• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر سعید احمد

انگریزی زبان میں رومانٹک یا رومانوی لفظ کا استعمال سب سےپہلے سترہویں صدی عیسوی میں’’ ایچ مور ‘‘نے کیا۔ ادبیات کے سلسلے میں سب سے پہلے اس لفظ کا استعمال 1781ء میں وارٹن اور ہرڈ نے کیا، بعد میں گوئٹے اور شلر وغیرہ نے انیسویں صدی کے آغاز میں شروع کیا۔ دھیرے دھیرے مغربی ادب میں رومانیت نے ایک ادبی تحریک کی صورت اختیار کرلی۔

بنیادی طور پر رومانوی تحریک کا آغاز فرانس سے ہوتا ہے، فرانسیسی ادیب روسو نے اس تعلق سے اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے، مگر جہاں دیکھو پا بہ زنجیر ہے۔‘‘

روسو کے اس جملے سے اس کی انقلابی فکر کا اندازہ ہوتا ہے، وہ اس عہد میں فرد کی آزادی کاپیغام دے کر یہ بتانا چاہتا تھا کہ کلاسیکیت کے زیراثر جومختلف اصول و ضوابط نافذ کردیے گئے ہیں، اس سے انسان کی آزاد خیالی پر بندش لگ گئی ہے۔ انسان آزاد پیدا ہونے کے باوجود سماجی بندشوں میں جکڑا ہوا ہے، ذہن و دماغ پر پابندی کے ساتھ زندگی اور ادب پر بھی پابندی عائد ہوگئی ہے۔ یہ رومانیت، کلاسیکیت کے سخت اصولوں کے خلاف رد عمل تھا۔ فرانسیسی ادب میں رومانیت کا موجد روسو قرار پایا۔

’’فرانسیسی ادب کی تاریخ میں روسو نے رومانیت کی بنیاد ڈالی۔انقلاب فرانس کو یورپ کی تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے ۔ اس انقلاب کی وجہ سے معاشرے میں تبدیلی آئی اور کلاسیکیت کے اصول و ضوابط مانڈ پڑ گئے۔اس انقلاب نے ایک نئے معاشرے کو جنم دیا، کلاسکیت کا ہیرو ، والٹیر تھا، اس نے کلاسیکیت پر زور دیا، لیکن روسو نے اس کے خیالات کو انسانیت کے خلاف بتایا ہے۔

پاکستان کے معروف ادیب و ماہرِ تعلیم جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ،’’ روسو نے کھل کر کلاسکیت کی مخالفت کی ہے ، کیونکہ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ فرد اور اس کی زندگی کا مطالعہ بے حد ضروری ہے، اس لیے اس نے’’ Back To nature‘‘ کا نظریہ پیش کیا ہے ۔

اس دور میں عام آدمی کی زندگی کی عکاسی نہیں کی گئی ،جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کے بہت سے اصول و ضوابط تھے۔ جس کا پابند رہ کر ادیب کے لیے عام آدمی کی زندگی کی ترجمانی ناممکن تھی، لہٰذا اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں رومانیت ایک طرح کے ردِّعمل کے طور پر ظہور پذیر ہوئی، جس نے کلاسیکیت کے ان فرسودہ اور جامد ضوابط کو توڑنے کا کام کیا، جس کا سہرا روسو کے سر جاتا ہے اور انیسویں صدی کےآتے آتے پورے یوروپ میں اس کے اثرات واضح طور پر سامنے آگئے۔ 

روسو اٹھارویں صدی کے آغاز میں پیدا ہوا اور اسی عہد کے دو دیگر عظیم دانشور ان ڈرائیڈن، اور پوپ کے نام بھی انگریزی ادب کی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں گو کہ زمانی اعتبار سے روسو ان دونوں دانشوروں سے پیچھے ہے، تاہم اس کی وجہ سے عام آدمی کی حیثیت اجاگر ہوئی اور ان کے جذبات و احساسات و تصورات ادب میں جگہ پاگئے۔ روسو کے ناول’’ نول ایلوالیس “Novelle Helaise” کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔روسو نے یورپ کے ہر شعبۂ حیات کو متاثر کیا اور اس وقت کے ادیبوں پراس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ بقول اسکاٹ جیمس،’’انقلاب فرانس اور ادبی رومانوی تحریک ایک ہی ذہنی خمیر کی پیداوار تھے۔‘‘

