• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھانے کی تاریخ و ارتقاء، فلسفہ، حقائق، روایات اور تجزیات

رچرڈ رینگہم کا موقف تسلیم کرنےپر انسانی ارتقا کی ایک اہم ترین کڑی کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اور وہ ہے انسانی دماغ کا بڑا ہونا، جس نے اسے دیگرجان وَروں سے ممتاز کرکے عقلِ سلیم سے نوازا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ انسانی دماغ کے حجم کا کھانا پکانے سے کیا تعلق ہے؟درحقیقت انسانی جسم میں جس عضو کو سب سے زیادہ توانائی چاہیے، وہ انسانی دماغ ہے اور دماغ کو مطلوبہ توانائی پکے ہوئے کھانے سے باآسانی حاصل ہوسکتی تھی۔ سائنسی طور پر، اس طرح توانائی حاصل کرکے لاکھوں برس میں انسان کا دماغ موجودہ حجم تک پہنچ کر اپنے اندر ذہانت پیدا کرپایا۔ 

انسانی دماغ ایک ذہین عضو ہے۔ یہ بات بھی ہمیں انسانی دماغ ہی نے سمجھائی۔ بلا کا خود پرست ہےانسانی دماغ۔ آثارِ متحجر (Fossils)کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جیسے جیسے انسانی دماغ بڑا ہوتا گیا، ویسے ویسے انسان کی آنتیں چھوٹی ہوتی گئیں۔ تب تک ہمارے آباؤاجداد نے نرم اور ہاضم غذا استعمال کرنا شروع کردی تھی۔ ایک بشریاتی تحقیق کے نتیجے میں ساؤتھ افریقہ کی ونڈرورک غار میں دس لاکھ برس پہلے آگ کے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں۔ آگ کے استعمال سے انسان (Neandertals) نیندر تالس یا نیم انسانی نسل سے علیحدہ ہو کر موجودہ نسلِ جدیدمیں منتقل ہوا۔ انسان کی جینیاتی ترکیب میں پکا ہوا کھانا استعمال کرنے کو اوّلیت حاصل ہے۔ یہ جینیاتی ترکیب بَن مانس میں بھی پائی گئی ہے۔ 

بَن مانس پکے ہوئے کھانے کو ترجیح دیتا ہے، کھانا پکنے کا انتظار کرسکتا ہے (جب کہ دوسرے جان وَ ر فقط خوراک حاصل کرنا چاہتے ہیں، بغیرٹریننگ کے انتظار کرنا نہیں جانتے۔ آسان دست رس میں خوراک پرمنہ مارتے ہیں) اور کھانے کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔ دراصل انسانی جسمانی اور ذہنی ساخت ایسی ہے کہ اس کا کسی جان وَر سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی جسم کی حیاتیاتی ترکیب کسی جان وَر سے مل سکتی ہے مگر کھانے کی عادات وخصائل منفرد ہیں۔ انسان کی گوشت خوری کی ابتدائی علامات چھبیس لاکھ برس پرانی ہیں۔ 

اس کا اندازہ بنی آدم کے ابتدائی آثار کی دریافت کے ساتھ جان وَروں کی ہڈیوں پر کٹ کے نشانات سے ہوتا ہے۔ جہاں پکے کھانے کھانے کے لیے چھوٹے دانت استعمال ہوسکتے ہیں ،وہیں ایک مخمصہ آتا ہے کہ کچا گوشت کھانے کے لیے انسانوں کے موجودہ چھوٹے دانت نامناسب ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ کچا گوشت کھانے والا آدم نُما آہستہ آہستہ موجودہ انسان کی شکل اختیار کرگیا۔ اس کا دماغ بڑا ہوگیا اور آنتیں اور دانت چھوٹے ہوگئے۔

ہارورڈ یونی ورسٹی امریکا کے ڈیپارٹمنٹ آف ہیومن ایوولوشنری بائیولوجی کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں پچاس فی صد سے زیادہ کیلوریز نشاستے (Starch) سےحاصل ہوتی ہیں۔ گزشتہ دَور کے شکاری اورپھلوں، سبزیوں، جَڑی بوٹیوں اور پودوں پر گزارہ کرنے والے انسان غیر شعوری طورپر نشاستہ آمیز خوراک کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ البتہ یہ تلاش انسانی جینیاتی ترکیب میں چند ہزار برس پہلے شامل ہوئی۔ اس سے پہلے اگر یہ خواہش انسان میں تھی تو خوابیدہ تھی، چوں کہ انسان کو نشاستہ حاصل کرنے کے مواقع بہت کم میسّر تھے۔ قریباً دس ہزاربرس پہلے زرعی دَور کا آغاز ہوا، جب انسان نے شکار اور اِدھر اُدھر سے پھل بوٹے کھانے کے بجائے اجناس باقاعدہ اُگانے کا آغاز کیا۔ 

