یوں تو پاکستانی خواتین ہر شعبے میں اپنا لوہا منوارہی ہیں مگر بعض شعبے ایسے ہیں جہاں آج بھی خواتین کی آمد ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تصور کی جاتی ہے۔ پہلے یہ شوق بڑے لوگوں تک محدود تک تھا مگر پروفیشنل بائیکر مرینہ سید نے اس شوق کو خاص سے عام بنادیا ہے۔
انہوں نے معاشرتی روایات کو توڑتے ہوئے ’راؤڈی رائیڈر‘ اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ وہ بڑی مہارت سے بھاری بھرکم ہیوی بائیکس دوڑاتی ہیں اور خصوصی طور پر خواتین کو دو پہیوں کی سواری پر چلنا سکھا رہی ہیں۔
بہادر مرینہ سید کا تعلق کراچی سے ہے اور خطروں سے کھیلنا ان کا شوق ہے۔ وہ ہیوی بائیک پر کرتب دکھاتی ہیں۔
انہوں نےبتایا کہ 2016 میں، میں خود بائیک چلانا سیکھنا چاہتی تھی لیکن بدقسمتی سے مجھے کوئی ایسا پلیٹ فارم یا انسٹیٹیوٹ نہیں ملا جہاں باقاعدہ پیشہ وارانہ ٹریننگ حاصل کرتی، پھر میں نے گھر پر خود ہی بائیک چلانا شروع کی۔ بائیک کےپارٹس کو خود سمجھتی رہی اور چلانے کے دوران میں بہت بار گری بھی لیکن اس عرصے میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔‘‘
مرینہ سید نےلوگوں کے ردعمل کے بارے میں بتایا کہ ’’جب میں نے بائیک چلانا شروع کی تو اس وقت میرے ذہن میں یہ سوالات جنم لیتے رہتے تھے کہ پتہ نہیں لوگ کیا کہیں گے۔ حالانکہ میں پہلے لڑکوں والا گیٹ اپ کرکے باہر نکلتی تھی تاکہ لوگ نہ پہچان پائیں لیکن پھر بھی لوگ پہچان لیتے اور میری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جبکہ کئی لوگ مجھ پر طنز کرتے اور تضحیک آمیز نظروں سے دیکھتے تھے لیکن میں نے ان کی پروا کبھی نہیں کی۔ لوگ یہ بات ہضم ہی نہیں کرسکتے کہ خواتین اتنی مشکلات کے باوجود بھی بائیک چلاسکتی ہیں۔‘‘
مرینہ سید کو 2017 کے آخر میں اکیڈمی کا خیال اس وقت آیا جب وہ لڑکیوں اور خواتین کو بس اسٹاپس میں بسوں یا دیگر گاڑیوں کا انتظار کرتے ہوئے دیکھتی تھی۔ انہوں نےلڑکیوں کی مدد کرنے کیلئے ایک ایسی اکیڈمی کھولنے کا فیصلہ کیا جہاں خواتین کو بائیک چلانے کی پیشہ وارانہ تربیت دی جاسکے تاکہ وہ خود مختار ہوسکیں۔ اس حوالے سےڈیڑھ دو سال تک مسلسل کوششیں کرتی رہیں کہ کوئی اسپانسر شپ مل جائے لیکن نہ مل سکا۔ پھر 2019 میں انہوں نے اپنے بھائی سے مدد لی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’اپریل 2019 میں بھائی کے ساتھ مل کر ایک بائیک اور دو سائیکلز سے اسٹارٹ اپ لیا۔ اب ہمارے پاس تین بائیکز اور 5سائیکلز ہیں۔ 100سے زائد فیمیلز بائیک چلانا سیکھ چکی ہیں اور اس وقت 20 لڑکیاں تربیت حاصل کررہی ہیں۔اکیڈمی میں داخلہ لینے کیلئے فیس بک پیج پر خواتین رابطہ کرتی ہیں۔ اکیڈمی میں ون ٹائم فیس 10000روپے لی جاتی ہے۔‘‘
باہمت پروفیشنل بائیکر مرینہ سید نے بتایا کہ ٹریننگ سینٹر میں روزانہ لڑکیوں کو بائیک چلانا سکھاتی ہوں جبکہ ملازمت پیشہ خواتین کو ویک اینڈ پر ٹریننگ دیتی ہوں۔اکیڈمی میں موٹر سائیکل ، اسکوٹی، سیونٹی چلانا سکھائی جاتی ہیں۔ میں ان کوپہلے بڑے میدان میں ٹریننگ دیتی ہوں پھر ان کو مین روڈز میں روڈ سنیس بتاتی ہوں کہ کیسے بائیک چلانا ہے، کتنی اسپیڈ رکھنی ہے، بریک کب لگانی ہےوغیرہ وغیرہ ۔
انہوں نے کہا کہ اکیڈمی میں جو لڑکیاں ٹریننگ لینے آتی ہیں۔ ان میں سے 20فیصد شوقیہ تربیت لے رہی ہیں جبکہ 80فیصد خواتین ایسی ہیں جن کواس کی اشد ضرورت ہے جو روازنہ پرائیوٹ گاڑیاں افورڈ نہیں کرسکتیں یا بسوں کے دھکے برداشت نہیں کرسکتیں۔
مرینہ سید کے خیال میں پہلے کے مقابلے میں ہمارے معاشرے میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ابتدا میں لوگ مجھے کہتے تھے کہ لڑکی ہو ، بائیک چلاؤ گی، ہاتھ پیر ٹوٹ جائیں گے، کوئی شادی نہیں کرے گا لیکن اب ان کی سوچ بدل چکی ہے۔ اب کسی کا بھائی اپنی بہن کو لیکر آتا ہے، کبھی کوئی انکل اپنی بیگم کو ایڈمیشن کیلئے یہاں آتے ہیں۔ مجھے یہ چینج دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔‘‘
وہ پاکستانی ہدایتکار ابو علیحہ کی آنے والی فلم ’’شنو گئی‘‘ میں مرکزی کردار کرتے ہوئے نظر آئیں گی۔’’ شنو گئی‘‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’ سبز آنکھوں والی لڑکی ‘‘ ہے۔ یہ فلم موٹر وے زیادتی کیس سے متاثر ہوکر بنائی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ’’ میں نے بہت سے لوگوں کو شکوہ کرتے دیکھا ہے۔ اکثر افسوس کرتے ہیں کہ کاش ہم یہ کرتے تو یہ ہوتا، ہم وہ کرتے تو وہ ہوتا اور اس کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ میرے خیال میں اچھے کام کیلئے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہے۔‘‘