سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کی مشروط منظوری دے دی۔
عدالتِ عظمیٰ میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے سماعت شروع کی گئی تو اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان کی جانب سے مزید دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں، بینچ کے ارکان نے سمری کا جائزہ لیا۔
سپریم کورٹ نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آج ہم مختصر فیصلہ سنائیں گے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے جاری کیے گئے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا ہے کہ حکومتی سمری پر آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کی مشروط اجازت دی گئی ہے، آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی حکومتی سمری پر ریٹائرمنٹ کی تاریخ درج نہیں۔
عدالت کی جانب سے حکومت کو حکم دیا گیا کہ 6 ماہ میں قانون سازی مکمل کرے، اس کیس میں حکومت نے ایک سے دوسرا مؤقف اختیار کیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ حکومت عدالت میں آرٹیکل 243 ون بی پر انحصار کر رہی ہے اور آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع آرٹیکل 243 فور بی کے تحت کی ہے، حکومت آرمی چیف کو 28 نومبر سے توسیع دے رہی ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ہم نے آرمی ایکٹ 1952ء اور رول 1954ء سمیت دیگر قوانین کا جائزہ لیا ہے اور آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی مشروط منظوری دی ہے، یہ تقرری 6 ماہ کے لیے ہوگی۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے یقین دلایا ہے کہ آرمی چیف کی مدت اور مراعات سے متعلق 6 ماہ میں قانون سازی کی جائے گی، عدالتِ عظمیٰ نے سارے معاملے میں تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑتے ہیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی تقرری سے متعلق 6 ماہ میں قانون سازی کرے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نئی قانون سازی تک اپنے عہدے پر فرائض انجام دیں گے، آج عدالت میں پیش کیا جانے والا نوٹی فکیشن 6 ماہ کیلئے ہوگا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ 4 نکات پر مشتمل تحریری بیان جمع کرائیں، ہم 3 ماہ کے لیے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دیتے ہیں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ دوپہر کو شارٹ آرڈر جاری کریں گے، جبکہ شام کو فیصلہ جاری کر دیں گے۔
ریاض حنیف راہی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل پر مشتمل 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان اور آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم بھی عدالت میں موجود ہیں۔
جنرل (ر) کیانی کی ایکسٹینشن اور راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا نوٹی فکیشن طلب
دوران سماعت سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کا نوٹیفکیشن طلب کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا چاہتے ہیں جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کو ریٹائرمنٹ کے بعد کتنی پنشن ملی۔
انہوں نے ہدایت کی کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات بھی پیش کریں، ان کی ریٹائرمنٹ کے نوٹیفکیشن کے کیا الفاظ تھے وہ بھی پیش کریں۔
یہ بھی پڑھیے: جنرل باجوہ کیس میں قانونی ماہرین کی نااہلی عیاں ہوگئی
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی۔
عدالت نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم 15 منٹ میں دوسرے کیسز نمٹاتے ہیں آپ دستاویزات لے کر آئیں۔
ریاض حنیف راہی عدالت پہنچے
درخواست گزار ریاض حنیف راہی سپریم کورٹ پہنچ گئے، اس موقع پر ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نےاپنی درخواست واپس لے لی یا نہیں؟
ریاض حنیف راہی نے جواب دیا کہ درخواست تو یہی چل رہی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ عوامی اہمیت کے کیس میں درخواست گزار کا ہونا ضروری نہیں، اہم نکات ہیں جو پہلی بار عدالتی کارروائی میں آ رہے ہیں، پہلی مرتبہ سپریم کورٹ اس معاملے کو ڈیل کر رہی ہے۔
ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ایک اہم کیس آپ نے فائل کیا، یہ کیس خود فائل کیا یا آپ کے پیچھے کوئی تھا؟
ریاض حنیف راہی نے جواب دیا کہ خود فائل کیا ہے، ہمیشہ کیس خود ہی فائل کرتا ہوں۔
اٹارنی جنرل اور چیف جسٹس پاکستان میں مکالمہ
اٹارنی جنرل انورمنصور خان نے عدالت کو بتایا کہ دستاویزات کچھ دیر میں پہنچ جائیں گی۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کر دی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ان سے سوال کیا کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے؟
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ نئی تعیناتی 243 (1) بی کے تحت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا کہ اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے۔
بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں، عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں۔
سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ہدایت کی کہ سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں اس کا جائزہ لیں گے، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کر دی، تعیناتی اور توسیع سے متعلق آرمی ریگولیشنز کی کتاب کو چھپا کر کیوں رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آرمی رولز کی کتاب پر لکھا ہے کہ غیر متعلقہ بندہ نہ پڑھے، کوئی غیر متعلقہ شخص اسے پڑھ نہیں سکتا، کیوں آپ نے اس کتاب کو سینے سے لگا کر رکھا ہوا تھا؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بھارت اور دیگر ممالک میں آرمی چیف کی تعیناتی اور مدت واضح ہے، اب عدالت میں معاملہ پہلی بار آگیا ہے تو واضح ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر مدت مقرر نہ کریں تو تاحکمِ ثانی آرمی چیف تعینات ہو گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ واضح ہونا چاہیے کہ جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہو جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کل آپ کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کر سکے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے۔
آئین میں 18 مختلف غلطیاں نظر آتی ہیں
