سندھ دھرتی پربڑے بڑے بزرگوں شاعروں،ادیبوں اور گلوکاروں نے جنم لیا، انہی میں سے ایک نام وتایو فقیر کا بھی ہے۔ وتایو فقیرسندھ کا ایک لازوال کردارہیں۔ ان کے قصے سندھی ادب اورمعاشرے میں ضرب المثل بن چکے ہیں۔پاکستان ایک کثیرالثقافتی ملک ہے، یہاں کے ہر خطے کا اپنا ایک الگ رنگ اور ثقافت ہے۔ اگر بات ہو سندھ کی تو اس صوبے کی ثقافت اپنی مثال آپ ہے۔ سندھ صوفیا ئےکرام اور امن و محبت کی سرزمین ہےجہاں بزرگ ہستیوں کی تعلیمات کا واضح عکس نظر آتا ہے۔حضرت لعل شہباز قلندر، شاہ عبداللطیف بھٹائی، میوں شاہ عنایت رضوی ،سچل سرمست اور دیگر صوفیاء نے اپنی تعلیمات اور شاعری سے سندھ میں امن و محبت کا پیغام عام کیا ہے۔
ان عظیم ہستیوں نے ہمیشہ اپنی کرامات، خدمات، کارناموں اور کردار سے دکھی انسانیت کے چہرےپر مسکراہٹ بکھیری ہے۔ سندھ اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے ساتھ ساتھ ایک روحانی تعلق بھی رکھتا ہے۔ صدیوں پرانے تہذیبی ورثے کے ذریعے صدیوں کی کہانیاں آج بھی مقبول ہیں۔ سندھ میں کئی صدیوں پہلے ایسے لوک کردار گزرے ہیں جو آج سندھی لوک ادب کا اہم حصہ ہیں اور ان کی حکایتیں، کہاوتیں اور قصے کہانیاں سندھی معاشرے میں ضرب المثل بن چکی ہیں۔ انہی میں اپنا جداگانہ مزاج رکھنے والےوتایو فقیر ہیں، جن کی ظرافت کے چرچے سندھ کے کونے کونے میں آج بھی لوگ دل چسپی سے سنتے ہیں۔
وتایو فقیر ایک لازوال کردار ہے، جس نے اپنی ظرافت اور محبت کی خوشبو سے سندھ کے کونے کونے کو معطر کیا ہے۔وتایو فقیر سندھ کے لوک ورثے پر ایک گہری چھاپ رکھنے والی شخصیت تھا ۔یہ وہ فقیرانہ شخصیت ہے جس نے اپنی مجذوب کیفیت میں بھی لوگوں کو محبت، امن اور عقلمندی کا درس دیا۔ وتایو فقیر نے اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی کہانیوں اور قصوں سے سندھ کے لوگوں کو فیض پہنچایا۔ خاص طور پر سندھ کے نام ور دانش ور اور اہل علم وتایو فقیر کی کہانیوں سے مستفید ہوئے۔ وتایو فقیرکسی بھکاری کا کردار نہیں تھا۔
یہاں فقیر سے مراد ہے صوفی منش، درویش، دنیا داری سے بے نیاز شخص تھے، جو عالم جذب کی کیفیت میں انتہائی عالمانہ اور دانش مندانہ باتیں کرتے تھے، جو لوگوں کی زندگی کے لیے مشعل راہ بن جاتی تھیں۔ سندھ کے کسی بھی کونے میں بسنے والے کسی شخص سے خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، ہندو ہو یا مسلم، اگر وتایو فقیر سے متعلق اس سے پوچھا جائے تو شاید اسے وتایو فقیر کے حسب و نسب کا پتا نہ بھی ہو تب بھی اسے ان کا کوئی قصہ ضرور یاد ہوگا۔
وتایو فقیر نے بارہویں صدی ہجری میں ایک ہندو گھرانے میں جنم لیا۔ ان کی ولادت کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں کہ وتایو فقیر عمر کوٹ کے علاقے اگھم کوٹ یا ٹنڈوالٰہ یار کے قریب واقع نصرپور کے گاؤں تاج پور میں پیدا ہوئے اوران کے آباؤ اجداد عمرکوٹ کے رہنے والے تھے، بعد میں نصرپور میں آکر آباد ہوگئے۔ وتایو کا نام وتومل تھا، ان کے والد میلھورام اپنی بیوی بچوں سمیت مسلمان ہوگئے۔
میلھو رام نے اپنا نام شیخ غلام محمد اور وتایو کا نام شیخ طاہر رکھا، لیکن جوں جوں وتومل کی شہرت پھیلتی گئی، ان کا نام بگڑ کر وتایوفقیر ہوگیا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ وتایو فقیر پیشے کے لحاظ سے رنگ ساز تھے۔وتایو فقیر سندھ کی عام زندگی میں اسی طرز کا ایک کردار ہے جس طرح ترکی کا ملا نصیر الدین اپنے گدھے پر سفر کرتے ہوئےلطیف پیرائے میں حکمت اور رمز کے موتی لٹاتا تھا۔ اسی طرح سندھ کا وتایو فقیر بھی گاؤں گاؤں گدھے پر گھومنے والا ایک جیتا جاگتا کردار تھا ،ایسا کردار جو خدا سے لاڈ بھی کرتا ہے اور جھگڑتا بھی ہے۔
