتا تھا۔
زہد عن الدنیا آپ کا شیوہ زندگی تھا۔ اس دنیائے فانی میں93سال گزارنے کے باوجود اس کی لذتیں ،رنگینیاں اور حشر سامانیوں کا آپ کے دل کو بھانا تو کجا یہ سب آپ کے قدموں کی دھول کو بھی نہ چھو سکیں۔ 25ستمبر 2005ء کا سورج دنیائے فانی کے کئی تشنگان علم و ادب کو سیراب کر کے خود امر ہو جانے کے درجے پر فائز ہوگیا اور وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرکے خالق حقیقی سے جاملے۔وہ احاطہ مسجد غفوریہ نزد ٹول پلازہ سپر ہائی وے بائی پاس حیدر آبادمیں آسودہ خاک ہیں۔