تب انسان کے نشاستے کی ضروریات کاشت کیے جانے والے چاول، گندم اور دیگر اجناس سے پوری ہونے لگیں۔ پرانے انسانی آثارکےمطابق پچاس ہزار برس پرانے ایک نیندرتالس کے نیم انسانی ڈھانچے کے دانتوں کے تجزیے سے مایوس کُن حدتک کم نشاستہ برآمد ہوا۔ انسان خوراک کے معاملے میں خصوصی انتخاب کرتا آیا ہے۔ دنیا میں پودوں کی 664 نسلیں ہیں، جن کی بے شماراقسام ہیں۔ بَن مانس ان میں سے تیس فی صد کو کھاتے ہیں، جب کہ انسان صرف گیارہ فی صد کو خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ زرعی دَور سے پہلے خوراک مشکل سے حاصل ہوتی تھی، اس لیے اس کے ساتھ ایک تقدّس بھی وابستہ تھا۔ 

انسان دیوی، دیوتاؤں کے چرنوں میں خوراک دان کرتا، بعض صُورتوں میں قبروں میں بھی خوراک رکھ دی جاتی۔ اس کی ایک نمایاں مثال مصر کے اہرام ہیں کہ اہرام میں محفوظ کی گئی انسانی ممیوں کے پاس خوراک پائی گئی۔ اس کے پیچھے یہ دُھندلی سوچ کارفرما ہوتی تھی کہ دوبارہ پیدائش یعنی آواگون کی صُورت میں کھانا میسر ہو یا پھر اگر انسان دوبارہ جی اُٹھے تو بھوکا نہ رہ جائے۔ ہمارے معاشرے میں تقدّس کی یہ روایت نذر نیاز اور صدقے کی صُورت موجود ہے۔ قرآن پاک کے ختم کے ساتھ کھانا تقسیم کیا جاتا ہے، مزاروں میں لنگر چلائے جاتے ہیں اور موت کی رسوم میں کھانا دیا جاتا ہے۔ ہندوؤں میں دیوی دیوتاؤں کے چرنوں میں کھانارکھا جاتا ہے، جسے بعد ازاں لوگوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ سکھوں کے ہاں پرشاد تقسیم کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں واقع موہن جودڑو کے کھنڈرات سے جہاں اور کئی آثار ملے،وہیں خوراک ذخیرہ کرنے کے گودام اور اجناس کے قابلِ خوردن ذرّات بھی برآمد ہوئے۔ مذاہب میں اگر ایک جانب خوراک کو اہمیت حاصل ہے، تو وہیں روزے کے ذریعے خوراک سے اجتناب کو روح کے لیے مفید قرار دیا جاتا ہے۔ اسلام میں روزے کو روحانی فضائل میں اضافے کے علاوہ غربا کے ساتھ ہم آہنگی کا باعث بھی سمجھا جاتا ہے۔ 

مہاتما بدھ کو فاقے کےدوران گیان میں معرفت کی روشنی ملی تھی۔ ہندو سادھو اوربدھ بھکشو چلہ کشی کے دوران یا تو خوراک سے اجتناب کرتے ہیں یا پھر اتنا کم کھاتے ہیں، جتنا زندہ رہنے کے لیے کافی ہو۔ گئے وقتوں میں قبیلے کے سردار یا برادری کے سرپنچ کا کسی کو اپنے ساتھ یا اپنے برابر بٹھا کر کھانا کھلانا اُسے عزت کا مرتبہ دینے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی فوج میں ’’بڑے کھانے‘‘ کی روایت موجود ہے، جس میں فوجی سربراہ سپاہیوں کےساتھ کھانا کھا کر ان کی عزت افزائی کرتے ہیں۔ 

زرعی دَور کی آمد کے ساتھ لوگ نہ صرف اجناس اُگانے لگے بلکہ مویشی بھی پالنے لگے تاکہ اُن کے دودھ اور گوشت سے مستفید ہو سکیں، جب کہ زرخیز علاقوں میں لوگوں کا زیادہ رجحان سبزیوں،پھلوں کی جانب ہوگیا۔ صحرائی علاقوں میں لوگ گوشت کی جانب راغب ہوئے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگرسبزی خور ہندو عرب صحرا میں رہتے، جہاں اناج مشکل سے حاصل ہوتا ہےتو کیا وہ پھر بھی سبزی خور رہ پاتے؟یعنی عقائد و رسوم پر بہت حد تک جغرافیائی حالات کا بھی اثر ہوتا ہے۔

تین ہزار برس قبل عیسوی میں پاک و ہند میں تِل، بینگن اور سرسوں کا ساگ باقاعدہ اُگانے اور بھیڑ بکریاں پالنے کا آغاز ہوا تھا۔ قریباً دنیا کی ہر تہذیب کے آثار میں کھانے سے متعلق دو اشیا کا سراغ ملتا ہے۔ ایک تو توا نُما برتن اوردوسرے تنور۔ 

رامائن اورمہابھارت کی تحریر کا دَور قریباً چارسو برس قبل عیسوی تصوّر کیاجاتا ہے، جب کہ یہ داستانیں اپنے سے ایک ہزاربرس پہلے یعنی چودہ سو سال قبل عیسوی کا زمانہ بیان کرتی ہیں۔ ان میں رام، سیتا اور لکشمن کی غذائوں کا تذکرہ موجود ہے۔ رام اور لکشمن جِلاوطنی کے دوران جان وَروں کا شکارکر کےکھاتےتھے۔ سیتا کا پسندیدہ کھانا چاول میں ہرن کا گوشت، سبزیاں اور مسالے تھے، جب کہ رام کا پسندیدہ پھل، بیر تھا۔ مہابھارت میں ایک سیر کا خُوب صُورت احوال بھی ملتا ہے، جس کے دوران کھانے میں گوشت کے پارچہ جات کو انار، املی، مسالے، خوش بودار پتے اور گھی ڈال کر بُھوناگیا۔ اس میں دودھ اورچاول میں گھی، شہد اور پھل ڈال کر شیرینی تیارکرنے کا حوالہ بھی موجود ہے۔ 

پھر ہندومت میں قریباً پانچ سو برس قبل عیسوی میں مختلف کھانے منع کیے جانے لگے۔ اُن میں دیگر وجوہ کے علاوہ کھانے کے ’’مزاج‘‘ کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ تصوّر تھا کہ خوراک انسان کے مزاج پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔ یوں 54 قسم کی غذائوں کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔ گوشت خوری پرپابندی کا آغاز جَین مَت کی چند شاخوں سے ہوا۔ بعد ازاں یہ ہندو مَت میں بھی آگئی۔ جدید ہندوستان کی ایک تہائی آبادی فقط سبزی خور ہے۔ پاک وہند کی وسیع و عریض زمین پر جتنی تعداد کے رنگا رنگ پھل اور سبزیاں مِلتے ہیں، وہ دنیا کے کسی ایک خطّے میں کم یاب ہیں۔ یہاں پرکثرت سے موجود اناج اورسبزیوں نے بھی سبزی خوری کو آسان بنا دیا۔

آج پاکستان میں باسمتی چاول کا استعمال عام ہے، مگر اس کے معنی کم ہی لوگوں کو معلوم ہیں۔ ’’باس’‘ کا مطلب خوشبو یا مہک ہے اور ’’متی‘‘ مٹی کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی باس مَتی کا مطلب ’’مٹی کی مہک‘‘ ہے۔ ناشتے کا تصور نسبتاًجدید ہے۔ پہلے صرف دو وقت کا کھاناہوتا تھا۔ 

قرونِ وسطیٰ تک دو کھانوں کا تصور رائج رہا۔ صبح کا ناشتا بیماروں، بچّوں، بوڑھوں یا مزدوروں کے لیے ہوتا اور مزدور اس لیے ناشتا کرتے تاکہ وہ اتنی توانائی حاصل کرلیں، جس سے وہ دوپہر تک محنت کر پائیں۔ اُمراء، معززین ناشتا نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنی شان اور مردانگی پرآنچ آنے کے خیال سے ناشتے کا تذکرہ کرتے ہوئے شرماتے تھے، البتہ اس میں ایک استثنا مسافروں کو حاصل تھا، وہ اپنی خوراک ساتھ لے کر چلتے تھے، جس میں ناشتا بھی شامل ہوتا۔ یورپ میں چودھویں صدی عیسوی میں ناشتے کا رواج شروع ہوا۔ وہاں ہلکی شراب بھی ناشتے میں شامل ہوتی تھی۔ آلو جنوبی امریکا کے ممالک پیرو اور بولیویا میں پہلی مرتبہ کاشت کیا جانے لگا۔ 

