کسی زمانے میں یہ تاثر عام تھا کہ اردو میں عظیم ادبی ناول نہیں لکھے گئے اور اردو میں عظیم ناول تو کیا اچھے ناول بھی نہیں ہیںیا بہت کم ہیں۔ لیکن عزیز احمدنے اس سے اختلاف کیا۔ عزیز احمد ناول نگار بھی تھے اور نقاد و محقق بھی۔ان کا خیال تھا کہ جن لوگوں نے اردو ادب کا بِالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا وہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو میں اچھے ناول نہیں ہیں ۔
شہزاد منظر نے لکھا ہے کہ آزادی کے بعد اردو میں کئی معیاری ناول لکھے گئے اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں متعدد اچھے ناول منظرِ عام پر آئے۔یہ گویا ہمارے ملک کے صنعتی کلچر کی دین ہے اورغالباً اس خیال کی توثیق ہے کہ ناول دراصل صنعتی دور اور صنعتی معاشرے کی پیداوار ہے ۔ زرعی معاشرہ بالعموم شاعری کو نثر پر ترجیح دیتا ہے۔کچھ نقادوں کا خیال تھا کہ اردو ناول ۱۹۸۰ء کے لگ بھگ زوال کا شکار ہوگیا اور ۱۹۸۰ء کے بعد عمدہ ادبی ناول اردو میں نہیں لکھے گئے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں بھی بعض عمدہ ناول لکھے گئے اگرچہ ان کی تعداد نسبۃًکم رہی۔
اکیسویں صدی کے آغاز کے لگ بھگ اردو میں ایک بار پھر اچھے ادبی ناول خاصی تعداد میں نظر آنے لگے۔ عرفان جاوید نے کوئی پانچ چھے سال قبل اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھا تھا کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں اردو ناول کا احیا ہوا ہے اور بعض بہت عمدہ ناول شائع ہوئے ہیں ۔ ممتاز احمد خان نے بھی اپنی کتابوں میں نئے اور اہم ناولوں کا جائزہ لیتے ہوئے خیال ظاہرکیا ہے کہ آزادی کے بعد اردو میں بعض بہت اچھے ناول بھی لکھے گئے ہیں۔ غفور احمد نے اپنے مقالے ’’نئی صدی نئے ناول ‘‘میں اکیسویں صدی کے ابتدائی دس برسوں میں لکھے گئے معیاری ناولوں کا جائزہ لیا ہے۔
شاعر علی شاعرنے حال ہی میں اپنی کتاب ’’جدید اردو ناول‘‘میں اکیسویں صدی میںپاکستان اور ہندوستان میں شائع ہونے اردو ناولوں کی فہرست دی ہے ۔ ان کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو ہے، یہ سب اعلیٰ ادبی ناول تو نہیں ہیں لیکن کم از کم یہ اس بات کا ثبوت ضرورہے کہ اردو میں ناول لکھا جارہا ہے اور اردو میں ناول کا احیا ہورہا ہے۔اکادمی ادبیات پاکستان نے پچھلے ماہ اپنے جریدے ’’ادبیات ‘‘ کا ناول نمبر شائع کیا ہے اور دو جلدوں پر مشتمل اس خصوصی اشاعت میںاردو ناول پر مضامین و مقالات کے علاوہ اردو کے تقریباً تین ہزار ناولوں کے نام (مع مصنف ) دیے گئے ہیں۔ لیکن اس میں ہر قسم کے ناول شامل ہیں ، ادبی بھی اور غیر ادبی بھی۔
اتنی بڑی تعدادمیں ناولوں کی موجودگی میں بہترین کا انتخاب آسان نہیں ہے۔لیکن بہرحال اردو ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اردو کے بہترین ناولوں کی فہرست پیش کرنے کی یہ طالب علمانہ کوشش ہے۔ یہ فہرست تاریخی ترتیب سے مرتب کی گئی ہے۔ہماری اس فہرست میں ناولوں کی ادبی اہمیت اور فنی خوبیوں کو مد نظر رکھا گیا ہے۔عوامی مقبولیت کے حامل ناول نیز خواتین کے ’’گھریلو، معاشرتی اور اصلاحی ناول‘‘ شامل نہیں ہیں۔ اس میں ’’اسلامی ‘‘ اور جاسوسی ناول بھی شامل نہیں ہیں ۔
