• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’مولانا ظہور الحسن درس‘ قیام پاکستان کے بعد پہلی نماز عید بابائے قوم نے انہی کی اقتدا ءمیں ادا کی

نامور خطیب، شاعر اور تحریک پاکستان کے رہنما مولانا ظہور الحسن درس9 فروری 1905ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ گرامی مولانا عبد الکریم درس کراچی کے نامور عالمِ دین تھے۔ آپ کی پیدائش کے موقع پر پیر سید ظہور الحسن بٹالوی نے آپ کے کان میں اذان دی اور اپنا ہی نام ظہور الحسن تجویز کیا۔ آپ نے اپنے بزرگوں کے قائم کیے ہوئے مدرسہ درسیہ صدر کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ 

والد مولانا عبد الکریم درس اور صوفی عبد اللہ درس سے درسی نصاب میں تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔ روحانی اعتبار سے آپ خانوادۂ گیلانیہ بغداد شریف کے ایک بزرگ سید عبد السلام الگیلانی القادری (متوفی 1356ھ) سے سلسلۂ قادریہ میں بیعت سے سرفراز تھے۔

ظہور الحسن درس اپنے والد اور اجداد کی پیروی میں بندر روڈ کراچی میں واقع عید گاہ میں جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی امامت و خطابت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ انہوںنے مذہبی اور قانونی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے 1935ء میں مسلم جماعت انتظامیہ جامع مسجد قصابان صدر و بندر روڈ کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جسے آپ نے سوسائٹی ایکٹ 1860ء کے تحت رجسٹرڈ کرایا تھا۔ اس ٹرسٹ کے ٹرسٹی ہونے کی وجہ سے مولانا ظہور الحسن درس اپنی خدمات کا کوئی معاوضہ یا تنخواہ نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی زرعی اراضی جو حکومت برطانیہ کے ہاتھوں ضبط ہونے سے بچ گئی تھی اس کی آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ جامع قصابان صدر اور عید گاہ بندر روڈ پر خرچ کرتے تھے۔ 

بندر روڈ کا عید گاہ میدان، برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے سلسلے میں 11 اکتوبر1938ء کو صوبائی مسلم لیگ کانفرنس قائد اعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت میں اسی میدان میں منعقد ہوئی۔ 15 اکتوبر 1939ء کو علامہ درس کی کاوشوں سے اسی جگہ ایک تاریخی جلسہ منعقد ہوا جس میں بر صغیر پاک و ہند کے صف اول کے رہنما ؤں نے شرکت کی ۔ 15 دسمبر 1941ء کو اسی عید گاہ میں علامہ ظہور الحسن درس کی صدارت میں کراچی مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔

اس کے علاوہ آپ 1940ء سے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن اور سندھ پراونشل مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن اور دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم اجلاسوں میں سندھ کے نمائندہ وفد میں شریک رہے۔ 12 سے 13 فروری 1946ء کو تحریک پاکستان کے سلسلے میں عید گاہ میں آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں آپ پیش پیش تھے۔ 

اس کانفرنس میں ظہور الحسن درس کی دعوت پر برصغیر پاک و ہند کے جید علمائے کرام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی، مولانا عبد الحامد بدایونی، علامہ حامد رضا بریلوی اور علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی اور عوام نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور تحریک پاکستان سے وابستگی کے عزم کو دہرایا۔ علامہ درس نے اس کانفرنس میں تحریک آزادی پاکستان کے سلسلہ میں ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں مملکتِ خداداد پاکستان کے قیام کے مقاصد پر روشنی ڈالی گئی۔

قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں نمازِ جمعہ و عیدین کا سب سے بڑا اجتماع اسی عید گاہ میدان میں ہوا کرتا تھا اور یہ علامہ درس کی سحر انگیز شخصیت کا کمال تھا کی لوگ دور دراز کے علاقوں سے آکران اجتماعات میں شرکت کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے چند دن بعد 18 اگست 1947ء کو نماز عید الفطر کا ایک عظیم الشان اجتماع کراچی کی اسی عید گاہ میں منعقد ہوا، جس میں قائداعظم محمد علی جناح،نوابزادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، خواجہ ناظم الدین، راجہ غضنفر علی خان، حسین شہید سہروردی، کے ایچ خورشید اور محمد ہاشم گزدر اور دیگر اہم حکومتی شخصیات اور اکابرین ملت نے ان کی اقتدا میں نماز عید ادا کی۔ علامہ ظہور الحسن درس نے موقع کی مناسبت سے عید کی نماز سے قبل خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:

’’ہم نے مسلم لیگ کی حمایت اس لیے کی ہے کہ اس آزاد مملکت میں ہم شریعت مطہرہ ا ور قانونِ مصطفی کو رائج کریں۔ خدا کا شکر ہے کہ مسلمانوں کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجہ میں پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا ہے۔ اب ملت کے جذباتِ دیرینہ کا تقاضا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کا دستور خالص اسلامی اور قرآنی دوستور کی حیثیت رکھتا ہو اور اس مملکت کو دنیائے اسلام کے لیے ایک نمونہ بنایا جائے۔‘‘

قیام پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانانِ برصغیر ہجرت کرکے نئے وطن پاکستان پہنچے۔ ان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے سندھ اور خصوصاً کراچی کا انتخاب کیا تو اس موقع پر علامہ درس کی ہدایت پر فوری طور پر عید گاہ میدان کے وسیع و عریض قطعہ اراضی پر مہاجرین کے لیے ریلیف کیمپ قائم کیا گیا اور تینوں وقت مخیر حضرات کے تعاون سےان مصیبت زدہ لوگوں کی خور و نوش کا اہتمام کیاجاتا تھا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک مہاجرین اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو گئے۔

آپ عالم دین اور شعلہ بیاں خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ آپ کی مادری زبان سندھی تھی لیکن اردو میں دسترس رکھتے تھے۔ آپ ’ظہور‘ تخلص استعمال کرتے تھے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کیں جن میں ’چشم تلطف پنجتن، معاون ظہور الحسن، خون کے آنسو اور تحقیق الفق اما فی کلمۃ الحق (عرس لواری کی تاریخ) شامل ہیں۔ مذہب اور ملت کی گراں قدر خدمات انجام دینے کے بعد آپ 14 نومبر 1972ء کو کراچی میں رحلت کر گئے۔ آپ دھوبی گھاٹ (لیاری) کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

تازہ ترین