تھرکا خطہ، سندھ کا وسیع و عریض ریگستانی علاقہ ہے جہاں پورے ملک کے مقابلے میں انتہائی کم بارش ہوتی ہے ۔تھرپارکر کے تمام جانداروں بہ مشمول انسانو ںاور چرند پرند کی زندگی اور زراعت کا دارومدار بھی بارش پر ہوتا ہےجوریگستانی علاقے میں پورے سال میں صرف دو یا تین مرتبہ ہوتی ہے۔
صحرائے تھر کا علاقہ 22 ہزارمربع کلو میٹر پر محیط ہے۔ اس کا شمار نیا کےساتویں بڑے ریگستان میں ہوتا ہے جو کہ سر سبز اور شاداب بھی ہے۔ اس صحر ا کی حدود عمر کوٹ ، تھر پارکر ، کھپرو، بدین، سانگھڑ ، نواب شاہ ، خیرپور، سکھر اور گھوٹکی سے مشرق کی جانب پنجاب کے چولستان تک پھیلی ہوئی ہیں۔
تھر پارکر سے خیر پور تک ریگستانی علاقے کو اچھڑو تھرکہا جاتا ہے۔ تھر کی جنوبی سمت میں رن آف کچھ اور ہندوستان واقع ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس صحرا کا 85 فیصد حصہ ہندستان میںشامل ہے جب کہ 15 فیصد پاکستان میں ہے۔
ریگستانی خطہ ہونے کی وجہ سے تھر کا موسم گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں انتہائی سرد ہوتا ہے ۔ جب یہاں سخت گرمی پڑتی ہے تو تھر کا پرندہ پپیہا اور مور بھی لو اور گرمی کی شدت برداشت نہیں کرپاتے اور وہ مرنے لگتے ہیں ۔اس موسم میں اونٹ درختوں کی چھاؤں میں پناہ لیتے ہیں ۔ لوگ چونئروں کے اندر بھر بندرہتے ہیں ۔
چونئرے تھر کے مخصوص گھر ہیں جو تنکوں اور بانس سے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ تھر میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی انتہائی کمی ہے۔. اس علاقے میں غذائی قلت کے علاوہ تعلیم و صحت کے مسائل بھی بے انتہا گمبھیر ہیں۔ بیماری کی صورت میں سرکاری اسپتال و ڈسپنسر ی کی سہولت میسر نہیں ہے اور لوگوں کو علاج معالجے کے لیے ریگستانی علاقے میں دشوار گزار سفر طے کرکے دور دراز کے چھوٹے شہروں اور قصبات میں جانا پڑتا ہے۔
ہر سال قحط اور غذائی کمی کے سبب سیکڑوں بچے فوت ہوجاتے ہیں.۔اس علاقے میں ہر طرف غربت اور مفلوک الحالی کا راج ہےجب کہ این جی اوز اور سماجی تنظیموں کی سرگرمیاں صرف کاغذی حد تک محدود رہتی ہیں۔ وہ فنڈ ریزنگ کے لیے صحرائے تھر کی مفلوک الحا ل زندگی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں، ٹی وی چینلز اخبارات اور سوشل میڈیا پر بھرپور تشہیر کرکےملکی و بین الاقوامی اداروں سے خطیر رقومات تھر کے باشندوں کے نام پر اکٹھا کرتی ہیں لیکن یہاں کے بدنصیب باشندے بھوک پیاس سے نڈھال اورمختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر موت کی نیند سو جاتے ہیں۔
غربت اور معاشی طور سے بدحال انسانوں کا یہ خطہ معدنی وسائل سےمالا مال ہے، جن سے استفادہ کرکے تھری عوام کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے ۔ ان معدنیات میں سے چند کا ذکر ذیل میں پیش ہے۔ گرینائٹ تھر میں کارونجھر پہاڑ کا قیمتی پتھر گرینائٹ ہے ۔ گرینائیٹ دنیا کے بہترین معیار کا مہنگا ماربل ہے جس کی خصوصیات گوناگوں ہیں, جن میں سے ایک یہ ہے کہ گرمی کو جذب کرتا ہے. کارونجھر کے پہاڑوں مں یاس قیمتی پتھر کے لاکھوں ، کروڑوں ٹن ذخائر موجود ہیں۔
