یہ تو طے پاگیا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ یہ بھی معلوم چکاہے کہ دھاندلی کیسے ہوئی ہے۔ کیونکہ پچیس کے قریب قومی اسمبلی کی نشستوں پر کئی پولنگ اسٹیشن ایسے ہیں جہاں کل ووٹوں کی تعداد ایک ہزار تھی، ڈالے جانے والے ووٹ کی تعداد پندرہ سو نکلی اورعمران خان نے صرف انہی حلقوں میں دوبارہ گنتی کیلئے کہا ہے ۔یہ وہ حلقے ہیں جہاں جعلی ووٹ ڈالنے والوں کوجعل سازی کرنا بھی نہیں آسکی تھی۔یہ اسی طرح کا عمل ہے جیسے کسی طالب علم کے پاس کمرئہ امتحان نقل پہنچے اور اس پر لکھا ہوا ہوکہ اس سوال کا جواب یہاں سے شروع کرناہے اورنقل کرتے ہوئے وہ جملہ بھی پرچے میں درج کردے ۔ مگرسوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پچیس کے قریب حلقوں میں ایسا ہوا ہے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ باقی حلقوں میں شفاف انتخابات ہوئے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ باقی حلقوں میں نقل مارنے والے سیاسی طالب علم اپنے کام میں پوری مہارت رکھتے تھے۔ یہ جو زائد ووٹ ڈالے گئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے یہ کہاں سے آئے یقیناً کسی پرنٹنگ پریس میں چھپائے گئے ہوں گے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جعلی بیلٹ پیپر اسی پریس سے شائع ہوئے ہیں جہاں سے جعلی بیلٹ پیپر پرنٹ ہو کر افغانستان جایا کرتے ہیں ۔جس پر افغان الیکشن کمیشن نے باقاعدہ احتجاج بھی کیا تھا۔انتخابات سے کئی دن پہلے یہ جعلی بیلٹ پیپر پورے ملک میں کرنسی کی طرح گردش کرتے پھرتے تھے ۔لاہورکے جنرل پوسٹ آفس سے بڑی تعداد میں جعلی بیلٹ پیپر کے چار پارسل پکڑے گئے۔ چیف پوسٹ ماسٹر لاہورارم طاہرنے نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈی ایم او آفس ریلوے اسٹیشن پر ایک نامعلوم شخص نے چار تھیلے بک کرائے تھے، شبہ ہونے پر عملے نے پارسل کھولے تو ہزاروں کی تعداد میں جعلی بیلٹ پیپر برآمد ہوئے۔ چیف پوسٹ ماسٹرنے کہا کہ انہوں نے اس حوالے سے کارروائی کے لئے تمام جعلی بیلٹ پیپر ریٹرننگ آفیسر کو بھجوا دیئے ہیں۔ 4 مئی کوپختون خوا کے ضلع دیر لوئیرمیں بڑی مقدار میں جعلی بیلٹ پیپر پکڑے گئے ملزمان کوپولیس نے گرفتار کر لیامگر بعد میں ملزمان کو رہا کر دیا گیا اور دیر لوئیر کے پولیس سربراہ نے کہا کہ بیلٹ پیپر دراصل عورتوں کو سمجھانے کیلئے بنائے گئے تھے کہ انہوں نے ووٹ کا استعمال کس طرح کرنا ہے ۔ڈی آئی جی مالاکنڈ کے مطابق ان کی تعداد نوے ہزار تھی۔9 مئی کوسندھ رینجرز نے شہر قائد کی مچھر کالونی میں چھاپہ مار کر جعلی بیلٹ پیپر برآمد کئے ۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق خفیہ اطلاع ملی تھی کہ مچھر کالونی میں واقع ایک مکان میں جعلی بیلٹ پیپر تیار کر لئے گئے ہیں اور نامعلوم مقام پر ترسیل ہونے کو ہیں۔ حکام کے مطابق تفتیش شروع کردی گئی ہے کہ کس نے اور کیوں بیلٹ پیپرتیار کئے جبکہ کسی گرفتاری کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
