• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)سیاسی محاذ پر ناکامیوں کے بعد تیزی سے تنزلی کی جانب رواں دکھائی دے رہی ہے لیکن ان ناکامیوں اور سیاست پر کمزور ہوتی گرفت کے جو اثرات شریف خاندان پر پڑے ناقابلِ بیان ہیں۔میاں نواز شریف نے اپنے ایک تازہ ویڈیو پیغام میں متنبہ کیا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں نیب کو مریم نواز کو طلب کرنے کا کوئی حق نہیں، وہ نیب کے اس اقدام کو ایک چیلنج سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے لیگی کارکنوں کو بھرپور طریقے سے مزاحمت کرنے کی بھی ہدایت کی۔ میاں صاحب نے یہ الزام تو بڑے دھڑلے سے لگا دیا کہ لوگ قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں لیکن وہ یہ ذکر کرنا بھول گئے کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کتنے کمائے؟

ایسا عمومی طورپر تب دیکھنے کو ملتا ہے جب کسی کی ساکھ تیزی سے گر رہی ہو ، موجودہ حالات بلاشبہ اسی صورتحال کی غماری کررہے ہیں۔11 جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کی تشکیل کا بنیادی مقصد وزیراعظم عمران خان کو ایوانوں سے بے دخل کرنا تھا۔ اس ابتدائی نکتے پر اس وقت اختلافات کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئے جن کا تعلق حکمت عملی اور اصل مقصد دونوں کے ساتھ جڑا تھا۔ اگرچہ پیپلزپارٹی بھی حکومت کے خاتمے کے حق میں تھی تاکہ اپنے قائدین کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات میں ریلیف حاصل کر سکے لیکن میاں صاحب نے انتہائی غیرسنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی حکومت کے خاتمے اور موجودہ حالات کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے کر اتحاد کے بنیادی مقاصد کا رخ کسی اور جانب موڑ دیا۔یہی وہ حالات تھے جب سب کو معلوم ہو گیا کہ یہاں تو معاملہ فرد واحد کو فائدہ دینے کا ہے۔

ان حالات میں پیپلزپارٹی نے کسی کا مہرہ بننے کی بجائے الگ حکمت عملی اپنانے کو ترجیح دی۔ پیپلزپارٹی نے مقتدر حلقوں سے سیاسی فوائد کے حصول اور بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کے لئے محاذ آرائی سے گریز کیا۔ اس کے ساتھ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کی سیاسی تحریک کی خاطر سندھ حکومت کی قربانی دینے سے بھی انکار کیا اور جمہوری روایات کے مطابق حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر رہ کر کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔پیپلزپارٹی کی قیادت نے پی ڈی ایم کی طرف سے لانگ مارچ سے پہلے ن لیگ کی اسمبلیوں میں استعفے جمع کروانے کی تجویز کا حصہ بننے سے بھی انکار کر دیا جس کے بعد اس اتحاد کو بڑا سیاسی دھچکا لگا اور پھر عوامی خدمت کی دعویدار پارٹیوں کے رہنمائوں کو ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائد کرتے سب نے دیکھا اور سنا۔دو جماعتوں کی لفظی جنگ نے اس اتحاد کو ایک مردہ گھوڑا بنا کر رکھ دیا۔

پیپلزپارٹی کے اس اتحاد سے جزوی طورپر نکل جانے کے بعد اب سیاسی جنگ ن لیگ اور حکومت کے درمیان جاری رہے گی جس میں مولانا فضل الرحمن محض ایک سہولت کار کے طورپر دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں میں مدارس کے طلباء کو استعمال کریں گے ۔ پی ڈی ایم میں شامل دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے الگ الگ موقف اپنا لیا ہے۔ پیپلزپارٹی کا موقف بڑا واضح ہے کہ نواز شریف وطن واپس آ کر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا حصہ بنیں۔ اگرچہ پیپلزپارٹی باضابطہ طورپر پی ڈی ایم سے الگ نہیں ہوئی لیکن سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی کے معاملے پر ایک نئی لڑائی نے جنم لیا ہے جس نے دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان سیاسی خلیج مزید وسیع کردی ہے۔بلاشبہ حکومت اس کا فائدہ اٹھائے گی۔

ان حالات میں پیپلزپارٹی کے لئے تو کوئی امید کی کرن پیدا ہو سکتی ہے، ن لیگ اور دیگر اتحادی جماعتیں بند گلی میں داخل ہو چکی ہیں۔ نیب نے بھی شریف خاندان کی منفی سرگرمیوں پر سخت ایکشن لینے اور اپنے اختیارات کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس امر کا بھی قوی امکان ہے کہ مریم نواز شریف ایک بار پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلی جائیں۔ مریم نواز ایک مجرم ہیں جنہوں نے ہسپتال میں زیرعلاج والد کی تیمارداری کے لئے عدالتوں سے عارضی ضمانت حاصل کی تھی۔ بعدازاں میاں صاحب مختلف حیلوں بہانوں سے بیرون ملک روانہ ہو گئے اور مقدمات کا سامنا نہ کرنے کی پاداش میں عدالتوں نے انہیں مفرور بھی قرار دے دیا ۔ لہٰذا ان کی ضمانت پر پوچھ گچھ نہ کرنے کا کوئی عقلی استدلال نہیں ہے۔ان حالات میں دو چیزوں کا رونما ہونا بعیدازقیاس نہیں۔ مریم نواز سیاسی آزادی سے محروم ہو سکتی ہیں اور نتیجتاً پارٹی کی قیادت حمزہ شہباز کو منتقل ہو سکتی ہے۔ یقیناً یہ ن لیگ میں نواز شریف دھڑے کے لئے بہت بڑا دھچکا ہوگا کیونکہ میاں شہباز شریف اور ان کے ہم خیال ساتھیوں کو محاذ آرائی کی سیاست سے کبھی اتفاق نہیں رہا۔چنانچہ بڑھتی ہوئی مایوسی کے پیش نظر آنے والے دن بڑے میاں صاحب کے لئے اذیت ناک ثابت ہو سکتے ہیں اور ان کی پارٹی پر گرفت کو کمزور کر سکتے ہیں۔

(صاحب تحریر وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین