• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعلیٰ کی زیرصدارت سندھ کابینہ کا اجلاس

سندھ کابینہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) پر زور دیا ہے کہ وہ سندھ حکومت کو 1.59 بلین روپے ادا کرے جو اس نے گزشتہ 11 سالوں کے دوران رضاکارانہ واپسی اسکیم کے تحت مجموعی وصولی کا 25 فیصد ایٹ سورس کٹوتی کی تھی۔ 

یہ بات وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ کابینہ کے اجلاس میں سامنے آئی۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری ممتاز شاہ، صوبائی وزراء، وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر، معاونین خصوصی اور متعلقہ سیکرٹریز نے شرکت کی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2016 کے سو موٹو کیس نمبر 17 اور بلوچستان ہائی کورٹ نے سی پی نمبر 1048، 2014 میں تحفظات کا اظہار کیا گیا اور نیب کی رضاکارانہ واپسی اسکیموں کے تحت واپس لی گئی رقومات وفاق اور صوبوں کے متعلقہ پبلک اکاؤنٹس میں جمع کرانے کی ہدایت جاری کی تھیں۔ 

اجلاس کو بتایا گیا کہ قومی احتساب بیورو مبینہ طور پر غبن شدہ عوامی رقم کی وصولی کرتا ہے اور 25 فیصد رقم اپنے افسران میں بطور ریوارڈ کے طورپر تقسیم کرنے اور محکمہ کی فلاح و بہبود کے لیے رکھتا ہے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ گزشتہ 11 سال 10-2009 سے21-2020 کے دوران نیب نے سندھ سے VR اور دیگر بدعنوانی کے مقدمات میں 6،382،287،659 روپے کی وصولی کی اور سندھ کو 4786671308 روپے دیئے اور 25 فیصد یعنی 1595571920 روپے رکھ لیے ۔

سپریم کورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے کہ نیب VR اسکیم کے تحت برآمد شدہ رقم متعلقہ پبلک اکاؤنٹس میں جمع کرائے گا۔ کابینہ نے معاملے پر غور کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ سندھ حکومت نیب سے 1.59 ارب روپے واپسی کی درخواست کرے گی جو کہ نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 کے تحت 25 فیصد کی شرح سے ایٹ سورس کٹوتی کی گئی تھی۔ 

اجلاس میں محکمہ قانون نے ملازمت کے دوران مرنے والے سرکاری ملازمین کے قانونی وارثوں کے فوتگی کوٹے کے تحت بھرتی کے لیے اہلیت کے معیار کی تجویز پیش کی۔ جس کے تحت متوفی کوٹہ 2 ستمبر 2002 سے نافذ العمل ہوگا۔ 2 ستمبر 2002 سے پہلے جو ملازم انتقال کرگیا ہو وہ فوتگی کوٹہ کا اہل نہیں ہوگا۔

اگر بچے نابالغ ہیں اور بیوہ فوتگی کوٹہ کے تحت بھرتی کے حوالے سے درخواست جمع کرانا نہیں چاہتی تو قانونی وارث مرنے والے ملازم کی موت کے دو سال کے اندر اندر متعلقہ محکمہ کو مطلع کرنے کا پابند ہوگا کہ اس کا ایک وارث 18 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد تین ماہ کے اندر درخواست جمع کرائے گا۔ کابینہ نے پالیسی کی منظوری دی۔

اسی دوران وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ ایک تفصیلی اسکیم تیار کرے جوکہ متوفی کے لواحقین کے لیے یکمشت یا ماہانہ پیکیج متوفی کے ریٹائرمنٹ کی مدت تک جاری رہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے امتیاز شیخ کی سربراہی میں ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی جوکہ اپنی تجویز پیش کرے گی۔

بائیو گیس پلانٹ کے حوالے سے کابینہ کو بتایاگیا کہ کے ایم سی کو 101 ایکڑ اراضی حکومت سندھ نے مذبح/سلاٹر ہاؤس کے قیام کے لیے فراہم کی تھی۔ کے ایم سی نے بھینس کالونی کی اراضی پر سلاٹر ہائوس قائم کیا تھا۔ فی الوقت فنی وجوہات کی بنا پر یہ سلاٹر ہائوس فعال نہیں ہے۔