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ مجھے آئین میں 18 مختلف غلطیاں نظر آتی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے۔
طے کریں کہ آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ یہ بھی طے کر لیا جائے کہ آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی کی جائے گی۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر اس میں ضروری تبدیلیاں کریں گے۔
ہمارے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہو گیا
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین و قانون کو کیا دیکھا کہ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہو گیا، کہہ دیا گیا کہ یہ تینوں جج سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں، الزام لگایا گیا کہ ہم بھارت کی ایما پر کام کر رہے ہیں، کہا گیا کہ یہ ففتھ جنریشن وار ہے، ہمیں پوچھنا پڑا کہ یہ ففتھ جنریشن وار ہوتی کیا ہے؟ کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھارتی چینلز پر چلایا جا رہا ہے، آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا، سوشل میڈیا کسی کے کنٹرول میں نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہماراحق ہے کہ سوال پوچھیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھے ہوں گے، آپ تجویز کریں کہ آرمی قوانین کو کیسے درست کریں؟
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، آپ 3 سال کے لیے توسیع دے رہے ہیں، کل کوئی قابل جنرل آئے گا تو پھر کیا اسے 30 سال کے لیے توسیع دیں گے؟
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پہلے تو کسی کو ایک سال، کسی کو 2 سال کی توسیع دی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر ہوتے ہیں، آپ کہہ رہے تھے کہ نہیں ہوتے، پھر آج کہہ رہے ہیں کہ ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ابہام ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اس ابہام کو دور کرنا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ رولز میں ترمیم کرتے رہے ہیں، پھر ہم نے ایڈوائزری کردار لکھ دیا۔
اس موقع پر جنرل ریٹائرڈ کیانی کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس نوٹی فکیشن میں بھی نہیں لکھا کہ توسیع کس نے دی۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ نوٹی فکیشن سے پہلے سمری تیار کی جاتی ہے۔
جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات بھی عدالت میں پیش کی گئیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جن جن لوگوں نے ملک کی خدمت کی وہ ہمارے لیے محترم ہیں، مگر آئین اور قانون سب سے مقدم ہے۔
چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے سوال
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ قانون بنانے میں کتنا وقت لیں گے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون بنانے کے لیے ہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہو جائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں، عدالت کا کندھا استعمال نہ کریں، آئندہ کے لیے بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہوگا، آرٹیکل 243 میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں، عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جہاں مدت کا ذکر نہ ہو وہاں حالات کے مطابق مدت مقرر ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے تعیناتی کے وقت حکومت نے آرٹیکل 243 میں پڑھتے ہوئے اس میں اضافہ کر دیا۔
3ماہ کے لیے آرمی چیف کی توسیع کر دیتے ہیں
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نے کہا ہے کہ قانونی سازی کے لیے 3 ماہ چاہئیں، تو ہم 3 ماہ کے لیے آرمی چیف کی توسیع کر دیتے ہیں، جنہوں نے ملک کی خدمت کی ان کا بہت احترام ہے، لیکن ہمیں آئین اور قانون کا سب سے زیادہ احترام ہے، ا س حوالے سے دوپہر کو شارٹ آرڈر جاری کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے سمری میں 243 کی شق کا حوالہ دے کر3 سال کی مدت لکھ دی ہے، سمری میں جس آئین کا ذکر ہونا چاہیے، وہ ہے ہی نہیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کےمعاملےپرفیصلہ محفوظ کر لیا۔
فروغ نسیم کا عدالت میں حلفیہ بیان
آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم نے اس موقع پر کہا کہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ 243 میں بہتری کر لیں گے، حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ آرٹیکل 243 میں تنخواہ، الاؤنس اور دیگر چیزیں شامل کریں گے، اس کا بیان حلفی بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔
چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ آپ سمری سے 3 سال کی مدتِ ملازمت کے الفاظ حذف کریں گے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم سے 4 نکات پر مشتمل بیانِ حلفی بھی طلب کر لیا جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو کام جاری رکھنے کی مشروط اجازت دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم 3 ماہ میں متعلقہ قانون سازی کا بیانِ حلفی دیں گے، آرمی چیف کے نوٹی فکیشن میں ان کی مدتِ ملازمت درج نہیں ہو گی۔
عدالت نے حکم دیا کہ آرمی چیف کے تقرر کی سمری دوپہر ایک بجے عدالت میں پیش کی جائے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ ہم تحریری طور پر لکھ کر دیتے ہیں کہ عدالت جو کہہ رہی ہے اس پر عمل کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا ذکر سمری میں سے حذف کریں گے، سمری میں سے آرمی چیف کی 3 سال کی مدت کا ذکر نکالا جائے گا، آرمی چیف کی تنخواہ و مراعات کو واضح کیا جائے گا، یہ کہ 6 ماہ میں قانون سازی کر لیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تمام ریکارڈ کا حصہ ہو، قانون درست ہونا چاہیے، یہ وقت کا ضیاع ہے، یہ کام حکومت کا تھا، ہم مزید اس پر غور کرتے ہیں، سہ پہر کو اس کا مختصر حکم نامہ بھی جاری کر دیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: آرمی چیف کی مدت ملازمت کا تعین کون کرتا ہے
واضح رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں عدالتِ عظمیٰ نے حکومت کو آج تک اس معاملے کا حل نکالنے کی مہلت دی تھی۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر اٹارنی جنرل عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو عدالت آج قانون کے مطابق کیس کا فیصلہ سنا دے گی۔