اسلام آباد (انصار عباسی) شوگر کمیشن نے اپنا کام مکمل کرنے کیلئے وفاقی حکومت سے تین ہفتے کی مہلت مانگ لی ہے۔
کمیشن کے چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیاء نے باضابطہ طور پر جمعہ کو حکومت سے رابطہ کرکے درخواست کی ہے کہ کام مکمل کرنے کیلئے شوگر کمیشن کو اضافی تین ہفتوں کا وقت دی جائے۔
کمیشن کو کام مکمل کرنے کیلئے 25؍ اپریل کی ڈیڈلائن دی گئی تھی ۔ کمیشن کی درخواست وفاقی کابینہ کے روبرو پیش کی جائے گی تاکہ اسے کام کیلئے مزید مہلت دی جا سکے۔
کابینہ کی منظوری ہفتے کے آخر تک سرکیولیشن کے ذریعے دی جائے گی یا پھر منگل کو کابینہ کے اجلاس کے دوران یہ کام کیا جائے گا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن نے حکومت کو بتایا ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر 25؍ اپریل کی ڈیڈلائن میں توسیع درکار ہے۔
کمیشن نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ نہ صرف کورونا وائرس کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے بلکہ عدم تعاون جیسے مسائل بھی درپیش ہیں۔
کچھ معاملات ایسے بھی ہیں کہ کمیشن کو درکار معلومات تاخیر سے حاصل ہوئی جبکہ کچھ معاملات میں مطلوبہ معلومات کا ابھی انتظار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کمیشن نے وفاقی حکومت کو یہ بھی بتایا ہے کہ شوگر انڈسٹری کے فارنسک آڈٹ کا کام بہت پیچیدہ ہے اور اسی لیے اسے محتاط طریقہ سے انجام دینا ہوگا۔
اسی دوران ایف آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن کو نہ سرف طاقتور شوگر انڈسٹری سے بلکہ سرکاری حلقوں سے بھی عدم تعاون کا سامنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کمیشن اور اس کے تحقیقات کاروں کی ٹیموں پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا کہ کسی اور نہیں بلکہ شوگر کمیشن کے چیئرمین واجد ضیاء کو دھمکیاں دی گئیں کہ تحقیقات بند کر دیں۔
وزیراعظم عمران خان کو بھی پیغام دیا گیا تھا کہ شوگر انڈسٹری کے فارنسک آڈٹ کا سلسلہ بند کیا جائے بصورت دیگر انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ چینی کی قیمت بڑھ کر 110؍ روپے فی کلوگرام تک بھی جا سکتی ہیں۔
حال ہی میں کمیشن نے اپنے ایک اہم تحقیقات کار کو ہٹا دیا تھا، ان پر مبینہ طور پر شوگر انڈسٹری کو فائدہ پہنچانے کیلئے کام کرنے کا ا لزام تھا۔
کمیشن نے الزام عائد کیا تھا کہ مذکورہ افسر کمیشن کی معلومات شوگر انڈسٹری کو فراہم کر رہا تھا اور ساتھ ہی تحقیقاتی ادارے کو غلط معلومات فراہم کرکے گمراہ بھی کر رہا تھا۔
تاہم، افسر نے کمیشن کے چیئرمین کو لکھے گئے خط میں ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ اسے تحقیقات سے اسلئے ہٹایا گیا کیونکہ کمیشن کے کچھ ارکان نے ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے کردار پر سوالات اٹھانے کی وجہ سے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
ایک سرکاری ذریعے نے افسر کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بیان حقیقت نہیں بلکہ بعد میں گھڑی جانے والی بات ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن اب اپنی ٹیم کے تحقیقات کاروں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان پر با اثر اور امیر ترین شوگر انڈسٹری کے لوگ دبائو نہ ڈال سکیں۔ ملک میں آنے والے گندم اور چینی کے حالیہ بحران کے بعد، وزیراعظم عمران خان نے ابتدائی طور پر تین رکنی انکوائری کمیٹی بنائی تھی تاکہ اس معاملے کی تحقیقات کی جا سکے۔
کمیٹی کے سربراہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا تھے۔ چند ہفتے قبل گندم اور چینی کے معاملے پر علیحدہ علیحدہ رپورٹس پیش کرنے کے بعد انکوائری کمیٹی نے حکومت کو سفارش کی کہ کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ شوگر انڈسٹری کا فارنسک آڈٹ کیا جا سکے۔
وفاقی کابینہ نے اس کی اجازت دی اور شوگر کمیشن ڈی جی ایف آئی اے کے ماتحت تشکیل دیا گیا۔
اس کمیشن میں انٹیلی جنس بیورو، ایف آئی اے، ایف بی آر، اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ پنجاب وغیرہ کے ملازمین شامل تھے۔ کمیشن سے اپنا کام مکمل کرکے 25؍ اپریل تک رپورٹ جمع کرانے کا کہا گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے ایف آئی اے کی انکوائری کمیٹی کی گندم اور چینی کی رپورٹس جاری کر دیں اور وعدہ کیا کہ جن لوگوں کو شوگر کمیشن نے قصور وار قرار دیا؛ ان کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