اس کے علاوہ وتایو فقیر کو شیخ چلی اور بیربل سے بھی تشبیہ دی جاتی ہےقابل ذکر بات یہ ہے کہ کچھ لوگ وتایوفقیر کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک وہ ایک خیالی کردار ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وتایو فقیر کا وجود تھا۔ اس کی مثال اس کی باتیں، حرکات و سکنات، حکایتیں اور قصہ کہانیاں آج تک زبان زد خاص و عام ہیں۔ ان کے قصے کہانیوں نے نصیحت کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں خوف خدا، تزکیہ نفس اور انصاف کی جو تعلیمات دی ہیں وہ صدیوںیاد رہیں گی۔
وتایو فقیر مذاق مذاق میں بہت گہری بات کہہ جاتے تھے، جس کے پیچھے سچائی اور دیانت داری کا فلسفہ پوشیدہ ہوتا تھا۔وہ اپنے دور کے دانشور تھے جواپنے چٹکلوں اور حکایتوں سے سماجی برائیوں کی نشان دہی کرتے تھے۔ سندھی ادب میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔۔ وتایو فقیر کی کہاوتیں آج بھی لوگ اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں اور ان کی کہی ہوئی مزاحیہ باتوں کو بھول نہیں پاتے۔ کوئی بھی شخص جب بھی ان کے قصے سناتا ہے تو فوری طور پر چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوجاتی ہے۔ ان کی باتیں عقل، علم و دانش کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ان کی شخصیت اور وجود سے اختلاف رکھنے والے ان کی حکایتوں، کہاوتوں، فکاہیہ جملوں، مزے مزے کے چٹکلوں، دل چسپ قصوں اور نصیحت آمیز باتوں سے کس طرح انکار کرسکتے ہیں جو کہ آج بھی کتابوں کی شکل میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ وتایو فقیر کے قصے کہانیاں بچوں کی درسی کتابوں میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں نے ان کے قصوں اور کہانیوں کو جمع کرکے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔
ان کی حقیقت اور وجود کو آج کے دانشور بھی مانتے ہیں۔وتایو فقیر ایک داستان رقم کرگئے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں وہ مقام نہیں حاصل ہوا جس کے وہ حق دارتھے۔ بہت سے لوگ وتایو فقیر کے افکار سے ناواقف ہیں۔ ضروری ہے کہ ان کی شخصیت کو اجاگر کرنے کے لیے سیمینار منعقد کیے جائیں۔ ان کا مزار میرپور خاص روڈ پر ضلع ٹنڈوالٰہ یار میں قبہ اسٹاپ کے قریب واقع ہےاور اس علاقے کا نام قبا اسٹاپ بھی ہے ، جوان کے مزار کے گنبد کی وجہ سے پڑا۔ ان کے مزار پر سندھی زبان میں لکھا ہواانہی کا ایک شعر نظر آتا ہے، جس کا مطلب ہے ’’کبھی میں بھی ایسا ہی تھا، جیسے آپ ہیں اور کبھی آپ بھی ایسے ہی ہوںگے‘‘۔
اس سال پہلی مرتبہ اس عظیم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ضلعی سطح پر ان کا عرس منایا گیا۔صوبائی وزیر ثقافت سید سردار شاہ، کمشنر حیدرآبا د محمد عباس بلوچ،ڈی آئی جی حیدرآباد ریجن نعیم شیخ ، سیکریٹری محکمہ ثقافت سندھ عباس علی شاہ نے ٹنڈوالہ یار پہنچ کر صوفی بزرگ و مزاحیہ کردار وتایو فقیرکے سالانہ عرس مبارک کی تقریبات کاافتتاح ان کے مزار پر چادر چڑھا کرکیا ۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ٹنڈوالہ یار رشید احمد زرداری، ایس ایس پی ٹنڈوالہ یار رخسار کھاوڑ، ضلع کونسل کے چئیرمین مخدوم میوں علی محمد ولہاری سمیت دیگر سرکاری ، سیاسی و سماجی شخصیات موجود تھیں۔
وتایو فقیر کے عرس کے موقع پر ٹنڈو الہ یار میں ادبی کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں دانشوروں، محققین، ادباء اورمصنفین نے وتایو فقیر کے مزاحیہ سخن میں موجود فکر فلسفے، روحانیت اور دیگر پہلوؤں کو دنیا بھر میں روشناس کروانے کے لئے مؤثر حکمت عملی تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وتایو فقیر کا بے مثال پیغام نہ صرف موجودہ افراتفر ی کے ماحول کے خاتمے کا واحد حل ہے بلکہ یہ اندھیرے میں روشنی کے چراغ کے مانند ہے۔اس موقع پر اسکولوں کے طلباء کی جانب سے وتایو فقیرکے مزاحیہ گفتگو پرمبنی ٹیبلوز بھی پیش کئے گئےجبکہ آخر میں راگ رنگ کی محفل کا اہتمام کیا گیا جس میں سندھ کے مشہورگائیکوںنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