الطاف حسین حالی نے پہلی بار اردو ادب میں مغربی ومشرقی نظریات کا مشترکہ طور پر استفادہ کرنے کی کوشش کی ۔ ’’ٹیگور، اقبال اور ابوالکلام آزاد کی رومانوی انفرادیت نے اس عہد کو ایک نیا ذہن عطا کیا۔اس وقت ہمارے نوجوان جو انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب کی چمک دمک سے مسحور ہورہے تھے یکایک ایشیا کی عظمت اور اپنی شخصیت کی متاع کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے مغرب سے تہذیب کی نئی شمعیں اور شخصیت کا نیا تصور لیا، جذبات اور تخیل کے نئے سانچے لیے اور ان کی روشنی میں ایشیا کی بازیافت کی کوشش کی۔ قیصر و کسریٰ، قیس و لبنیٰ، سلمیٰ و امرؤالقیس کا ایشیا، اس کوشش نے ان کے ذہنوں میں حسن کا ایک نیا احساس بیدار کیا۔ شخصیت اور انفرادیت کا ایک نیا تصور آراستہ کیا ۔

اس عہد کے شعرا اور ادباء نے مغرب کی جمال پرستی اور رومانیت سے غیرمعمولی طور پر استفادہ کیا۔ اردو نثر میں رومانیت کے ابتدائی نقوش شرر، شبلی اور ناصر علی کی تصانیف میں مل جاتے ہیں ، لیکن جس ادیب کے یہاں باقاعدہ طور پر رومانیت کی چھاپ ہے ان میں ایک اہم نام سجاد حیدر یلدرم کا ہے۔اردو میں رومانوی تحریک کی باگ ڈور سنبھالنے میں یلدرم کے معاصرین میں مہدی افادی، سلطان حیدر جوش اور مجنوں گورکھپوری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

بیسویں صدی کے ربع اوّل میں اردو ناول کے لیے ایک نیا رجحان نئی پرانی قدروں کی کشمکش سے وجود میں آیا۔ یہ ایک طرح سے اصلاحی اور معاشرتی ناول کے ردِّ عمل میں آیا۔ اردو ناول پر جمالیاتی اور رومانوی تحریک کے اثرات نمایاں ہیں۔ ان اثرات کے زیراثر بہت سے ناول لکھے گئے، جن میں کرداروں کے نفسیاتی تجزیہ کے ساتھ ساتھ ان کی داخلی اور خارجی زندگی کی کشمکش کو جذباتی اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ان ناولوں میں فرد کے جذبات و تخیلات اور احساسات کا خیال رکھا گیا ہے۔ 

بیسویں صدی کے ابتدائی ناول نگاروں میں ، مرزا محمد سعید کے ناول خواب ہستی، یاسمین، نیاز فتح پوری کے ناول ’شہاب کی سرگزشت، شاعر کا انجام۔ کشن پرشاد کول کے ناول شاما میں رومانوی تحریک کے نظریات کا عکس نمایاں ہے۔ ان ناولوں میں شدید جذباتیت، باغیانہ شعور، آزادی کی خواہش، تخیل پروازی اور فطرت پرستی پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یوسف سرمست نے اس دور کے رومانی ناولوں کے تعلق سے لکھا ہے کہ:

’’اصل میں اس وقت کی دنیا بدلنے کی کوشش ہر ایک اپنے اپنے طور پر کررہا تھا، بعض حقائق کو دیکھ کر ان کو پیش کرکے اس دنیا کو بدلنے کی کوشش کررہے تھے، بعض صرف تخیل اور خیال کے زور پر ایک نئی دنیا کی تعمیر کررہے تھے۔ اصل میں رومانوی تحریک کے اکثر ادیب دوسرے ممالک کے بہتر حالات اور نئے خیالات کو دیکھنے میں ایسے منہمک تھے کہ ان کی نظر اپنے سیاسی اور سماجی حقائق سے بڑی حد تک بیگانہ ہوگئی۔‘‘

اس دور میں حقیقت پسندانہ ناول بھی لکھے گئے اور ناول نگار اپنے پیش روؤں سے کسی حد تک متاثر بھی تھے، راشدالخیری کے علاوہ اس دور میں خواتین ناول نگاروں کی شمولیت ہوئی۔ ان میں صغریٰ ہمایوں ، نظرسجاد حیدر وغیرہ کا نام اہم ہے بہت سے ناول نگاروں نے بیسویں صدی کے ربع اوّل کے بعد بھی نذیر احمد اور راشدالخیری کے زیراثر ناول لکھے، اس عہد میں رومانی ناول لکھنے پر زیادہ توجہ دی گئی۔ علی عباس حسینی کا رومانی ناول سرسید احمد پاشا یا خاف کی پری 1919 میں شائع ہوا۔ اس ناول میں یوسف سرمست کے مطابق رومانیت ملتی ہے لیکن یہ رومانیت نیاز فتح پوری اور کشن پرساد کے ناولوں سے قدرے مختلف ہے۔ 

