• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان کے غلام معاشرے کے سیاسی اور سماجی رجحانات نے نثری ادب میں سب سے زیادہ فکشن میں جگہ پائی۔ ہمارے فکشن نگاروں نے ناولوں اور افسانوں میں صرف سیاسی مسائل ہی کو موضوع نہیں بنایا بلکہ ہندوستان کی سماجی صورت حال، معاشرتی تضادات ، جبر اور حبس کی فضا، طبقاتی تقسیم، جہالت اور ضعیف الاعتقادی کو بھی ا پنی تخلیقات میں بے نقاب کیا۔ پریم چند، کرشن چندر، اختر حسین رائے پوری،عزیز احمد، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، اوپندرناتھ اشک، سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں، اور عصمت چغتائی وہ فکشن نگار ہیں جنہوں نے ہندوستان کے محبوس معاشرے کے پرت در پرت مسائل اور تضادات کو اس طرح اپنی تخلیقات میں جگہ دی کہ یہ پڑھنے والے کے سماجی اور سیاسی شعور کی ترقی کا ذریعہ بنیں، اورانہوں نے استعمار کی مزاحمت کے جذبے کو پختگی بھی فراہم کی۔

برطانوی استعمار سے آزادی کے حوالے سے ادب کا دوسرا اہم موضوع وہ فسادات تھے جو تقسیم کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی شروع ہو گئے۔ بہار، بنگال، پنجاب اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں خونریز فسادات بھڑکنے میں دیر نہیں لگی۔ لیکن جو قیامت پنجاب میں ٹوٹی اس کی ہولناکی کا اندازہ تاریخ نویس آج تک لگانے میں مصروف ہیں۔یہ فسادات اپنی وسعت اور دیر پا اثرات کے نقطۂ نظر سے انتہائی مہلک ثابت ہوئے ۔ہندوستان کے فرقہ ورانہ مسئلے کا سیاسی حل اگر تقسیمِ ہند کی شکل میں نکلنا ناگزیربھی ثابت ہوا تھا تب بھی یہ ہرگز ضروری نہیں تھا کہ اس اقدام کے ساتھ اتنی بڑی تباہی، خونریزی اور انسانی جانوں کا اتلاف بھی ہوتا ۔ 

تقسیم ہند کے نتیجے میں برصغیر نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت دیکھی ۔ایک کروڑ بیس لاکھ انسانوں نے ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے ہندوستان ہجرت کی۔یہ ہجرت لاشوں سے اٹی گاڑیوں اور خون آلود راستوں کے ذریعے ہوئی۔تقسیم ہند نے دس لاکھ انسانوں کو لقمہ ٔاجل بنتے ہوئے دیکھا۔یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر ہندوستان اور پاکستان کے علاقوں کی بروقت حد بندی کر دی جاتی، نقل مکانی کے عمل کو منظم طریقے سے روبہ عمل لایا جاتا، اورامن و امان کو خاطر خواہ طریقے سے کنٹرول کیا جاتا۔

یہ سب کام سیاسی قیادت کی ذمہ داریوں میں بھی شامل تھے لیکن اس کا اصل ذمہ استعماری حکومت کے سر تھا۔برطانوی حکومت اور ہندوستان میں اس کی مشینری جو ہمیشہ اپنے قائم کردہ نظم و نسق کے نظام کا بڑے فخر کے ساتھ ذکر کیا کرتی تھی ،تقسیم ہند کے موقع پر نہ صرف مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی بلکہ صریحاً مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ۔پھر تقسیم کا کام جس عجلت میں اور رواروی کے انداز میں کیا گیا اس نے نہ صرف اس وقت تباہیوں کا سامان فراہم کیا بلکہ مستقبل کے لیے بھی دونوں ملکوں میں معاندانہ تعلقات کی بنیاد رکھ دی۔جس ریڈکلف ایوارڈ نے سرحدوں کا تعین کیا اس کے طرز عمل پر آج تک سوالات اٹھائے جاتے ہیں لیکن ریڈ کلف کی کارکردگی پر شاید سب سے اچھا تبصرہ ایک شاعر ہی نے کیا۔انگریزی کے مشہور شاعر ویٹسن ایچ آڈن کی نظم کا یہ ایک حصہ اُس تکلیف دہ صورت حال پر انتہائی مسکت تبصرے کی حیثیت رکھتا ہے جس سے کہ لارڈ ریڈ کلف ہندوستان کو دوچار کرکے گئے ؎

