• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف 2030ء میں پانچویں نمبر پر صنفی امتیاز کے خاتمے کا ہدف شامل ہے۔ 2030ء آنے میں اب ایک دہائی سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، تاہم بدقسمتی سے صنفی مساوات سے متعلق جاری ہونے والی رپورٹ برائے سال 2021ء ، پائیدار ترقی کے ہدف نمبر پانچ پر پیشرفت کے حوالے سے مایوس کن تصویر پیش کرتی ہے۔

کورونا وائرس وَبائی مرض نے صورتِ حال کو مزید خراب کردیا ہے۔ رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ، وبائی مرض نے ناصرف کام کرنے والی خواتین کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ہم اپنے مستقبل کے لیے مزید مسائل بھی پیدا کررہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران صنفی مساوات کے حوالے سے جو تھوڑی بہت بہتری دیکھی گئی تھی، وبائی مرض نے اس بہتری کو ضائع کردیا ہے۔ اگر ہم اس صورتِ حال سے سیکھتے ہوئے کچھ عمل کرنا چاہتے ہیں تو وہ وقت آج ہے۔

ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے

ہم جانتے ہیں کہ کورونا وائرس وبائی مرض نے خواتین کی پیشہ ورانہ زندگی پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین ایسی صنعتوں میں کام کرتی ہیں، جو اس وبائی مرض سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں، جیسے مہمان نوازی اور سیاحت کی صنعت۔

مزید برآں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب صنعتوں نے اپنی افرادی قوت سے گھروں سے کام لینا شروع کیا تو وہاں روایتی صنف یعنی مرد حضرات کو فوقیت دی گئی۔ تعلیمی اور ڈے کیئر اداروں کی بندش نے خواتین کے لیے کام جاری رکھنا مزید اس لیے مشکل بنا دیا کیوں کہ بچوں کی ریمورٹ ایجوکیشن اور دیکھ بھال کی ذمہ داری خواتین پر بڑھ گئی ہے۔ گھر پر خواتین کے بچوں کو زیادہ وقت دینے کے باعث، انھوں نے اپنے کام کو اتنا ہی کم وقت دینے کا فیصلہ کیا۔ 

لنکڈ اِن کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وبائی مرض کے دوران، خواتین کی جانب سے نوکریوں کی نئی پیش کشیں قبول کرنے اور نئی نوکریوں کے لیے درخواست دینے کی شرح میں قابلِ ذکر کمی آئی ہے۔ یہ ایک ایسا اشاریہ ہے، جس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ آتی ہے کہ وبائی مرض نے خواتین کے کیریئر کو کس طرح متاثر کیا ہے۔

اعدادوشمار سے مزید یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وبائی مرض کے باعث گزشتہ ایک سال کے دوران، لیڈرشپ پوزیشنوں پر بھی خواتین کے تقرر کے رجحان میں کمی دیکھی گئی ہے۔ اس صورتِ حال نے گزشتہ سال سے پیشتر کے دو برسوں کی ساری پیشرفت کو ضائع کردیا، جن میں پروفیشنل سروسز، ریٹیل، تعلیم اور سیروتفریح کی صنعتیں شامل ہیں۔

آج کے فیصلے مستقبل کا تعین کریں گے

اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شعبہ جات، جنھیں مستقبل کی صنعتیں کہا جاتا ہے اور ان میں تیزی سے نمو ہورہی ہے، وہاں صنفی امتیاز اور فرق کو ختم کرنے کے لیے تقریباً کوئی بھی عملی اقدامات نہیں لیے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر، کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے شعبہ میں خواتین افرادی قوت کی شرح صرف 14.2فی صد ہے، جوکہ 2018ء کے مقابلے میں محض اعشاریہ دو فی صد زیادہ ہے۔ 

کمپنیوں کو ناصرف اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ صنفی مساوات کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین اور مردوں کو یکساں مواقع فراہم کریں ، بلکہ خصوصی طور پر کلاؤڈ کمپیوٹنگ، انجینئرنگ، ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کی صنعتوں میں خواتین کو مواقع فراہم کرنے کی حوصلہ افزائی کریں کیوں کہ یہ وہ صنعتیں ہیں جو ہمارے مستقبل کا تعین کریں گی۔

وبائی مرض کا ایک اثر یہ دیکھا گیا ہے کہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں ڈیجیٹائزیشن اور ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ ہمیں انسانی تاریخ کے اس اہم موڑ پر خواتین کا کردار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ خواتین اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ ہمارا مستقبل کن خطوط پر استوار ہورہا ہے اور ہمارے آج کا ہمارے آنے والے کل پر کیا اثر ہوگا۔

