• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک جگہ دو بوڑھے کافی دیر سے کسی بات پر بحث مباحثہ کر رہے تھے۔ آتے جاتے لوگ اُنھیں دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ آخر یہ کیوں بچّوں کی طرح ایک دوسرے سے اُلجھ رہے ہیں؟ کچھ دیر بعد بحث کا شور تھما اور دونوں ہنسنے لگے۔یہ دیکھ کر ایک راہ گیر نے پوچھا’’ بزرگو! اِس خوشی کی کوئی خاص وجہ ہے؟‘‘ بولے’’ ہاں! ہم بہت دیر سے اِس بات پر بحث کر رہے تھے کہ اتنے بہت سارے مُلکی مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں اور پھر طویل بحث مباحثے کے بعد آخر ہم نے اس کا حل تلاش کر ہی لیا۔‘‘ اُس شخص نے تجسّس سے پوچھا’’ اچھا، یہ تو کمال ہی ہوگیا۔

ذرا ہمیں بھی تو بتائیے، مسائل کے حل کا نسخہ کیا ہے؟‘‘ بزرگ بولے’’ اگر پوری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے اور اُن کے ساتھ ایک گدھا بھی وہاں بند ہو، تو سب معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘’’ مگر گدھے کو کیوں قید کیا جائے؟‘‘اُس شخص کے اِس سوال پر دونوں بوڑھے زور زور سے ہنسنے لگے۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا’’ دیکھا، میری بات پر یقین آگیا ناں …!!یہ قوم اپنے بارے میں کبھی پریشان نہیں ہوگی، سب کو بس گدھے ہی کی فکر ہوگی۔‘‘ وفاقی حکومت نے 10 جون کو اقتصادی سروے رپورٹ جاری کی، تو اِسی نوعیت کی’’فکرمندی‘‘ کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ مالی سال کے دَوران پاکستان میں بھینسیں 14 لاکھ اضافے کے ساتھ 4کروڑ 10 لاکھ سے بڑھ کر 4کروڑ 24لاکھ ہوگئیں۔

نیز، بھیڑیں 3کروڑ 12لاکھ سے بڑھ کر 3کروڑ 16 لاکھ اور بکریاں 7کروڑ 80 لاکھ سے بڑھ کر 8کروڑ سے زاید ہو گئیں۔یہ بھی بتایا گیا کہ مُلک میں 4لاکھ گھوڑے،2 لاکھ خچر اور 11 لاکھ اونٹ ہیں، لیکن اُن کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔مجموعی طور پر گزشتہ مالی سال کے دَوران مویشیوں کی تعداد میں 19 لاکھ کا اضافہ ہوا ۔ یہ ایک خوش کُن اطلاع تھی، مگر حیران کُن طور پر اِن جانوروں کی تعداد میں اضافے کی خبر میڈیا کی سُرخی نہ بن سکی۔

البتہ، جب گدھے سے متعلق یہ اعداد وشمار سامنے آئے کہ اُن کی تعداد 55 لاکھ سے بڑھ کر 56 لاکھ ہوگئی ہے، تو اس کا میڈیا ہیڈ لائنز کے ساتھ، سوشل میڈیا پر بھی اِس قدر کثرت سے ذکر ہوا کہ لفظ’’ ڈونکی‘‘ ٹرینڈ کرنے لگا۔ایک مرحلے پر تو یوں لگا کہ شاید گدھا ہمارا قومی جانور ہے۔اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں گدھا کس قدر اہمیت رکھتا ہے …!!!تو ہم نے بھی سوچا ، کیوں نہ اس گدھے سے کچھ ہیلو ہائے ہی کرلی جائے۔

تعارف تو ضروری ہے

گو کہ گدھے کا تعارف کروانا کسی کو گدھا بنانے کے مترادف ہے کہ اِس سے کون واقف نہیں، مگر پھر بھی کچھ باتیں ضروری ہیں۔ہم اسے گدھا یا کھوتا کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنسی نام’’ Equus africanus asinus ‘‘ ہے ۔ایک اندازے کے مطابق اِس سیدھے سادھے جانور کی دنیا بھر میں پونے دوسو کے قریب اقسام ہیں۔یہ بنیادی طور پر گھوڑے کی فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔اسے مال برداری اور سواری کے لیے پانچ ہزار برس سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پھر وقت کے ساتھ اس کی ذمّے داریوں میں گاڑی کھینچنے اور ہل چلانے جیسے کام بھی شامل ہوگئے۔