تھر میں کوئلے کے وسیع و عریض ذخائر ہیں، اس سے سرکاری سطح پر استفادہ کرکے تھر کول پروجیکٹ سے بجلی کی پیداوار ہوتیہے۔تھر میں نمک کی کانیں ہیں. چائنا کلے جیسی قیمتی مٹی ہے جس سے قیمتی برتن اور شو پیس بنتے ہیں.یہاں کی زمین کاشت کاری کے لیے بہت عمدہ ہے ۔ زرعی پیداوار گوُار, پالک، باجرہ، مونگ، لوبیا اور دال موٹ ہیں۔ یہاں تِلوں کی فصلکی بھی بڑی پیداوار ہوتی ہے۔ مذکورہ فصلیں تھر کی موسمی فصلیں ہیں جو پورے سندھ میں بے حد پسند کی جاتی ہیں ۔
یہاں کی گوُار کا تو لوگ انتظار کرتے رہتے ہیں جو نہایت لذیذ ہوتی ہے۔ اس علاقے کی زرعی فصلیں دوائوں اور یوریا سے پاک ہوتی ہیں اس لئے ذائقے میں بھیدیگر علاقوں کی سبزیوں سے مختلف ہوتی ہیں۔تھر کی کچھ فصلیں ، پھل اور سبزیاں خودروہیں جو برسات کے دنوں میں اگتی ہیں۔
ایسی قدرتی پیداوارمیں کھمبی جسے مشروم بھی کہتے ہیں ۔ مریڑو، چِبھَڑ، جنگلی ترئی ٹِنڈے ، پَیروُں ، جنگلی بیلیں، جڑی بوٹیاں اور ایسی گھاس جو جانوروں کا چارہ بھی بنتی ہے اور گھروں میں پکنے والی ذائقہ دار سبزی بھی ہوتی ہے۔’’گوگرال‘‘ صحرائے تھر کا مخصوص درخت ہے جوکہیں اور نہیں ہوتا۔
گوگرال سے خوشبودار گوند نکلتا ہے جس سے لوبان اوویات بنتی ہیں ۔ گوگرال کی لکڑی کی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس کی ٹہنی کو برسات کے موسم سے دو ماہ پہلے بھی توڑ کر رکھ دیا جائے اور برسات کے دوران زمین میں گاڑ دیں تو ایک نیا درخت پیدا ہوجائے گا۔
یہ درخت اب گھٹتاجا رہا ہے،لوگ غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے اسے کاٹ کر اس کی لکڑی فروخت کرکے اپنےاہل خانہ کو دو وقت کی روٹی مہیا کررہے ہیں یا پھر ٹمبر مافیا مالی منفعت کی وجہ سے گوگرال کے درخت کاٹ کرکی قیمتی لکڑی فروخت کررہی ہے۔ گوگرال کے درخت کے حوالے سے عالمی ادارہ ماحولیات نے اپنی رپورٹ میں بھی بتایا ہے کہ دنیا کے پانچ قیمتی درخت نایاب ہو رہے ہیں جن میں تھر کا گوگرال بھی شامل ہے۔
تھر کا ثقافتی لباس بھی دنیا بھر میں مقبول ہے اگر یہاں پر گھریلو صنعت کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی جائے اور ٹیکسائل انڈسٹری قائم کرکے مقامی ہنرمندوں کی خدمات حاصل کی جائیں تو ہماری کپڑا سازی کی صنعت اور روایتی ملبوسات ، عدنیا بھر میں پذیرائی حاصل کرکے نہ صرف ملکی معیشت میں نمایاں کردار ادا کریں گے بلکہ ملی ثقافت اور سندھی دست کاری کو ساری دنیا میں فروغ کا باعث بنیں گے۔
جہاں حکومت شجر کاری, صحت اور تعلیم کے حوالے سے اتنے پروگرام چلا رہی ہے وہاں بڑے بڑے سرمایہ داروں کی مدد سے اس علاقے اور یہاں کی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کام کیا جا سکتا ہے۔