ممکن ہے بعض قارئین کو اس فہرست سے اختلاف ہو کیونکہ اس میں بعض معروف ادبی ناول بھی نہیں ملیں گے ، مثلاً مولوی نذیر احمد دہلوی کا ناول مراۃ العروس(۱۸۶۹ء) اس میں شامل نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نذیر احمد کے ناول موجودہ دور میں ناول کی تعریف پر پورا اتر بھی جائیں تو ان کی بعض خامیاں ان کو اچھے ناول میں شمار کرانے میں مانع ہیں، مثلا ً کرداروں کا لمبی لمبی تقریریں کرنا اور مصنف کا براہ ِ راست وعظ و تلقین پر اتر آنا۔پھر نذیر احمد کے کردار حقیقی زندگی سے بہت دور ہیں ۔ اچھا کردار نیکی اور عقل کا پتلا ہے اور برے کردارمیں کوئی خوبی نہیں۔ حقیقی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا ، انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ نذیر احمد نے کرداروں کا نفسیاتی ارتقا بھی کم دکھایا ہے۔
راشد الخیری نے تو اپنے بعض ناولوں میں لڑکیوں کی ’’صحیح تربیت ‘‘ کے خیال سے کپڑوں کی تراش اور سلائی سکھانے کے لیے سلائی کے طریقے بھی پیش کیے ہیں اور باقاعدہ نمونے (ڈیزائن) بھی شامل کیے ہیں ۔ آج کے ناولوں میں اس کا تصور بھی محال ہے۔دراصل ناول میں زندگی کی تخلیق اہم ہوتی ہے۔ اس کے لیے پورے سماجی ، ثقافتی ، تاریخی اور سیاسی ماحول اور زبان کا شعور ضروری ہے۔لیکن اس زندگی اور ماحول کو پورے ادبی اور فنی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بالواسطہ پیش کرنا ہوتا ہے نہ کہ بلا واسطہ اور براہِ راست۔
عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں بہت مشہورہے لیکن قرۃ العین حیدر نے ’’کار ِ جہاں دراز ہے‘‘ میں اس پر نہ صرف سرقے کا الزام لگایا ہے بلکہ وہ جملے اور پیراگراف صفحہ نمبر کے ساتھ پیش کیے ہیں، جن سے اداس نسلیں میں ’’استفادہ ‘‘ کیا گیا ہے۔ اب یہ محض اتفاق ہی ہوگا کہ کئی مقامات پر یہ ’’استفادہ‘‘ لفظ بہ لفظ ہوگیا ہے۔
لہٰذا اسے بھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس فہرست پر ہمیں اصرار بھی نہیں ہے کیونکہ ایسی کوئی بھی فہرست حتمی نہیں ہوسکتی اورایسی کسی فہرست پر سب کا متفق ہوجانا بھی ناممکنات میں سے ہے۔ لہٰذااس فہرست میںہر قاری اپنی پسند اورذوق کے مطابق تبدیلی، ترمیم اور اضافہ کرسکتا ہے۔
۱۔فسانۂ آزاد (۱۸۷۸ء)