بتایا جاتا ہے کہ تین ہزار قبلِ مسیح میں مِصر میں اس کا گھریلو استعمال شروع ہوا۔ گو کہ اسے صابر، قانع، فرماں بردار اور سخت جان جانور سمجھا جاتا ہے، تاہم اِس کی ضد بھی مشہور ہے۔ ذہین ہے، مگر بے وقوفی میں بھی کم نہیں۔ عام طور پر 15 سال تک زندہ رہتا ہے، مگر اچھی دیکھ بھال کی جائے، تو 50 برس بھی جی لیتا ہے۔گدھی 12 ماہ میں ایک ہی بچّہ دیتی ہے کہ گدھوں کے جڑواں بچّے شاذ ونادر ہوتے ہیں۔

کتنے گدھے…؟؟؟

عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا میں چار کروڑ کے لگ بھگ گدھے ہیں، جن کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ ایتھوپیا، پاکستان، چین، میکسیکو،سوڈان، چاڈ ، بھارت وغیرہ سب سے زیادہ گدھے رکھنے والے ممالک ہیں۔ 2017ء میں یہ حیران کُن رپورٹ منظرِ عام پر آئی کہ چین میں اچانک تین ملین گدھے کم ہوگئے۔ یہ گدھے کہاں گئے؟ کیا یہ بھی بتانا پڑے گا…؟؟گوشت کا چکر بھی ہے، مگر وہاں اس کی کھال سے کئی طرح کی مصنوعات بنائی جاتی ہیں، اِس لیے گدھے کم پڑگئے، البتہ اب اِس مقصد کے لیے کھال نُما مصنوعی چیزیں بنا لی گئی ہیں، جس پر گدھوں نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔

مشہور گدھے

دو گدھے بہت مشہور ہیں۔ ایک تو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا گدھا ہے، جس کے متعلق شیخ سعدی نے کہا’’خرِ عیسٰی اگر بہ مکّہ رود…چوں بیاید ہنوز خر باشد​‘‘ یعنی’’اگر عیسٰیؑ کا گدھا مکّے سے بھی ہو آئے، تب بھی گدھے کا گدھا ہی رہے گا۔‘‘ یہ شعر ایک محاورے کی صُورت اختیار کر گیا، جسے کسی کی عادات نہ بدلنے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم، کئی ایک کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا کوئی گدھا نہیں تھا، یہ صرف شاعرانہ تخیّل ہے۔ البتہ، مُلّا نصیر الدّین کے گدھے سے تو شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔ اُن کے گدھے سے متعلق بہت سے قصّے مشہور ہیں۔ 

مثال کے طور پر مُلّا جی کے ایک پڑوسی نے اُن سے تھوڑی دیر کے لیے گدھا مانگا، تو مُلا جی نے بہانہ بنایا’’گدھا یہاں نہیں ہے۔‘‘ اُسی وقت مکان کے پیچھے سے گدھے کے رینکنے کی آواز سُنائی دی۔ پڑوسی نے ناراض ہوتے ہوئے کہا’’مُلّا جی! آپ نے تو کہا تھا کہ گدھا نہیں ہے اور یہاں اُس کی آواز آرہی ہے۔‘‘اِس پر اُنھوں نے جواب دیا’’خدا تمہارے ایمان کی کم زوری معاف کرے۔ ایک جانور پر اعتبار اور مجھ جیسے سفید داڑھی والے بوڑھے آدمی پر بے اعتباری۔‘‘ اسی طرح ایک مرتبہ مُلّا جی گدھے پر سبزیاں لاد کر بیچنے نکلے۔ وہ جب بھی آواز لگاتے، گدھا بھی ساتھ ساتھ رینکتا، جس سے اُن کی آواز دَب جاتی۔ وہ ایک جگہ پہنچے، جہاں بہت سے لوگ جمع تھے۔مُلّا جی نے صدا لگائی، تو گدھا بھی اُن کے ساتھ رینکا۔ اس پر اُنھوں نے موٹا سا ڈنڈا اُٹھایا اور اُسے مارتے ہوئے کہا’’ابے، سبزیاں مَیں بیچ رہا ہوں یا تُو…؟‘‘

