بجا کہ کہانیاں کسی اور دنیا سے ہمارے پاس نہیں آتیں، ہمارے آس پاس ہی ہوتی ہیں، ان کہانیوں کے فکشن بننے کے درمیان اگر کچھ حائل ہوتا ہے تووہ کوئی اور نہیں ہم خود ہوتے ہیں۔ ہم بھی اور ہماری زبان بھی۔۔۔ اور ہاں اگر انہیں کوئی بدل کر فکشن بنا دیتا ہے تو وہ بھی ہم ہوتے ہیں۔ جی ہم اور ہماری زبان بھی۔ یہاں ہم سے مراد وہ تخلیق کار ہیں جو یہاں وہاں موجود کہانیوں میں سے کوئی کہانی اپنے نام کرلیتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تخلیق کار کسی اور دنیا کے باسی نہیں ہوتے، ہماری اپنی دنیا کے ہوتے ہیں۔ یہ میں بھی ہو سکتا ہوں اور آپ بھی۔ مگر یاد رہے میں آپ نہیں ہو سکتا نہ آپ میں۔ یہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے کہ جب ہم سے دوسرے منہا ہو جائیں تو ہمارا وجود اور ہماری شخصیت تشکیل پاتی ہے۔اگر ایسا ہے، اور یقینا ایسا ہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کہانی جو آپ کے پاس آئے اور آپ کے وجود کے اندر اتر کر کاغذ پر اپنا وجود پائے وہ میرے وجود سے ہو کر کاغذ پر اترتے ہوئے عین مین ویسی رہے جیسی آپ کے قلم کا کرشمہ ہوئی۔ اسے ہر حال میں مختلف ہونا ہوتا ہے اور اگر مختلف نہیں ہوتی تو یقین جانیے کہیں نہ کہیں معاملہ گڑبڑ ہے۔
اچھا، اس سارے عمل کو ایک اور رُخ سے دیکھتے ہیں اور اس ہو چکی بات کو کچھ نکات کی صورت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلے نکتے کے سامنے میں نے ’’مشاہدہ‘‘ لکھ لیا اور اس کے دو ذیلی نکات ’’الف‘‘ اور ’’ب‘‘ بنالیے ہیں۔
ہنا یہ ہے کہ’’مشاہدہ الف‘‘ محض دیکھنے کا عمل نہیں ہے آپ اور میں ایک وجود ہو کر نہیں دیکھ سکتے کہ یہ ہماری وجودی مجبوری ہے۔ ہم پہلو بہ پہلو کھڑے ہو کر دیکھیں گے یا آپ بیٹھ جائیں گے اور میں آپ کے عقب میں کھڑا ہو کر دیکھ لوں گا دونوں صورتوں میں نظر کا زاویہ بدل جائے گا۔ ایسے میں دیکھے جانے والے منظر کی جو تصویریں میرے ذہن کے البم میں محفوظ ہوں گی،ان کی کچھ لکیریں اور رنگ ان تصویروں سے مختلف ہوتے چلے جائیں گے جو آپ کے ذہن کے البم کا حصہ بن پائیں۔
’’مشاہدہ ب‘‘ کی ذیل میں کہنا ہے کہ ہماری آنکھ محض کیمرہ نہیں ہے کہ کھٹ کھٹ بس تصویریں بناتی چلی جائے۔ یہ دیکھے جانے والے منظر سے ایک تعلق قائم کرتی ہے،اس لیے کہ یہ آنکھ زندہ انسانی وجود کی ہے۔جی،زندہ انسانی وجود کی، جو ایک حسیاتی نظام رکھتا ہے۔
تاہم کچھ کے ہاں یہ حسیاتی نظام اتنا فعال ہوتا ہے کہ معمولی سے معمولی لرزش پر بھی ردعمل ظاہر کرتا ہے اور کچھ کے ہاں قدرے کم فعال کہ بہت سی کروٹوں کو دیکھ کران دیکھا کر دیتا ہے۔ ایک منظر پر کوئی آنکھ جھٹ گیلی ہو جائے گی اور کوئی بٹر بٹر دیکھتا چلا جائے گا۔ لکھنے والوں کے ہاں یہ حسیاتی نظام بہت فعال سہی مگر ہر ایک کے ہاں یہ فعالیت بھی ایک سی نہیں ہوتی یوں مشاہدے میں جو تیسری جہت یا گہرائی پیدا ہوتی ہے وہ ہر ایک کے ہاں مختلف ہو جاتی ہے۔