پنڈت رتن ناتھ سرشار کا یہ شاہ کارنول کشور کے ’’اودھ اخبار ‘‘ میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ اس کے دو کرداروں میاں آزاد اور خوجی کا شمار اردو ادب کے معروف کرداروں میں ہوتا ہے۔ فسانۂ آزاد پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس کاصحیح معنوں میں کوئی پلاٹ نہیں ہے اور یہ حد سے زیادہ طویل ہے۔ لیکن یہ اعتراض تو دنیا کے کئی عظیم ناولوںمثلاً ٹالسٹائی کے ’’وار اینڈ پیس‘‘ اور دستووسکی کے ’’برادرز کراموزوف ‘‘ پر بھی واردہوتے ہیں۔ فسانۂ آزاد کی ایک بڑی خوبی اس میں لکھنوی معاشرے کی تہذیبی عکاسی ہے۔ اس کی ٹکسالی اردواور محاوروں کا استعمال سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ اس کا مرکزی خیال سروانتے (Cervantes)کے ہسپانوی ناول’’ دون کی ہوتی ‘‘ (Don Quixote) سے ماخوذ ہے(جس کا تلفظ اردو میں غلط طور پرڈون کوئیکزوٹ کیا جاتا ہے )۔
۲۔ امراو جان ادا (۱۸۹۹ء)
مرزا ہادی رسوا کا ناول امراو جان ادا اردو میں ناول کی صنف کے ایک نئے دور کا نقیب بلکہ ناول کے باقاعدہ آغاز کی علامت ہے۔یہ اردو میں پہلا ناول تھا جس سے معلوم ہوا کہ ناول ہوتا کیا ہے۔ رالف رسل نے لکھا ہے کہ مرزا ہادی رسوا کا ناول امراو جان ادا اردو کا’’ پہلا ‘‘ناول اور’’صحیح معنوں میں ناول ‘‘ ہے۔ گویا وہ اس سے قبل کے ناولوں مثلاً نذیر احمد کے ناول اور دیگر ناولوں کو صحیح معنوں میں ناول نہیں سمجھتے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ امراو کا کردار حقیقی تھا یا ہادی رسوا نے اسے حقیقت بنا کر پیش کیا ،یہ ناول فکشن نویسی کے فن پر ہادی رسوا کے عبور کا ثبوت ہے۔ اس میں انیسویں صدی کے نصف ِ آخر کے لکھنو ٔ کی تہذیب کی شان دار عکاسی کی گئی ہے۔
۳۔گئو دان (۱۹۳۶ء)
منشی پریم چند کا آخری ناول گئو دان ان کا بہترین ناول بھی ہے۔ ہندستانی کسانوں کی قابل ِ رحم حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے پریم چندسرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی ہتھکنڈوں پر فن کارانہ انداز میں احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ پریم چند نے لکھنے کا آغاز اردو سے کیا تھا لیکن اردو ہندی تنازع کے پس منظر میں رفتہ رفتہ وہ ہندی کے حامی ہوتے گئے اور اپنی تخلیقات کواردو میں لکھ کر دیو ناگری رسم الخط میں ڈھالنے لگے تھے۔ بعدازاںوہ ہندی میں لکھتے اور اسے اردو میں ڈھالا جاتا۔
ڈاکٹر مسعود حسین نے ثابت کیا ہے کہ ان کا یہ ناول مکمل طور پر ہندی میں لکھا گیا تھا اوراقبال ورما سحرؔہتگامی نے اسے اردو میں بعد میں ڈھالا ۔اسی لیے مسعود صاحب نے سہ ماہی فکر ونظر (علی گڑھ ) میں لکھا کہ چونکہ گئو دان اولاً ہندی میں لکھا گیا ہے اور اردو میں ترجمہ ہے اورچونکہ تراجم کو اُس زبان کے ادب کا حصہ نہیں مانا جاتا جس میں ترجمہ کیا گیا ہو لہٰذا ’’گئو دان کا اردو ناول نگاری کی تاریخ میں کوئی مقام نہیں ‘‘۔ اس سے ایک تہلکہ مچ گیا۔ تاہم بعض نقاد اسے اردو کے عظیم ناولوں میں شمار کرتے ہیں۔
۴۔آگ کا دریا (۱۹۵۷ء)
قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کا دریا کو اردو کا بہترین ناول کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے اختلاف بھی کیا جاتا ہے لیکن راقم کی ناقص رائے میں آگ کا دریا بلا شبہہ اردو کا عظیم ترین ناول ہے ۔محمد احسن فاروقی کا خیال تھا کہ ورجینیا وولف کے ناول ’’اورلینڈو‘‘ (Orlando)کا مقصد انگلستان کی تاریخ بیان کرنا تھا اور آگ کا دریا میں اسی کا اتباع کیا گیا ہے ۔ دراصل اس ناول میں برعظیم پاک و ہند کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ بیان کی گئی ہے اور اس کا بنیادی خیال ’’وقت ‘‘ہے ۔ اگرچہ اس کے ابتدائی سو ڈیڑھ سو صفحات پڑھنا ذرا مشکل ہے لیکن اس کے بعد یہ ناول قاری کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
۵۔خدا کی بستی(۱۹۵۸ء)
شوکت صدیقی کا ناول خدا کی بستی کسی زمانے میں بہت مقبول تھا۔ اس کے تقریباًپچاس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی اس کے کئی غیر قانونی ایڈیشن شائع ہوئے۔ خدا کی بستی کا ترجمہ تقریباً بیس زبانوں میں ہوچکا ہے۔ شوکت صدیقی نے اپنے مخصوص ترقی پسندانہ نظریات کے تحت اس ناول میں ۱۹۵۰ء کے عشرے کے پاکستانی معاشرے کی عکاسی کی ہے لیکن فنی تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے
پاکستانی معاشرے کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل اس طرح پیش کیے ہیں کہ پڑھنے والے ایک حقیقی تبدیلی کی ضرورت کے قائل ہوجاتے ہیں۔
۶۔ آنگن (۱۹۶۲ء)
خدیجہ مستور کے ناول آنگن میں آنگن دراصل معاشرے کی علامت ہے اور جس طرح گھر کے آنگن میں سب اہل خانہ مل بیٹھتے ہیں اسی طرح معاشرے میںسب مل کر زندگی گزارتے ہیں ۔ آنگن بظاہر گھر کی کہانی ہے لیکن اس میں سماجی ، سیاسی اور معاشی مسائل کی تصویر کشی بھی ہے۔ قیام ِ پاکستان سے قبل ہندوستان کا سیاسی اور معاشی ماحول، انگریز، مسلم لیگ، کانگریس اور جاگیردارانہ ماحول کی خرابیاں بھی فن کارانہ انداز میں اور بالواسطہ پیش کی گئی ہیں۔
اس میں ایک کردار اسرار میاں کا بھی ہے جو اپنی شرافت کے باوجود ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آخر میں اس شریف کردار کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور وہ کہیں غائب ہوجاتا ہے جو علامتی اور اشارتی ہے۔ خدیجہ مستور کا خوب صورت اسلوب اور زبان بھی قابل داد ہے۔
۷۔بستی (۱۹۷۹ء)
انتظار حسین پر ایک بڑا الزام نوسٹلجیا (nostalgia) یعنی ماضی پرستی کا ہے۔ یہی الزام قرۃ العین حیدر پر بھی تھا۔ لیکن معترضین یہ نہیں سمجھتے کہ ان دونوں تخلیقی فن کاروں کا اصل موضوع ہی ماضی تھا اور اسی کی بنیاد پروہ اپنی تحریروں میں جادو جگاتے تھے ۔ ان کے فکشن میں کبھی کبھی خود نوشت سوانح کے رنگ بھی نظر آتے ہیں۔ پھرہجرت دنیا کے عظیم فکشن کا موضوع رہا ہے اورادب کے بعض نوبیل انعام یافتگان کا موضوع بھی ہجرت اور ماضی ہے ۔