گدھوں کا سیاسی استعمال

نہیں ، نہیں، ہم وہ بات نہیں کر رہے، جو آپ کے ذہن میں کلبلا رہی ہے۔ ہم انتخابی عمل سے متعلق کچھ گزارشات کرنا چاہ رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک غیر معروف جماعت نے الیکشن کمیشن میں گدھے کے انتخابی نشان کے لیے درخواست دائر کی، جسے یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ کمیشن کے پاس گدھے کا نشان موجود نہیں۔ تاہم، حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں کوئی امیدوار اِس بات کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا کہ اُسے انتخابات میں گدھے کا نشان الاٹ کردیا جائے، مگر امریکا میں اِس نشان کو ایک خاص’’ سیاسی تقدّس‘‘ حاصل ہے اور عوام بڑھ چڑھ کر اس پر مُہریں بھی لگاتے ہیں۔

صدر جوبائیڈن اِسی نشان پر جیتے ہیں۔ امریکا کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک ،ڈیمو کریٹک پارٹی کا انتخابی نشان گدھا ہے اور دوسری، ری پبلکن پارٹی ہاتھی کے نشان پر الیکشن لڑتی ہے۔ 1828 ء کے صدارتی انتخابات میں اینڈریو جیکسن امیدوار تھے۔ مخالفین اُنہیں’’ گدھا، احمق اور بے وقوف‘‘ کہتے، جس پر جیکسن نے اُنھیں چِڑانے کے لیے اپنے انتخابی پوسٹرز پر گدھے کی تصویر چھپوانا شروع کردی۔اُنہوں نے ووٹرز کے سامنے گدھے کو ایک جفاکش اور محنتی جانور کے طور پر پیش کیا، جو شکوے شکایات کیے بغیر خدمت کرتا ہے اور تھکتا بھی نہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ بھی عوام کی اِسی طرح خدمت کریں گے۔ عوام کو یہ بات اِتنی پسند آئی کہ اُنھوں نے جیکسن کو امریکا کا صدر منتخب کرلیا۔بعدازاں، یہ ڈیموکریٹک پارٹی کی علامت اور باقاعدہ انتخابی نشان قرار پایا۔

’’ ڈونکی ڈاکٹر‘‘

یہ کوئی مذاق نہیں، بلکہ حقیقت ہے کہ اب دنیا میں گدھے سے ایک ڈاکٹر کے طور پر بھی کام لیا جا رہا ہے۔اسپین میں کورونا وبا کے باعث ذہنی تناؤ اور خوف کے شکار طبّی عملے کو گدھوں کے ساتھ وقت گزارنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے ’’چوں کہ گدھے زیادہ نرم خُو ہوتے ہیں، اِس لیے اُن کے ساتھ وقت گزارنا ذہنی اور جذباتی انتشار کی صُورت میں معاون ثابت ہوتا ہے۔‘‘گدھوں کی قربت کے اس منصوبے کو’’ ڈونکی ڈاکٹر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔اُدھر، برطانیہ کے بعض نرسنگ ہومز میں گدھوں کے ذریعے مریضوں کا دل بہلایا جاتا ہے۔ 

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ مریض، گدھوں کو دیکھنا اور اُن پر ہاتھ پھیرنا بہت پسند کرتے ہیں، جس سے اُن کے علاج میں مدد ملتی ہے۔‘‘ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ بھارت میں گدھی کے دودھ سے صابن، کریمز اور لوشنز وغیرہ تیار کیے جا رہے ہیں۔وہاں گدھی کا ایک لیٹر دودھ تقریباً ساڑھے 15 ہزار پاکستانی روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، بھارتی ریاست گجرات میں ایک خاص نسل کے گدھے کے باقاعدہ ڈیری فارمز قائم کیے گئے ہیں ۔ یورپ میں بھی گدھی کے دودھ کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اسے انسانی جِلد کی خُوب صُورتی برقرار رکھنے کے لیے بہترین نسخہ سمجھا جاتا ہے۔ کاسمیٹکس کمپنیز اس سے مختلف اشیاء تیار کر رہی ہیں۔ مِصر کی ملکہ قلو پطرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی خُوب صُورتی برقرار رکھنے کے لیے گدھی کے دودھ سے غسل کیا کرتی تھیں۔

