پاکستان کرکٹ بورڈ نے مکی آرتھر کو کوچنگ سے ہٹا کر جب مصباح الحق کو پیرا شوٹ کے ذریعے اتارا اور انہیں چیف سلیکٹر کا اضافی چارج دے کر مکمل با اختیار بنایا۔ پھر انہیں کوچنگ کا تجربہ فراہم کرنے کے لئے پی ایس ایل فرنچائز اسلام آباد یونائیٹیڈ کا کوچ بھی مقرر کردیا۔
آنجہانی ڈین جونز نے ایک بار ابوظہبی میں مجھے بتایا تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے مجھے واضع طور پر کہا تھا کہ اب مصباح ہی کوچنگ کریں گے آپ کسی اور ٹیم کو جوائن کرسکتے ہیں۔ مصباح الحق ایسے وقت میں ساتھی کرکٹرز کی جانب سے تنقید کی زد میں ہیں جب ٹیم مسلسل جیت رہی ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت کے باوجود سلیکشن معاملات پر ماہرین شدید تحفظات ظاہر کرر ہے ہیں۔ زمبابوے میں آف اسپنر ساجد خان اور فاسٹ بولر تابش خان کو کھلانے پر سب حیران ہیں۔
لیگ اسپنر زاہد محمود بغیر کھیلے آگئے ۔کہا جارہا ہے کہ زاہد کو اس لئے نہیں کھلایا گیا کیوں کہ مستقبل میں کسی کو بچانے کے لئے زاہد محمود کو ٹیسٹ کھلانے سے گریز کیا گیا۔جنوبی افریقا اور زمبابوے میں دانش عزیز بھی ناکام رہے ۔
افریقا کے دونوں دوروں میں خاموشی سے عبداللہ شفیق کو ٹیم کے ساتھ رکھا گیا اور بغیر کھلائے واپس لایا گیا، اسی طرح کے بہت سارے سوالات کی وجہ سے مصباح الحق اور بابر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔امام الحق اور شان مسعود کی موجودگی میں دیگر اوپنرز کو پروموٹ کرنےکے پیچھے بھی کہانی سمجھ سے بالاتر ہے۔
سلیکشن میں مسلسل غلط فیصلوں کے دوران فاسٹ بولر محمد عامر کے بعد پاکستان کے سب سے سنیئر کرکٹر اور سابق کپتان شعیب ملک بھی پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق پر تنقید کے نشتر چلارہے ہیں۔محمد عامر نے تو اس وقت تک پاکستان کے لئے کرکٹ کھیلنے سے انکار کردیا جب تک مصباح الحق ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں۔2007میں شعیب ملک پاکستان ٹیم کے کپتان تھے جب مصباح الحق کا تاریخی کم بیک ہوا اور پھر مصباح مسلسل ٹیم کا حصہ رہےکپتان بن کر ریٹائر ہوئے۔اب شعیب ملک بھی مصباح الحق سے ناراض ہیں۔
جبکہ پاکستان ٹیم کے کئی ایسے کھلاڑی جن کو گذشتہ دو سال میں ٹیم سے ڈراپ کیا گیا ،وہ مصباح الحق کے رویے سے ناخوش ہیں۔مصباح الحق جب کرکٹ کھیلتے تھے تو ان کے کھیلنے کے انداز پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔انہیں میڈیا نے مسٹر ٹک ٹک کا خطاب دیا۔پھر کپتان کی حیثیت سے ان کی سلیکشن پر سوالات اٹھ رہے تھے۔
2011کے ورلڈ کپ سے قبل انہوں نے ناصر جمشید کو ٹیم میں شامل کرنے کی انوکھی خواہش ظاہر کی تھی۔ اب پاکستان ٹیم میں کچھ سلیکشن ایسے ہیں جن کو ذہن قبول نہیں کرتا۔ مصباح الحق کہتے ہیں کہ تابش خان کو اس لئے ٹیسٹ کھلایا گیا تاکہ انہیں ڈومیسٹک کرکٹ کی مسلسل اچھی کارکردگی کا انعام دیا جائے۔کیا ٹیسٹ کیپ انعام میں دی جاتی ہے؟
مصباح الحق کہتے ہیں کہ س وقت ہر طرف نوجوانوں کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ نا قدین کی نظر میں نوجوان کی عمر کیا ہوتی ہےموجودہ ٹیم میں اظہر علی کے علاوہ سب نئے اور نوجوان ہیں۔اگر کسی کی نظرمیں20 سال کا کھلاڑی بوڑھا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔کوشش کریں گے کہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی سیریز میں بھی اسی اعتماد اور تسلسل سے کامیابی حاصل کریں۔