اپنے ناول بستی میں انتظار صاحب نے اپنے مخصوص استعاراتی و علامتی انداز میں اپنی خود نوشت اور فکشن کو ملا جلا کر پیش کیا ہے۔ ہندوستان سے ہجرت کے بعد لاہور میں بسنا اور اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے اس نئے ملک میں خوابوں کی تعبیر پانے کی خواہش ہونا،لیکن حقیقت کا بہت مختلف اور تلخ ہونا،یہ صرف انتظار صاحب کا المیہ نہیں تھابلکہ تمام پاکستانیوں کا المیہ ہے ۔ پاکستان خوابوں کی ایک بستی ہے۔لیکن المیۂ مشرقی پاکستان کے بعد اس بستی کے باسی سکون کی تلاش میں ہوا میں معلق ہوگئے اور آج بھی ہیں۔یہی اس بستی کی اصل کہانی ہے۔
۸۔ راجا گدھ (۱۹۸۱ء)
ممکن ہے کہ بانو قدسیہ کے ناول راجا گدھ کو اس فہرست میں شامل کرنے پرکچھ لوگ چیں بہ جبیں ہوں کیونکہ اس کا مرکزی خیال حلال و حرام کے فلسفے پر مبنی ہے۔لیکن پاکستانی معاشرے میں مالی بدعنوانی کی ہوش ربا داستانوں کے آئے دن منظر ِ عام پر آنے کے بعد راجا گدھ کاکم از کم مطالعہ تو کیا جانا چاہیے خواہ آپ اسے بہترین ناول نہ مانیں۔
بانو قدسیہ نے اس میں یہ فلسفہ پیش کیا ہے کہ حرام کھانے کے ذہنی اور جسمانی اثرات ہوتے ہیں اور حرام کھانے والاانسان پاگل ہوجاتا ہے اور اس میں مالی اور جنسی دونوں طرح کا حرام شامل ہے۔ اس ناول میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ خود پسندی انسان کو پاگل کردیتی ہے اور یہ انسانی تہذیب کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اس میں پرندوں کی مدد سے انسانی مسائل تمثیلی انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔
۹۔ کئی چاند تھے سرِ آسماں (۲۰۰۵ء)
شمس الرحمٰن فاروقی کے ناول کئی چاند تھے سر آسماں پر بھی بعض لوگوں کو کئی اعتراضات ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں داغ دہلوی کی والدہ وزیرخانم کی کردار کُشی کی گئی ہے۔وزیر بیگم ناول کا مرکزی کردار ہے جس کی مدد سے کئی صدیوں کی ہندوستانی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس کی خاص بات تاریخی کرداروں مثلاً فریزر، نواب شمس الدین اور مرزا غالب وغیرہ کی پیش کش اور تہذیب و تمدنی عکاسی ہے۔ اس میں مصنف نے خیال رکھا ہے کہ جس زمانے کا ذکر ہورہا ہے اس زمانے کے کردار ویسی ہی اردو بولتے ہوئے نظرآ ئیں۔ ناول کاعنوان احمد مشتاق کے اس شعر سے لیا گیا ہے:
کئی چاند تھے سرِ آسماں جو چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمھاری زلف سیاہ تھی
۱۰۔ دھنی بخش کے بیٹے (۲۰۰۸ء)
حالیہ برسوں میں جو اردو ناول شائع ہوئے ہیں ان میں حسن منظر کا ناول دھنی بخش کے بیٹے موضوع کے لحاظ سے بھی اہم ہے اور اس کا اسلوب بھی قاری کو جکڑے رکھتا ہے۔اس کا موضوع سندھ میں اعلیٰ طبقے کا بنایا ہوا ظالمانہ نظام ہے جو غریبوں کا استحصالِ بے جا کرتا ہے ۔
یہ ظلم صدیوں سے جاری ہے اور جاری رہے گا کیونکہ اس خطے کے باسی خود اپنی تقدیر بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ناول سندھ کے دھنی بخش نامی ایک گائوں سے متعلق ہے ۔ یہی نام ناول کے مرکزی کردار کا بھی ہے جس کے نام پر گائوں آباد ہے۔ اس ناول میں ثانوی طور پر دو تہذیوں یعنی مغربی اور مشرقی تہذیب کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