مرزا محمد سعید کے ناول، خواب ہستی ،((1900اور یاسمین ((1908) میں بھرپور رومانیت پائی جاتی ہے۔ خواب ہستی کا مرکزی کردار ایک رومانی اور آزاد خیال کردار ہے۔ وہ حساس اور جذباتی تعلیم یافتہ نوجوان ہے، جو ہرموضوع پر بحث و مباحثہ پر قدرت رکھتے ہوئے اپنی ایک رائے رکھتا ہے۔وہ حسن پرستی اور جمالیت کا خوگر بھی ہے اور مذہب کے تحت اصولوں اور پابندیوں کا منکر بھی ہے۔ ؎

مرزا محمد سعید کے دونوں ناولوں پر رومانوی تحریک کے اثرات واضح ہیں لیکن ان کے ناولوں میں رومانوی تحریک کی وہ چھاپ نہیں ملتی ہے جو ہم کو کشن پرساد کول اور نیاز فتح پوری کے ناولوں میں دکھائی دیتی ہے۔ اس عہد کے اکثر ناولوں میں سماجی و مذہبی قدروں کے خلاف ایک احتجاجی رویہ پایا جاتا ہے۔ جو بہت دھیمہ ہے اس دور کے ناول نگارفرد کے احساسات و تجربات اور جذبات کو اس کی ذہنی کشمکش اور کرب میں مبتلا کرکے پیش کرتے ہیں۔ ’لیلیٰ کے خطوط‘ اور ’مجنوں کی ڈائری‘ فیاض علی کے ناول ’شمیم‘ اور ’انور‘ کے مطالعہ سے اس تلخ حقیقت کا پتہ چلتا ہے۔ ’مجنوں کی ڈائری‘ میں مجنوں ایک آزاد خیال انسان ہے جو مذہب و سماج کے اصولوں کی پروا نہیں کرتا۔ 

وہ بھی ’شہاب کی سرگزشت‘ ناول کے مرکزی کردار شہاب کی طرح عشق کرنا چاہتا ہے۔ مجنوں کا نظریہ یہ ہے کہ نکاح عشق کو فنا کردیتا ہے۔ یوسف سرمست نے لیلیٰ کے کردار سے مجنوں کو بہتر کردار تسلیم کیا ہے۔ اس کردار کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے حالات کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مذہب، علم، عقل سے سکون حاصل کرنا ناممکن ہے۔ یہی اس کردار کی انفرادیت ہے۔

مجنوں گورکھپوری کے ناول ’’سوگوار شباب ‘‘میں جذبات کی فراوانی بھی ہے اور کلاسیکیت کے توازن اور میانہ روی کے برعکس انتہا پسندی بھی، اس لیے اس ناول کو رومانی ناول کے زمرے میں لایا جاسکتا ہے۔ رومانوی تحریک سے متاثر ہونے والے ناول نگاروں میں فیاض علی اور ل۔ احمد کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ فیاض علی کے دو ناول شمیم 1924 اور انور 1937کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ناول انور کے تعلق سے ناقدین ادب کی رائے ہے کہ، یہ ناول ان تمام تقاضوں کو کسی حد تک پورا کرتا ہے جو ایک رومانوی ناول کی خصوصیت ہے اور فنی نقطۂ نظر سے ان کے ناول’’ شمیم ‘‘سے قدرے بہتر ہے۔ 

لیکن یہ ناول ایسے دور میں لکھا گیا جب ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس ہوچکی تھی۔ فیاض علی کا کمال یہ ہے کہ اس دور میں بھی رومانوی ناول لکھ کر اردو دنیا میں شہرت حاصل کی ہے اور اس ناول کا مرکزی کردار انور غیرمعمولی کردار ہے۔ علاوہ ازیںناول میں دیگر کردار، ممتاز، کشور سلطانہ اور مہ جبیں قاری کے ذہن پر گہرے نقوش ثبت کرتے ہیں۔

تازہ ترین