جب ہسپانیہ (جدید اسپین) نےجنوبی امریکا کی اِنکاسلطنت فتح کی تو وہ اپنے ساتھ آلو لے کر آئے۔ آہستہ آہستہ آلو پوری دنیا میں پھیل گیا۔ قریباً سات ہزار برس قبل دریافت ہونے والا آلو اس وقت ایک ہزار سے زائد اقسام میں اُگایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں آلو کو سترہویں صدی عیسوی میں متعارف کروایا گیا۔ حیران کُن طور پر آلو نے انیسویں صدی میں یورپ میں انسانی آبادی کے تیز رفتار پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی نقل وحمل آسان تھی، جلد خراب نہ ہوتا تھا، فوری توانائی دیتا تھا، سستا تھا اور جلدپیٹ بھر دیتا تھا، اس لیے آلو اٹھارہویں سے بیسویں صدی تک دنیا کی ایک چوتھائی آبادی بڑھانے کا باعث بنا۔

چاول کو دنیا بھر میں پھیلانے کا سہرا مسلمانوں کے سَرجاتا ہے۔ اسے تین ہزار برس قبل ایشیا میں اُگایا گیا۔ بعض غذائی مورخین کے مطابق اسے پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر تھائی لینڈ میں کاشت کیا گیا۔ دیگرمحققین کی رائے میں، کوریامیں سب سے پہلے چاول اُگایا گیا۔ اسے پہلی مرتبہ مسلمان نویں صدی عیسوی میں سسلی، اٹلی میں لے کر آئے۔ پندرہویں صدی عیسوی تک یہ پورے اطالیہ اور ملحقہ ممالک میں پھیل چکا تھا۔ اس وقت یہ دنیا بھر میں گنے اورمکئی کے بعد کاشت کی جانے والی تیسری بڑی غذائی جنس ہے۔ ایشیا میں دنیا کا نوّے فی صد چاول پیدا ہوتا ہے۔ دنیا میں سفید، سُرخ، براؤن اور سیاہ رنگ ونسل کے چاول اُگائے جاتے ہیں۔ 

سیاہ چاول صرف چین اور ہندوستان میں پیدا ہوتےہیں۔ انھیں ممنوع اور جادو والے چاول سمجھا جاتا ہے۔ گنے کے رس سے بننے والی شکر کو پہلی مرتبہ بحرالکاہل کے جزائر میں دریافت کیا گیا، جہاں سےیہ ہندوستان میں متعارف ہوئی۔ فارس کا (ایران کا قدیم نام)معروف بادشاہ دارا510 قبل عیسوی کو ہندوستان پر حملہ آور ہوا، جہاں اُس نے ایک ایسا پودا(نرسل) دیکھا، جو ’’بغیر مکھیوں کے شہد پیدا‘‘ کرتا تھا، یہ گنے کا تذکرہ تھا۔ گنے کی باقاعدہ کاشت میں صدیاں لگ گئیں۔ تب تک کھانے میں مٹھاس کے لیے ’’شہد‘‘ اور ’’پھلوں کا رَس‘‘ استعمال کیاجاتا رہا۔ شروع میں شکرفقط امرا کی خوراک میں شامل تھی۔ بعد ازاں، غلاموں کی مددسےگنے کی کاشت میں اضافے سے اس کی قیمت کم ہوئی۔ ہندوستان میں گندم اعلیٰ طبقے کی غذا تھی۔ 

غریب اور محنت کش افراد جوار اور باجرا کھایا کرتے۔ شیر شاہ سوری کو راج پوتانہ میں ایک جنگ میں شکست ہوتے ہوتے رہ گئی، تو اُس نے مشہور جملہ کہا ’’مَیں مُٹھی بھر باجرے کی خاطر اپنی سلطنت کھونے والا تھا۔‘‘ اگرجَو کی اچھی فصل نہ ہوتی تو یورپ میں جنگیں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ جنگیں گھوڑوں پر لڑی جاتی تھیں اور جَو گھوڑوں کی خوراک تھی۔ امریکا میں مکئی بہت استعمال ہوتی تھی۔ یہ امریکا کے قبائل میں کولمبس کی آمدسےڈھائی ہزار سال پہلےسےکھائی جارہی تھی۔ 

اس کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ خشک زمین پر بھی کاشت ہوجاتی ہے، اس کی سالانہ دو فصلیں ہوتی ہیں، پکنےسے پہلےکھانے کے قابل ہوجاتی ہے اور اسے مرچ،مچھلی اور ٹماٹر کے ساتھ کھایا جاتا تھا۔ مکئی، ٹماٹر،چاکلیٹ اورسرخ مرچ جنوبی و شمالی امریکا میں دریافت ہو کر پوری دنیا میں پھیل گئے۔