لفظ گدھا، ایک مکمل گالی

ہمارے ہاں گدھا کم علم، جاہل اور بے وقوف کے معنی میں استعمال ہوتا ہے،اِس لیے یہ لفظ ایک مکمل گالی ہے اور اس کا بکثرت استعمال بھی ہوتا ہے، مگر خیال رہے، کبھی اس لفظ کا غلط استعمال منہگا بھی پڑ سکتا ہے۔ چند برس قبل کویت کی ایک عدالت نے بیٹے کو ’’گدھا‘‘ کہنے پر ماں کو ایک ماہ قید بامشقّت کی سزا سُنا دی کہ بچّوں کے باپ نے بیوی کی بدزبانی سے عاجز آکر عدالت سے فریاد کی تھی کہ اُس کی بیوی، بچّوں کو ہوم ورک کرواتے وقت انتہائی نازیبا زبان استعمال کرتی ہے۔وہ بار بار اُنھیں’’ اے گدھے‘‘ کہہ کر پُکارتی ہے۔

جنگی ایمبولینس

گدھوں کا جنگوں میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں ’’ گیلی پولی‘‘ کے مقام پر تُرکوں اور اتحادیوں کے درمیان تاریخی معرکہ انجام پایا، جس میں زخمی فوجیوں کو اُٹھانے کے لیے گدھوں کا استعمال کیا گیا۔افغان جنگ میں بھی گدھے اور خچر اسلحے اور خوارک کی ترسیل ہی کے لیے نہیں، جنگی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔میڈیا میں ایسی رپورٹس شایع ہوتی رہی ہیں، جن کے مطابق افغان جنگ جوؤں نے گدھوں پر بارودی مواد باندھ کر اُنھیں مخالف فوجیوں کی طرف ہانک دیا، جس سے اُنھیں بھاری جانی نقصان ہوا۔ نیز،اب بھی پہاڑی علاقوں میں قائم مورچوں وغیرہ تک سامان کی ترسیل کے لیے گھوڑوں کے ساتھ، گدھوں کا بھی انتخاب کیا جاتا ہے۔

اردو ادب اور گدھا

کئی ادباء و شعرا نے بھی گدھے پر طبع آزمائی کی ہے۔یہاں تک کہ کرشن چندر نے تو گدھے پر پورے تین ناولز لکھ ڈالے۔ پہلا ناول’’ ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ کے نام سے لکھا، جس کا مرکزی کردار ایک گدھا، انسانوں کی طرح بات کرتا ہے۔وہ دہلی آکر کسی طرح اعلیٰ حکومتی ایوانواں تک رسائی حاصل کرلیتا ہے، مگر جلد ہی اُس کا راز کُھل جاتا ہے، جس پر اسے انسانوں کی جانب سے گدھوں والے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعدازاں، اُنھوں نے’’ گدھے کی واپسی‘‘ کے عنوان سے دوسرا ناول لکھا، جس میں لوگوں کے تشدّد سے زخمی ہونے والا گدھا اسپتال سے صحت یاب ہوکر دوبارہ متحرّک ہوجاتا ہے۔ 

اِس بار وہ گھاس کا کام کرنے والے ایک شخص کے ہاں نوکری کرنے لگتا ہے۔’’ایک گدھا نیفا میں‘‘اِس سلسلے کا تیسرا ناول ہے۔ اس میں گدھا فلم ڈائریکٹر کے ساتھ شوٹنگ کے لیے نیفا کے جنگلوں میں پہنچ جاتا ہے، جہاں اُن دنوں بھارت اور چین کی جنگ جاری ہوتی ہے۔مصنّف نے وہاں گدھے کو دونوں ممالک کے باہمی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کرتے دکھایا ہے۔ ابنِ انشا نے گدھے کی یوں تعریف کی ہے’’ گدھا بڑا مشہور جانور ہے۔ گدھے دو طرح کے ہوتے ہیں،چار پاؤں والے اور دو پاؤں والے۔ سینگ اُن میں کسی کے سَر پر نہیں ہوتے۔ آج کل چار پاؤں والے گدھوں کی نسل گھٹ رہی ہے، دو پاؤں والوں کی بڑھ رہی ہے۔‘‘منشی پریم چند نے اپنے افسانے’’ دو بیل‘‘ میں گدھے کا تعارف یوں کروایا ہے’’ گائے شریف جانور ہے، مگر سینگ مارتی ہے۔ 