زائد العمر کے باوجود کھلاڑی فٹ ہے تو وہ ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکتاہے، بڑی عمر کے کھلاڑی کو ضرور کھیلنے کا موقع دینا چاہیے، جب میں خود پرفارمنس دے رہا تھا تو یونس خان جیسے کھلاڑی ٹیم میں تھے، کچھ کمبی نیشن ایسے ہوتے ہیں کہ پرفارمنس کےباوجود جگہ نہیں ملتی ، پرفارمنس کے باوجود فواد عالم کےلئے جگہ خالی نہیں تھی۔مصباح الحق نے کہا کہ ٹیم سیٹ ہوگئی ہے اس میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ کی کوشش نہیں کی ہے۔ بڑی ٹیموں سے زیادہ کھیلنے سے فائدہ ہوتا ہے لیکن چھوٹی ٹیموں کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔میرے خیال میں ٹیسٹ زیادہ تر بڑی ٹیموں کے ساتھ ہونے چاہئے۔
اپنے خلاف ہونے والی تنقید پر پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ کا کہنا ہے کہ مجھ پر تنقید کرنے والے کچھ لوگوں کو مجھ سے پرانا مسئلہ ہے،وہ اپنا خون جلاتے رہتے ہیں۔میرا فوکس کام پر ہے مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کون کیا کہہ رہا ہے اور کون کیا سوچ رہا ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ سارے فیصلے میں کرتا ہوں۔میں سلیکشن میں فائنل اتھارٹی نہیں ۔کپتان کے علاوہ مضبوط سلیکشن کمیٹی موجود ہے فیصلے اتفاق رائے سے اور ٹیم کے مفاد میں کئے جاتے ہیں۔تابش خان کو ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل اچھی کارکردگی کا انعام دیا گیا اس کو مستقبل میں کھلانے کا فیصلہ حالات دیکھ کر سلیکشن کمیٹی اور ٹیم انتظامیہ کرے گی ۔
زمبابوے میں ایک دم سے پوری ٹیم تبدیل کرکے نئی ٹیم اتارسکتے تھے،مستقبل میں کون کون سا کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا حصہ ہوگاپاکستان سپر لیگ کے بعد ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ کون کون سے کھلاڑی ٹیم کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ ہم نے کسی کھلاڑی کو مستقل طور پر نظر انداز نہیں کیا ۔ پی سی بی وائٹ بال کے لئے غیر ملکی کوچ لانا چاہتا ہے تو یہ اس کا فیصلہ ہوگا۔دنیا کاکوئی بھی کوچ جیت کی ضمانت نہیں دے سکتا۔انہوں نے کہا کہ میں36سال کی عمر میں کپتان بنا تھا اگر کوئی کھلاڑی فٹ ہے اور کارکردگی دکھا سکتا ہے تو اسے ضرور موقع ملنا چاہیے۔
ہم کسی کو نظر انداز نہیں کررہے۔مصباح نے کہاکہ پوری زندگی پریشر میں کرکٹ کھیلی ہے۔زندگی میں بعض چیزیں آپ کے کنٹرول میں نہیں ہوتی ہیں۔میں نیک نیتی سے اپنے کام پر محنت کررہا ہوں باقی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ جو بہتر کرسکتے ہیں کریں باقی اللہ پر چھوڑ دیں۔
مصباح الحق کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقا میں پاکستان نے ون ڈے سیریز دو ایک سے جیتی۔ٹی ٹوئینٹی سیریز میں تین ایک سے کامیابی حاصل کی۔جبکہ زمبابوے میں ٹیسٹ سیریز دو صفر اور ٹی ٹوئینٹی سیریز دو ایک سے جیتی۔انہوں نے کہا کہ دونوں دورے اچھے رہے۔ٹیسٹ اوپنرز عمران بٹ اور عابد علی سیٹ ہورہے ہیں۔حسن علی اور نعمان علی بہت اچھی بولنگ کررہے ہیں۔نیوزی لینڈ سیریز کے بعد فیلڈنگ میں بہتری نظر آئی ۔