سات ہفتوں میں جو تقسیم ہوا برصغیر

سرحدیں کھینچی گئیں دیس میں اچھی یا بُری

اور وہ جس نے کہ تقسیم کیا تھا اِس کو

چھوڑ کر نقشِ قدم اپنے گیا انگلستاں

اور وہاں جا کر وہ سب بھول گیا قصۂ ارض

جیسے اک پیشہ ور و شاطر و بد ذہن وکیل

کیا یہ بے نام و نشاں پھر کبھی لوٹے گا یہاں؟

اُس نے خود اپنے کلب میں یہ کہا تھا اک روز

اُس کو مرنا نہیں منظور تو وہ کیوں لوٹے!!

فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا ادب اردو کی ادبی تاریخ کا غیر معمولی اہمیت کا حامل باب ہے۔یہ ادب سرحدوں کے دونوں طرف آگ اور خون کی گرم بازاری،انسانی شرف و وقار کی تاراجی،بستیوں کو مسمارکردیے جانے،انسانوں کے قتلِ عام،خواتین کی آبرو ریزی اور لاکھوں انسانوں کی بے سروسامانی کے واقعات کا ایک ایسا دلخراش آئینہ ہے جس کی ادبی قدروقیمت یوں اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ فسادات کے موضوع پر لکھنے والے بعض تخلیق کاروں نے فنّی نقطۂ نظر سے بھی وہ شاہکار تخلیق کردیے جو اردو ادب کو عالمی ادب کے برابر لے آئے۔سعادت حسن منٹو ،کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی کے افسانے اور فیض اور ن م راشد کی شاعری بلاشبہ اردو ادب کی ایک ایسی دین ہے جو عالمی ادبیات کو سرفراز کرنے کا سبب بنی۔

فسادات کے ادب کا یہ پہلو اور بھی اہم ہے کہ یہ ادب صرف ادب نہیں رہابلکہ تاریخ نویسی کا ایک قابلِ لحاظ ماخذ بھی ثابت ہوا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتنے ہی پیشہ ور تاریخ نویسوں نے، جن میں بیرونی دنیا کی جامعات کے محقق سرفہرست ہیں، فسادات کے ادب کو تقسیمِ ہند سے متعلق اپنی بلند پایہ کتابوں میں مآخذ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ آئن ٹالبوٹ نے Freedom's Cry میں، عائشہ جلال نے Self and Sovereignity میں، وینکٹ دھولیپالا نے Creating a New Medina میں، اور گیل مینالٹ اور سی۔ایم۔نعیم نے فسادات اور اُن سے متصل سیاسی حالات و واقعات کی تاریخ لکھتے ہوئے اپنی مختلف تحریروں میں متعلقہ ادبی تخلیقات کو مآخذ کے طور پر بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے۔

فسادات کے موضوع پر جو شاعری ہوئی اُس میں انفرادی اذیتوں اور کلفتوں نے بھی جگہ پائی اور اجتماعی احساساتِ محرومی و پامالی کا بھی اظہار ہوا۔وامق جونپوری کی تو اس موضوع پر نظمیں بجائے خود ایک مجموعے ’چیخیں‘ کی شکل اختیار کرگئیں۔اس موضوع پر ظہیر کاشمیری،احمد ندیم قاسمی،قتیل شفائی، احمد راہی، ناصر کاظمی،یوسف ظفر،احسن احمد اشک غرض ایسے شعراء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے فسادات کے زمانے کی تلخ یادوں اور انسانیت سوز وارداتوں کو کچھ اس طرح بھرپور طریقے سے اظہار کی زبان دی کہ اپنے مجموعی تأثر میں یہ شاعری ایک تہذیبی المیے کا دلدوز آئینہ بن گئی۔