کتّا بھی غریب جانور ہے، لیکن کبھی کبھی اُسے غصّہ بھی آجاتا ہے۔ مگر گدھے کو کبھی غصّہ نہیں آتا، جتنا جی چاہے مارلو۔چاہے جیسی خراب، سڑی ہوئی گھاس سامنے ڈال دو۔ اُس کے چہرے پر ناراضی کے آثار کبھی نظر نہ آئیں گے۔اُس کے چہرے پر ایک مستقل مایوسی چھائی رہتی ہے۔ سُکھ دُکھ،نفع نقصان سے کبھی اسے شاد ہوتے نہیں دیکھا۔ رشی منیوں کی جس قدر خوبیاں ہیں،سب اس میں بدرجۂ اتم موجود ہیں، لیکن آدمی اُسے بے وقوف کہتاہے۔ اعلیٰ خصلتوں کی ایسی توہین ہم نے اور کہیں نہیں دیکھی۔ممکن ہے، دنیا میں سیدھے پن کے لیے جگہ نہ ہو۔‘‘

ممتاز مفتی نے اپنی کتاب ’’غبارے‘‘میں لکھا ’’مجھے گدھے پر رشک آتا ہے۔ اس عقل مند جانور نے اپنی بے وقوفی کا پرچار کرکے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے ہر مشکل کام اور ذمّے داری سے محفوظ کر لیا ہے۔ اب وہ بڑی سے بڑی چالاکی کرے، تو بھی آپ اُسے حماقت پر محمول کرکے ہنس دیں گے اور پیار سے کہیں گے ، گدھا ہے گدھا۔‘‘مرزا ادیب نے’’ گدھا کہانی‘‘ میں گدھے کی بہت سی خُوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ 

ایک مقام پر کہتے ہیں’’ بیٹا! یہ تم سے ایسی ہی محبّت کرے گا، جیسے تمھارا سگا بھائی ہو۔‘‘پروفیسر رام سروپ کوشل کی’’ گدھے کی آپ بیتی‘‘ بھی اِس موضوع پر بہترین کتاب ہے، جس میں انسانوں کو گدھوں سے متعارف کروایا گیا ہے۔مختلف ادیبوں نے بچّوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں میں گدھے کو خاص طور پر موضوع بنایا ہے۔

اسماعیل میرٹھی کی نظموں کی کتاب’’ ایک گدھا شیر بنا‘‘ میں مختلف عنوانات سے نظمیں ہیں، مگر اُنھوں نے ٹائٹل گدھے ہی کے نام کیا۔شعرا نے بھی گدھے کی آڑ میں مخالفین کے خلاف خُوب دِل کی بھڑاس نکالی ہے۔ میر تقی میر نے حضرت ناصح کو کہا’’ گدھا سا لدا پِھرتا ہے شیخ ہر سُو…کہ جبّہ ہے یک بار و عمامہ سر بار ۔‘‘مرزا غالب کہتے ہیں’’ شیخ جی کعبے کا جانا معلوم ہے… آپ مسجد میں گدھا باندھتے ہیں۔‘‘ شعرا نے اسے مزاح کے انداز میں بھی بیان کیا ہے، جیسے مجید لاہوری کا کہنا ہے’’ ساتھ اپنے جو لیے پِھرتا ہوں دو چار گدھے…پیش کرنے کے لیے لایا ہوں سرکار گدھے…نہ تو چارے کی ضرورت ہے، نہ کچھ دانے کی…کھال میں مست نظر آتے ہیں خود دار گدھے…اسپِ تازی تو کراچی میں ہوئے ناکارہ!…ہو گئے دیکھ لو دفتر میں ’’اہلکار‘‘ گدھے۔‘‘اور دلاور فگار کے اِس شعر کو تو تشریح کی ضرورت ہی نہیں؎ ’’سوچا تھا آدمی کا قصیدہ لکھیں گے ہم…مطلع کہا ہی تھا کہ گدھا یاد آ گیا۔‘‘