زیادہ مساوات پسند مستقبل تشکیل دینا

اس وقت جب ہم وبائی مرض سے نمٹنے اور اس سے پیدا ہوانے والی صورتحال سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں، یہی وقت ہے کہ کاروباری ادارے افرادی قوت کی خدمات حاصل کرنے کے رجحان میں مداخلت کرتے ہوئے صنفی مساوات کی طرف پیشرفت کریں، کیونکہ اگر اس وقت صورتِ حال کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو مستقبل میں اسے درست کرنا اور بھی مشکل بن جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیگر اقدامات کے ساتھ کاروباری اداروں کو اس ماحول اور رجحان کو بھی بدلنا ہوگا، جس کے زیرِ اثر افرادی قوت کی خدمات حاصل کی جاتی اور انھیں تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

کاروباری اداروں کو یہ بات بھی مدِنظر رکھنی ہوگی کہ، کاروباری دنیا میں صنفی فرق کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے اور اس فرق کو بڑھنے سے روکنے اور کم کرنے کے لیے، انھیں اپنے اداروں کو خواتین کے کام کرنے کے لیے موزوں بنانا ہوگا اور انھیں تحفظ کا احساس دِلانے والا ماحول فراہم کرنا ہوگا۔

اس سلسلے میں تعلیمی قابلیتوں کے بجائے ، کاروباری اداروں کو شخصی صلاحیتوں کو جانچنا ہوگا اور باصلاحیت خواتین کو کام کے مواقع فراہم کرکے ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے انھیں تربیت فراہم کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں کچھ خواتین کو ری-اِسکلنگ اور کچھ کو اَپ-اسکلنگ کی ضرورت ہوگی۔

رپورٹ کے تیاری کے بنیادی معیارات

عالمی صنفی مساوات رپورٹ2021میں چار شعبہ جات (معاشی سرگرمیوں میں شراکت داری اور حاصل مواقع، تعلیم کا حصول، صحت اور بقاء، اور سیاسی خود مختاری) میں صنفی امتیاز کو جانچا اور ایک سال کے دوران اس میں ہونے والی پیش قدمی کو ناپا جاتا ہے۔

اس سال صنفی مساوات رپورٹ میں 156ملکوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انڈیکس کی تیاری کا طریقہ کار 2006ء سے تقریباً مستحکم رہا ہے، جب پہلی بار یہ رپورٹ جاری کی گئی تھی۔ صنفی مساوات انڈیکس کو 0سے 100تک کے پیمانہ پر جانچا جاتا ہے اور اسکور کو پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ، جس شعبہ میں جتنا زیادہ اسکور ہوگا، صنفی فرق اتنا ہی کم ہوگا۔ 

مثال کے طور پر اس سال صنفی مساوات کا مجموعی انڈیکس 68%ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جانچے گئے شعبہ جات میں مجموعی طور پر 68%صنفی مساوات حاصل کرلی گئی ہے، تاہم کووِڈ-19وَبائی مرض کے باعث گزشتہ سال کے مقابلے میں اس انڈیکس میں منفی 0.6%کی تبدیلی دیکھی گئی۔ اس کی بڑی وجہ بڑے ملکوں کی کارکردگی میں تنزلی ہے۔

صنفی مساوات پر جس رفتار سے پیش قدمی ہورہی ہے، اگر یہی رفتار برقرار رہی تو 100 فی صد صنفی مساوات حاصل کرنے کے لیے 135.6سال درکار ہوں گے۔

 سب سے کم صنفی مساوات سیاسی خودمختاری کے شعبہ میں حاصل ہوسکی ہے، جہاں آج تک یہ فرق محض 22%ختم کیا جاسکا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس شعبہ میں 2.4%کی پسپائی دیکھی گئی ہے۔ زیرِ جائزہ 156ملکوں کی 35ہزار 500پارلیمانی نشستوں میں سے صرف 26.1%نشستوں پر خواتین براجمان ہیں، جب کہ مجموعی طور پر 3,400 وزارتوں میں سے صرف 22.6%وزارتیں خواتین کے پاس ہیں۔ 156ملکوں میں سے 81ممالک ایسے ہیں جہاں 15جنوری 2021ء تک ایک بھی خاتون سربراہِ مملکت نہیں بن سکی۔ ورلڈ اکنامک فورم کا اندازہ ہے کہ موجودہ رفتار پر سیاسی خودمختاری کے شعبہ میں صنفی مساوات حاصل کرنے کے لیے 145.5سال درکار ہوں گے۔

رپورٹ کے مطابق، مسلسل 12ویں سال، آئرلینڈ نے سب سے زیادہ صنفی مساوات رکھنے والے ملک کا اعزاز برقرار رکھا ہے۔

تازہ ترین