فسادات کے پس منظر میں لکھا جانے والا فکشن بجا طور پر اردو کا ایک ایسا سرمایہ ہے جو اپنی سچائی،عدم تعصب،انسانی دوستی اور فنی خوبیوں کے باعث ہمیشہ وسیلۂ افتخار بنا رہے گا۔اس سلسلے میں بیسیوں تخلیق کاروں کی کہانیوں کو یاد کیا جاسکتا ہے۔لیکن اختصار کی خاطر صرف چند ہی کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔کرشن چندر نے اپنے افسانوں میں ایک بربریت زدہ ماحول میں انسان کے اندر انسان تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔اُن کے افسانے ’پشاور ایکسپریس‘،’امرتسر آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد‘، ان کا فسادات سے متعلق انسانوں کا مجموعہ ’ہم وحشی ہیں‘، اُن کا ناولٹ’غدار‘،احمد ندیم قاسمی کے افسانے ’میں انسان ہوں‘ ،’نیا فرہاد‘،’جب بادل اُمڈے‘ اور ’پرمیشر سنگھ‘،شوکت صدیقی کے مجموعے’تیسرا آدمی‘میں شامل کہانیاں،قدرت اللہ شہاب کا انسانی ضمیر کو کچوکے دیتا ناولٹ ’یا خدا‘، ہاجرہ مسرور کا افسانہ’امتِ مرحوم‘اور خدیجہ مستور کا ’مینوں لے چلا بابلا‘وہ افسانے اور کہانیاں ہیں جنہوں نے فسادات کے واقعات کو تخلیقی سطح پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا ہے۔اس سلسلے میں کئی مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں جن میں اس ادب کی نمائندہ تخلیقات کو یکجا کردیا گیا ہے۔اس سلسلے میں ممتاز شیریں کی کتاب ’ظلمتِ نیم روز‘ ایک ا چھے انتخاب کی حیثیت رکھتی ہے۔

فسادات کے موضوع پر فکشن کا ذکر سعادت حسن منٹو کے حوالے کے بغیر ختم نہیں ہوسکتا،بلکہ شاید شروع بھی نہیں ہوسکتا۔وہ بلاشبہ ایک ایسے تخلیق کار ہیں جن کی فسادات پر لکھی گئی کہانیاںاپنی تلخی، بے رحم تصویر کشی اور اپنی ناقابلِ تردید سچائی کے سبب انسانی صورت ِ حال کی بہترین عکاس ہیں۔منٹو کی ان کہانیوں میں بالواسطہ طور پر سیاست پر بھی تبصرہ ہے مگر ان کا طرۂ امتیاز ہیجان انگیز حالات اور سفاک واقعات میں گھرے انسان کی نفسیات کی پیشکش ہے۔ 

انہوں نے اپنے افسانوں’ٹھنڈا گوشت‘، ’کھول دو‘، ’موزیل‘ اور ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘میں بے مہر سیاست کے تناظر میں فرد کی جبلتوں اور اس کے اندر جاری صحیح اور غلط کی کشمکش کو اجاگر کیا ہے۔ڈاکٹر انوار احمد نے درست لکھا ہے کہ منٹو نے ’’قتل و غارت ،آتش زنی، لوٹ مار، عصمت دری، مذہبی اشتعال اور حیوانیت کے اس جنگل میں ایک عجیب الائو روشن کیا‘۔ یہ الائو اب اردو ادب کی ایک پہچان بنا رہے گا۔

تازہ ترین