گدھے سے متعلق محاورے، کہاوتیں

اُردو کہاوتوں میں گدھے کا حصّہ تمام جانوروں سے زیادہ ہے۔کسی کو بے وقوف کہنے کے لیے’’ گدھا‘‘ کہہ دینا کافی ہے۔ اِسی طرح کسی کے غائب ہونے پر کہتے ہیں’’ وہ ایسا غائب ہوا، جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔‘’’تیری بات گدھے کی لات‘، ’’زر ہے تو نر ہے، نہیں تو کمہار کا خر ہے‘‘،’’اپنی غرض پر لوگ گدھے کو بھی باپ بنالیتے ہیں‘‘،’’گدھا گیا تو گیا، رسّی بھی لے گیا‘‘، ’’ کسی کے کہنے سے دھوبی گدھے پر نہیں چڑھتا‘،’’گدھے پر کتابیں لادنے سے وہ عالم نہیں ہو جاتا‘‘،’’کھیت کھائے گدھا، مارا جائے جولاہا‘، ’’کیا کابل میں گدھے نہیں ہوتے؟‘‘،’’گدھوں سے ہل چلیں تو بیل کیوں بسائیں‘‘، ’’ گدھے کا کھایا نہ پاپ میں نہ پُن میں‘‘،’’گدھے کوگدھا ہی کھُجاتا ہے‘‘،،’’خدا مہربان، تو گدھا پہلوان‘‘۔اور گدھا، گھوڑا ایک بہاؤ، گدھے پر چڑھانا، گدھے کو آدمی بنانا، گدھوں کے ہل چلانا وغیرہ عام مستعمل ہیں، جب کہ اسے اَن تھک محنت کے طور پر بھی بطور مثال استعمال کیا جاتا ہے، جیسے فلاں شخص گدھے کی طرح کام کرتا ہے۔

ذہین گدھا

گو کہ گدھے کی بے وقوفی ضرب المثل ہے، مگر تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ یہ اِتنا بھی بے وقوف نہیں، جتنا سمجھ لیا گیا ہے۔ ہم نے دیہات میں دیکھا کہ اینٹیں اور مٹّی ڈھونے والے ایک بار گدھے کو کسی راستے سے لے جاتے ہیں، پھر اس پر سامان لاد کر چھوڑ دیتے ہیں، تو وہ اِدھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے سیدھا اپنی منزل ہی پر پہنچتا ہے، جس سے اس کی ذہانت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسمگلر ان کی اسی ذہانت سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں کہ یہ سامان لے کر طے شدہ راستوں پر کسی نگرانی یا رہنمائی کے بغیر پہنچ جاتے ہیں۔

فلمی گدھے

مختلف عالمی زبانوں میں بچّوں اور بڑوں کے لیے بہت سی ایسی فلمز موجود ہیں، جن میں گدھے بھی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ اُردو میں بھی اس طرح کی فلمز خاصی شہرت حاصل کرچُکی ہیں۔ سیّد کمال نے ستّر کی دہائی میں ”انسان اور گدھا” کے نام سے فلم بنائی ، جس میں رنگیلا نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم اُس دَور میں کافی مشہور ہوئی، کیوں کہ اس میں انسان اور گدھے کی بعض مشترکہ عادات مزاحیہ انداز میں بیان کی گئی تھیں۔اِسی طرح 2018ء میں جیو فلمز کی جانب سے پہلی پاکستانی کمپیوٹر اینیمیٹڈ مزاحیہ فلم’’ ڈونکی کنگ‘‘ منظرِ عام پر آئی، جس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔’’ اِس فلم کی کہانی جانوروں کی ایک سلطنت پر مبنی ہے، جس کے بادشاہ، یعنی شیر نے ریٹائر ہوکر اپنی سلطنت کسی نئے بادشاہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر ایک گدھے کو راجا کے طور پر نام زَد کردیا گیا۔