پہلی صدی عیسوی ہندوستان کی تاریخ میں انقلاب لے کر آئی۔ اس صدی میں اہل روم نے مون سون کی ہواؤں کے رُخ دریافت کرکے مسالوں کی خرید کے لیے بادبانی جہاز ہندوستان بھیجنے شروع کیے۔ ہندوستان میں کالی مرچ کی بہتات تھی، سو اس کے بدلے رومی سونا دیا کرتے تھے۔ اسے Barter Trade ،مبادلہ یا اشیا کا تبادلہ بھی کہا جاتا تھا۔ روم سے تجارتی قافلے چین کےرستے شاہ راہِ ریشم آنےلگے۔ مسالوں کی وسیع پیمانے پرطلب نے سلطنت ِ روما کو مالی بحران میں مبتلا کردیا۔ اِدھر ہند میں سونےکےذخائرمیں اضافہ ہونےلگاجو بعدازاں ’’سونے کی چڑیا‘‘ بن گیا۔ 

ٹناہل اپنی کتاب’’فوڈ اِن ہسٹری‘‘ کے صفحہ 113پر رقم طراز ہے کہ ’’قدیم ہندوستان میں دو وقت کھانا کھایا جاتا تھا، جو 32لقموں پرمشتمل ہوتا ‘‘(مسلمانوں میں بھی تین گھونٹ میں پانی پینےکی روایت چلی آرہی ہے)۔ ہندوستانیوں کے خیال میں پیٹ کے چار حصّے تھے۔ دو کھانے، ایک پانی اور ایک ہوا کے لیے۔ ہندوستان اور یورپ کے مابین مسالوں کی تجارت کو تاریخ دانوں کی اکثریت یورپ میں نشاۃِثانیہ کے احیا کی دیگر وجوہ میں ایک اہم وجہ قرار دیتی ہے۔ہندوستانی مسالوں کے مبادلے میں ملایا میں واقع ملا کا سےحاصل ہونے والے ربڑ اور افیون بھی تجارتی استعمال میں لائے جاتےتھے۔ قدیم وقتوں سےمسالاجات سے دیومالائی اور ناقابلِ یقین داستانیں منسوب تھیں۔ 

اُن کا استعمال اُن علاقوں میں عام تھا، جہاں یہ پیدا نہ ہوتے تھے اور یہ کئی مُلکوں اور ہاتھوں سے ہوتے ہوئے منڈی تک آتے تھے، سو ان کا ماخذ اسرار کی دُھند میں لپٹا رہتا۔ ایک حیران کُن حکایت ہے ہیروڈوٹس پانچویں صدی قبل مسیح میں پیدا ہونے والا وہ شہرئہ آفاق مورخ تھا، جسے بابائے تاریخ بھی کہا جاتا ہے۔ 

وہ دارچینی کی ایک قسم ’’کیسیہ‘‘ کے حصول اور ماخذ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’اِسے پورے بدن کا لباس پہن کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، جوملبوس آدمی کو ’’چمگادڑوں جیسے پرَوں‘‘والےپرندوں سےبچاتا ہے،جو خوف ناک طریقے سےچیختےاوروحشی ہوتے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ دار چینی کہاں پیدا ہوتی ہے، البتہ اس کی ڈنڈیاں، عرب میں بڑے پرندے لےکرآتے ہیں جو انھیں اپنےگھونسلوں میں لےجاتےہیں۔ 

وہ مٹی کےگھونسلے پہاڑوں کی ایسی عمودی چٹانوں پر بنے ہوتے ہیں، جن تک کوئی انسان نہیں پہنچ سکتا۔ ان ڈنڈیوں کو حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ مردہ بَیل کے بدن کے ٹکڑے کرکے اس کے گوشت کے ٹکڑوں کو گھونسلوں کے قریب پھینک دیاجائے۔ پرندےگوشت کے ان ٹکڑوں کواپنے گھونسلوں پر لےجاتےہیں۔ مٹی کے گھونسلے گوشت کے بڑے ٹکڑوں کو سہار نہیں پاتےاور ٹوٹ کر زمین پر گرجاتے ہیں۔ 

ان گھونسلوں میں ذخیرہ کی گئی دار چینی کی ڈنڈیاں بھی بکھرجاتی ہیں، پھران ڈنڈیوں کو وہاں سے چُناجاتا ہے۔‘‘اگرہیروڈوٹس جیسا اہم تاریخ دان ایک حکایت میں اتنا مبالغہ کرسکتا ہے تو تاریخ و روایت کے عام راوی تو جانے کیا کیا رنگ آمیزی نہ کرچُکے ہوں گے اور ہم اس داستان طرازی کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہوں گے(واللہ اعلم بالصواب)۔ (جاری ہے)

تازہ ترین