9مئی کورینجرز نے خیر پور بائی پاس پرکار سے بیلٹ پیپرز بر آمد کر کے دو افراد کوگرفتار کر لیا ہے۔ جیو نیوز کے مطابق رینجر ز نے ایک مشکوک کارکو روک کر تلاشی لی تو اس سے پی ایس 76کے425اور این اے 233کے 35بیلٹ پیپر بر آمد ہوئے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیلٹ پیپر کسی پرنٹنگ پریس میں نہیں چھپائے گئے یہ وہی بیلٹ پیپر ہیں جو الیکشن کمیشن نے 18 کروڑ کی تعداد میں چھپوائے تھے ۔ کیا پاکستان میں 18کروڑ ووٹر ہیں ۔ اگر نہیں ہیں تو الیکشن کمیشن نے ایسا کیوں کیا تھا۔پھر الیکشن کمیشن کے پاس ان 18کروڑ بیلٹ پیپرز کا حساب ہونا چاہئے کہ کہاں کتنا ووٹ تھا اور کتنا بیلٹ پیپر بھیجا گیا ۔اگر ایک حلقے کے ووٹرز کی کل تعداد دو لاکھ ہے اور الیکشن کمیشن وہاں تین لاکھ بیلٹ پیپر بھیج رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ دھاندلی امیدواروں کی انفرادی دھاندلی نہیں کسی اوراجتماعی پلاننگ کا حصہ ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ ان جعلی بیلٹ پیپر زکا استعمال کیسے کیا گیا۔ اخباری خبر کے ضلع کوہاٹ کی تحصیل کرک میں پریزائیڈنگ آفیسر احمدگل، اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر عبدالرحمن اور پولنگ آفیسر سحردادکو جعلی بیلٹ پیپر اصل بیلٹ پیپرزکے ساتھ ملا کر ووٹرز میں تقسیم کرنے پر چھاپہ مارکر رنگے ہاتھوں گرفتارکر لیا ہے۔ پشاور میں پولیس نے دوران پولنگ ایک امیدوارکے بیلٹ پیپر پر مہریں لگانے والے اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر نثار خان کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا۔چمکنی پشاورمیں خواتین کے پولنگ اسٹیشن سے بیلٹ پیپرزکی ایک کاپی غائب ہوگئی،خاتون پریزائیڈنگ افسر نے بتایا کہ ایک کاپی میں 100ووٹ ہوتے ہیں،کاپی نمبر733غائب ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق ارمڑ میں خواتین پولنگ اسٹیشن سے بیلٹ پیپر اور مہریں پولنگ بوتھ سے باہر لا کر ووٹ ڈالے جارہے ہیں ایبٹ آبادکے حلقہ پی کے47 میں دو پولنگ اسٹیشن نمبر 84 اور 129 میں بیلٹ پیپرزکی دو بکس بھی چوری ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔پی پی170سانگلہ ہل کے پولنگ اسٹیشن نمبر 53 پر قائم لیڈیز پولنگ کی پریزائیڈنگ آفیسر شاہدہ نواز خود اپنے ہاتھوں سے جعلی ووٹ ڈالتے پکڑی گئی۔ریٹرننگ آفیسر محمد شبیرحسین نے موقع پر پہنچ کر پولیس کے ہمراہ صورتحال پر قابو پایا اور پریذائیڈنگ آفیسر شاہدہ نوازکو فوری طور پر تبدیل کردیا۔سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس119سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اور سندھ کے سیکریٹری اطلاعات علی اکبر گجر کو رینجرز نے گرفتارکرلیا۔ پاکستان رینجرز سندھ ذرائع کا کہنا ہے کہ علی اکبرگجر سے جعلی بیلٹ پیپر برآمد ہوئے ہیں۔کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاوٴن میں جعلی ووٹ ڈالنے کی کوشش میں ایک خاتون کوگرفتارکرلیا گیا۔ کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی نمبر4 میں رینجرز نے چھاپہ مارکر3 افرادکو بیلٹ پیپرز اور اسلحہ سمیت گرفتار کرلیا۔ حراست میں لئے گئے افراد سے بیلٹ پیپر اور اسلحہ برآمد کیا ہے۔ایسے بہت سے واقعات سے پچھلے کچھ دنوں کے اخبارات بھرے پڑے ہیں ۔یعنی دھاندلی اجتماعی سطح پر بھی ہوئی ہے اور انفرادی سطح پر بھی۔ یعنی وہی ہوا ہے کہ کرپٹ نظام کی مدد سے کرپٹ لوگوں نے انتخابات میں بھرپور کرپشن کی ہے اور ایک بار پھر فرشتوں کی مدد سے آدمیوں کا حق چرا لیا گیا ہے۔ایک اور کرپٹ قومی اسمبلی ۔زندہ باد۔