مشاہدے کے بعدزبان کی طرف آتے ہیں کہ جوکہانی مشاہدے کے وسیلے سے آئی، اسے لکھنے والے نے اپنی زبان میں لکھنا ہوتا ہے۔ کہانی کا ہر منظر تصویروں کے ایک سلسلے کی صورت آپ کے ذہن میں محفوظ تھا اور میرے ذہن میں بھی۔ اور ہم یہ اخذ کر چکے تھے کہ دونوں کے پاس کہانی ایک ہو کر بھی ان تصویروں میں مختلف ہوتی چلی گئی تھی۔لیجئے میری اور آپ کی زبان اسے اور بھی مختلف کرنے جا رہی ہے۔ میرا اور آپ کا ذخیرہ الفاظ ایک سا نہیں ہے۔میرا اور آپ کا لہجہ مختلف ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کا انداز جداگانہ ہے۔ پھر ہمیں یہ اختیار بھی ہے کہ جملے کی ساخت بدل بدل کر ایک ہی بات کو بیان کرنے کا انداز بدل لیں۔
گویا اُن تصویروں کو جو ہمارے ذہن میں ہوتی ہیں ہر بار ایک ترتیب میں کاغذ پر نہیں اتارتے۔ پھر انسانی ذہن کی کارکردگی ہر صورت میں ایک سی نہیں رہے گی کہ لکھتے ہوئے کچھ تصویریں آپ کے ہاں طاق نسیاں پر دھری رہ جائیں گی اور کچھ میرے ہاں۔ ہم دونوں کے ہاں کچھ تصویریں زیادہ روشن ہو کر فن پارے میں متن ہوں گی اور کچھ کے رنگ پھیکے رہ جائیں گے اور ہم دونوں کے ہاں اس کا انتخاب اپنا اپنا ہوگا۔ گویا ہرتخلیق کار کو زبان اور کہانی سے تخلیقی سطح پر معاملہ کرتے ہوئے اپنی انفرادیت کے ہالے ہی میں رہنا ہوتا ہے۔
ایک اور نکتہ ہے: اسلوب۔ اس کا چرچا آپ نے سنا ہوگا تو یہ جان لیجئے کہ بن بن کر لکھنے اور بنابنا کر لکھنے سے اسلوب نہیں بنتا یہ تو شخصیت کی تخلیقی تظہیر کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسلوب ایک الگ موضوع ہے اور طویل گفتگو کا متقاضی۔ میں اپنی بات مختصر کرنے کا حیلہ کرتے ہوئے روایت پر ایک آدھ بات کرنا چاہوں گا کہ یہ اصطلاح ہمارے موضوع کو سمجھنے میں مدد گار ہو سکتی ہے۔ روایت سے مراد روایتی ہونا نہیں ہے۔بلکہ اس باب میں ہو چکے اس تخلیقی تجربے سے اکتساب ہے جو تہہ در تہہ اسی روایت میں موجود ہوتا ہے۔
روایت کی بابت بات کرتے ہوئے ذہن میں فکشن لکھے جانے کے وہ جدید اور جدید تر تجربات بھی ہیں جو روایت سے انحراف کے دعوے کے ساتھ وجود میں آتے ہیں گویا جب ہم افسانہ لکھنے کا ارادہ باندھتے ہیں تومنظراورپس منظر، گزر چکے اور گزر رہے ہر تخلیقی تجربے کا اثر قبول کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک کھرے، سچے اور جینیوین تخلیق کار کے ہاں یہ تجربات عین مین ویسے ظاہر نہیں ہوتے جیسا کہ اس نے ان سے اکتساب کیا ہوتا ہے وہ اس کے ہاں وہ کھاد ہوجاتے ہیں جسے زمین میں دبا کرکچھ وقت کے لیے یوں چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے اسے بھول ہی گئے ہوں۔
یہی انحراف دراصل انفرادیت کا وہ بیج ہے جوتخلیقی زمین میں بیخچہ اور راس جنین کی صورت نمو پاتے ہی ایک اسلوب میں ڈھلنے لگتا ہے۔ لیجئے انفرادیت کا ایک اور زینہ طے ہوا۔ یہ زینے یہاں ختم نہیں ہوتے۔جوں جوں آپ آگے بڑھتے جائیں گے مختلف ہوتے چلے جائیں گے اور آخر کار آپ کی اپنی تخلیقی شخصیت اپنی پوری قامت کے ساتھ ظاہر ہو جائے گی۔
شاعروں اور افسانہ نگاروں پر یہ جو دیوانگی کی پھبتی کسی جاتی ہے یا انہیں اپنی سماجی تشکیل سے ہٹ کر چلنے والے اور’خبط عظمت‘ میں مبتلا اشخاص کے طعنوں اور مہنوں کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ ان کا تخلیقی عمل سماجی تشکیل کا پابند نہیں ہوتا اسے توڑنے، پیسنے، گوندھنے اور اپنے تخلیقی وجود کے چاک پر ایک اچھوتی صورت میں ڈھال لینے کا پابند ہوتا ہے۔ یہ پابندی ہی تخلیقی عمل کی آزادی ہے۔