میرے خیال میں ایک سال سے ٹیم کی کارکردگی میں بہتری ہےکوشش کریں گے کہ اسی تسلسل کو برقرار رکھیں۔سب سے بڑھ کر کپتان بابر اعظم پر اعتماد ہوتا جارہا ہے جس سے فیصلہ سازی میں بہتری دکھائی دے رہی ہے۔نوجوان ٹیم مسلسل اچھی کارکردگی دکھارہی ہے۔ہیڈ کوچ کا کہنا تھا کہ نوجوان ٹیم میں خاص طور پر بولرز کا کردار اچھا رہا، حسن علی اور نعمان علی نے بہترین پرفارمنس دکھائی ہے، ورلڈکپ سے قبل انگلینڈ میں وائٹ بال کی اہم سیریز ہے۔ گزرتے وقت کیساتھ پاکستان ٹیم فتوحات کےسفر پر چل رہی ہے،ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے سیریز کے نتائج بھی مثبت رہے، نیوزی لینڈ میں جو فیلڈنگ کےمسائل تھے ان خامیوں کو دور کیا ہے اب ورلڈ کپ کو مدنظر رکھتےہوئے پلاننگ پرکام کریں گے۔ بابر اعظم کی قیادت میں کافی بہتری آرہی ہے، صورتحال کے مطابق فیصلہ کرنے میں بابر ثابت قدم رہے ہیں۔
اس سال کے شروع میں جب ٹیم نیوزی لینڈ میں بری طرح ہار کر آئی تو مصباح الحق کو تبدیل کرنے کی باتیں ہونے لگی۔پھر کرکٹ کمیٹی کے سامنے لاکر انہیں جنوبی افریقا کی ہوم سیریز کے لئے مہلت دے دی گئی۔پھر جب ٹیم جیتنے لگی تو کرکٹ کمیٹی بالکل غائب ہوگئی ۔زمبابوے کی سیریز کے بعد مصباح الحق نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہماری عید بھی کرکٹ کمیٹی کے سامنے جواب دہی میں گذرے۔
میری ذاتی رائے میں ٹیم ہارے یا جیتے کرکٹ کمیٹی کی میٹنگ مستقل ہونی چاہیے۔ ہمیں پتہ چلنا چاہیے کہ کرکٹ کمیٹی کیا چاہتی ہے اور ہم کیا کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقا اور زمبابوبے کا دورہ کامیاب رہا ۔جنوبی افریقا کی کنڈیشن مین کامیابی آسان نہیں ہوتی یہ تاثر غلط ہے کہ ان کے مین کھلاڑی نہیں تھے۔
یہ جنوبی افریقا کا مسئلہہےہم نے ان کی مین ٹیم کو بھی شکست دی تھی۔ وائٹ بال کرکٹ میں مسائل سامنے آئے ہیں ۔مڈل آڈر مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ مستقبل میں وائٹ بال کی بڑی اہم سیریز ہیں ۔اب ٹیم جیت رہی ہے ،کرکٹ کمیٹی متحرک نہیں ہے لیکن یہ کمیٹی پی سی بی کے پاس ایسا ہتھیار ہے جو بورڈ جب چاہتا ہے اسے استعمال کردیتا ہے۔
حالیہ فتوحات کے باوجود پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کا کہنا ہے کہ آئندہ 8 ماہ کے دوران آئندہ آنے والی ہر سیریز پاکستان ٹیم کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ ہم 2023 تک اپنی ٹیم کو ہر طرز کی کرکٹ میں ٹاپ تھری پوزیشنز پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس ایکشن پیک سیزن میں پاکستان کو نیوزی لینڈ ، انگلینڈ ، ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کی میزبانی کرنے کے علاوہ انگلینڈ ، افغانستان اور بنگلہ دیش کے خلاف اوئے سیریزبھی کھیلنا ہے، اسی دوران قومی کرکٹ ٹیم آئی سی سی ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں بھی شرکت کرے گی۔2021میں پاکستان کو نان اسٹاپ کرکٹ کھیلنا ہے، مصباح کو ساتھی کھلاڑیوں کے حملوں سے بچنا ہوگا۔کرکٹ کمیٹی کی تلوار تو لٹک ہی رہی ہے سب سے بڑھ کر پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ان کے منزل کو آسان بھی کرسکتی اور مشکل بھی!