گدھا کڑاہی

گزشتہ دنوں ہمارے ہاں مٹن کڑاہی، بیف کڑاہی، چکن کڑاہی کے ساتھ گدھا کڑاہی بھی خُوب چلی۔روز مُلک کے کسی نہ کسی حصّے سے گدھے کی کٹائی کے واقعات رپورٹ ہونے لگے۔تاہم، بعد میں پتا چلا کہ بات گوشت کی نہیں، بلکہ اصل ہدف گدھے کی کھال ہے، جو منہگے داموں چین وغیرہ برآمد کی جا رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق، گدھے کی کھال میں شامل اجزا سے مختلف ادویہ کے ساتھ کئی طرح کی آرائشی اشیاء بھی تیار ہوتی ہیں۔معاملہ بڑھا، تو پاکستان نے گدھے کی کھال کی برآمد پر پابندی لگادی۔ اسی دَوران چین نے بھی کھال کا متبادل تیار کرلیا، جس کے بعد عوام کو گدھا کڑاہی اور تاجروں کو اس کی کھال کے جھنجھٹ سے نجات ملی۔

سندھ کا گدھا میلہ

سندھ کے ضلع بدین کے قصبے، ٹنڈو غلام علی اور دمبالو کے درمیان ہر سال گدھوں کا میلہ منعقد ہوتا ہے، جس میں اُن کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت ہوتی ہے۔ بہت سے افردا اسے’’ ایشیا کی سب سے بڑی گدھا منڈی ‘‘قرار دیتے ہیں۔ یہ منڈی روایتی طور پر 7 سے 9 محرّم کو لگتی تھی، مگر اب کچھ عرصے سے اِن ایّام کے تقدّس کے پیشِ نظر اسے 10 محرّم کے بعد سجایا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق، یہ منڈی یا میلہ دو سو برس قبل تالپور حکم رانوں کے دَور سے شروع ہوا تھا۔

اِس میلے میں مُلک بھر سے گدھوں کے شائقین شریک ہوتے ہیں اور یہاں لائے گئے گدھوں کے نام بھی خاصے دل چسپ ہوتے ہیں، جیسے ایٹم بم، راکٹ، میزائل، ایف 17، توپ، کلاشن کوف، میرا، چکوری، ٹائیگر، جگنو، ریشماں وغیرہ۔ کچھ نام سیاسی شخصیات پر بھی رکھے جاتے ہیں، جن کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں۔اس موقعے پر گدھا دوڑ کا بھی مقابلہ ہوتا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق، 2019ء میں تقریباً تین ہزار گدھے فروخت ہوئے تھے، مگر گزشتہ برس کورونا وبا اور بارشوں کے سبب میلہ پھیکا رہا۔

گدھے مفت ملتے ہیں؟؟

عام خیال ہے کہ گدھے تو سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہیں، جس کا دِل چاہے، ساتھ لے جائے یا یہ کہ اُن کے دام واجبی سے ہوتے ہوں گے، مگر ایسا ہے نہیں۔سندھ میں لگنے والی سالانہ منڈی میں یہی گدھے 10 لاکھ روپے تک میں فروخت ہوتے ہیں، لیکن اِس ضمن میں ہماری بعض بیوپاریوں سے بات ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ خاص قسم کے گدھے ہوتے ہیں، جنھیں اُن کے مالکان بہت توجّہ سے پالتے ہیں، اُنھیں دیسی گھی، مکھن، بادام، پستے وغیرہ کھلائے جاتے ہیں، مگر عام گدھے 70 ہزار تک میں مل جاتے ہیں، جن سے مال برداری کا کام لیا جا سکتا ہے۔قیمتوں کا تعلق اُن کی نسل سے بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں لاسی، لاری، ایرای، تھرایا، ٹاکر، ملتانی، ایرانی، افغانی، تھری، کوہستانی اور دیگر نسل کے گدھے پائے جاتے ہیں، جن میں سے لاسی نسل کے گدھے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔

گدھے کا بچّہ

گدھے کے بچّے کو انگریزی میں’’foal‘‘ کہتے ہیں، مگر اُردو میں اِس کے لیے کوئی علیحدہ نام نہیں، جو اس کے ساتھ زیادتی ہے کہ اہلِ زبان نے باقی جانوروں کے بچّوں کے لیے تو نام مختص کر رکھے ہیں۔ویسے گدھے کے بچّے کو جانوروں کے خُوب صُورت بچّوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ کم ازکم ہم چند دوستوں کی تو یہی رائے ہے، البتہ گدھا بننے کے بعد وہ اپنی خُوب صُورتی برقرار نہیں رکھ پاتا۔ خُوب صُورت گدھے کی یہ پہچان بتائی جاتی ہے کہ اُس کے کان چھوٹے، جسم بھاری اور متوازن ہوتا ہے۔

ڈیڑھ فِٹی گدھا

2017 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی خاتون نے ایک ایسا گدھا پال رکھا ہے، جس کا قد صرف 19انچ ہے۔ اسے دنیا کا سب سے کوتاہ قد گدھا قرار دیتے ہوئے گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا گیا۔ واضح رہے، اِس سے پہلے جس گدھے کا گنیز بُک پر قبضہ تھا، اُس کا قد محض 6انچ تھا۔

تلفّظ کا خیال رہے

گدھا تو جو ہے، آپ جانتے ہی ہیں، مگر اِس سے مِلتا جُلتا ایک لفظ ایسا بھی ہے، جس کا پنجاب کی ثقافت سے خاص تعلق ہے اور وہ ہے گِدّھا۔ یہ بھنگڑے کی طرز کا ایک مقبول لوک ناچ ہے، جسے قدیم جھومر رقص کا حصّہ قرار دیا جاتا ہے۔

صوت الحمیر

گدھے کی رینکنے کی آواز کانوں کو اِس قدر ناگوار گزرتی ہے کہ کوئی بھی سلیم الفطرت شخص اسے برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں اِسے سب سے بُری آواز کہا گیا ہے۔ سورۂ لقمان، آیت 19 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز پست رکھو، بے شک، آوازوں میں سب سے بُری آواز گدھوں کی ہے۔‘‘دراصل، اِس آیت میں دیگر امور کے ساتھ گفتگو کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں کہ انسانوں کو گدھے کی طرح چِلّا چِلّا کر بات کرنا زیب نہیں دیتا۔ 

نیز، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا’’ جب تم مرغ کی آواز سُنو، تو اللہ سے اُس کا فضل مانگو، کیوں کہ وہ اُسی وقت بولتا ہے، جب اُسے کوئی فرشتہ نظر آتا ہے اور جب گدھے کے رینکنے کی آواز سُنو، تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو، کیوں کہ وہ اُس وقت شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے‘‘( ترمذی شریف)۔

ہاتھی کیسا ساتھی؟

جانے کیوں’’ ہاتھی، سب کا ساتھی‘‘ کہا جاتا ہے، حالاں کہ یہ کب ہمارے کام آتا ہے؟اِس پر سواری کرنے کا دَور بھی گزر چُکا۔صحیح معنوں میں ہمارا ساتھی تو گدھا ہے، جو دن بھر سَر جُھکائے ہماری خدمت میں مگن رہتا ہے۔ گو کہ چنگچی اور سوزوکی نُما رکشوں کی وجہ سے گدھوں کی مانگ میں کمی آئی ہے، مگر آج بھی بہت سے علاقوں میں اسے سواری، وزن اُٹھانے اور مال ڈھونے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔تاہم، اِس خدمت کے عوض بیش تر اوقات اِسے پیٹ بَھر خوراک تک نہیں ملتی۔ 

ہم نے کراچی کی سڑکوں پر کئی گاڑی بانوں کو ذرا ذرا سی بات پر گدھوں کو بے دردی سے پیٹتے دیکھا ہے، یہاں تک کہ اُن کی کھال اُدھڑ جاتی ہے اور زخموں سے خون رِسنے لگتا ہے۔اس کے باوجود، گدھا فرماں بردار نوکر کی طرح سَر جُھکائے اپنے کام میں مگن رہتا ہے۔پھر ظلم تو یہ بھی ہے کہ جب یہ کام کا نہ رہے یا کسی مرض میں مبتلا ہوجائے، تو انھیں برسوں گاڑیوں میں جوتنے والے سڑکوں پر تڑپ ٹرپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔بھلا اپنے ساتھی کے ساتھ بھی کوئی ایسا ظلم کرتا ہے …؟؟؟

تازہ ترین