سندھ حکومت نے بھینس کالونی میں جہا ں پر سلاٹر ہائوس قائم ہے وہاں پر بی آر ٹی ریڈ لائن کے لیے بائیو گیس پلانٹ کے قیام کی منظوری دی۔ کابینہ نےتفصیلی غور کے بعد بائیو گیس پلانٹ کے قیام کے لیے مذبح خانہ کی زمین واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ تاہم وزیراعلیٰ سندھ نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو ہدایت کی کہ سلاٹر ہاؤس کے لیے ایک اسکیم تیار کی جائے اور ان کی حکومت انہیں زمین فراہم کرے گی۔

صوبائی کابینہ نے کراچی واٹر بورڈ کی درخواست پر حکومت پنجاب کی طرح بوتل کے پانی اور مشروبات کی کمپنیوں سے فی لیٹر 1 روپے لیوی کی منظوری دی۔ 

بلدیاتی ملازمین کے حوالے سے کابینہ نے محکمہ لوکل گورنمنٹ کی درخواست پر مقامی حکومت کی سطح پر فنڈ قائم کرنے کی تجویز منظور کی تاکہ وہاں تعیناتی کے منتظر ایس سی یو جی ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جا سکیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ محکمہ لوکل گورنمنٹ کو ایک مناسب نظام تیار کرنا چاہیے تاکہ مزید پوسٹنگ کے لیے لوکل گورنمنٹ بورڈ کو رپورٹ کرنے والے ملازمین اپنی تنخواہیں لے سکیں۔

کابینہ نے لوکل گورنمنٹ کے سب انجینئرز (BS-11 SCUG) کے سروسز ڈھانچے کو دیگر محکموں جیسے آبپاشی، ورکس اینڈ سروسز، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ اور ایجوکیشن ورکس کے برابر لانے کی تجویز کی بھی منظوری دی۔

ساکابی ترقیاتی پروگرام پر کابینہ کو بتایا گیا کہ 138.384 ارب روپے کی لاگت سے 1646 جاری اسکیمیں شروع کی گئی ہیں جن کے لیے اس نئے مالی سال 21-2020 کے دوران 38.706 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان کی مسلسل مانیٹرنگ کے باعث 8.173 ارب روپے 6 اگست 2021 تک استعمال ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کابینہ کے ارکان کو ہدایت کی کہ وہ ترقیاتی کاموں کی بروقت تکمیل پر خصوصی توجہ دیں۔

محکمہ زراعت نے کابینہ کو بتایا کہ بیج کا تعین وفاقی سیڈ سرٹیفکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ (ایف ایس سی اینڈ آر ڈی) کرتا ہے ۔ فی الحال ایف ایس سی اینڈ آر ڈی کا انفرااسٹرکچر اور عملہ پورے سندھ کا احاطہ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ صوبائی مشیر زراعت منظور وسان نے اجلاس کو بتایا کہ سندھ میں 112 رجسٹرڈ سیڈ کمپنیاں کام کر رہی ہیں جبکہ 15 سیڈ کمپنیاں رجسٹرڈ امپورٹ بیج کی ہیں لیکن یہاں غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کی بھرمار ہے۔ اس لیے غیر معیاری بیج بویا جارہا ہے جس سے پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

محکمہ زراعت نے کابینہ کو تجویز دی کہ وہ صوبائی بیج سرٹیفکیشن اور رجسٹریشن قانون نافذ کرنے کی اجازت دے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں سید سردار شاہ ، اسماعیل راہو ، منظور وسان اور مرتضیٰ وہاب شامل ہیں جو کہ سندھ سیڈ کارپوریشن ایکٹ کا جائزہ لیں گے اور تجویز کریں گے کہ مارکیٹ میں حقیقی کمپنیوں اور بیجوں کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اسے کیسے کارآمد بنایا جائے۔

کابینہ کو بتایا گیا کہ ٹیلی میڈیسن کے کئی فوائد ہیں جو کہ مدافعت میں اضافہ کرتے ہیں، بشمول خدمات تک تیز رسائی۔ یہ خاص طور پر دیہی علاقوں کے لوگوں کے اخراجات اور کاوشوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں جو علاج کے لیے لمبے سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ محکمہ صحت نے سندھ ٹیلی ہیلتھ اینڈ ٹیلی میڈیسن ایکٹ 2021 کو کابینہ میں پیش کیا اور وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ ایکٹ ٹیلی میڈیسن کی پریکٹس کے لیے معیاری گائیڈ لائنز کی فراہمی میں مدد کرے گا۔

بل کے تحت ایک رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنر (RMP) یا ہیلتھ کیئر سروس تنظیم ٹیلی میڈیسن مشاورت فراہم کر سکتی ہے۔ RMP ایک مقررہ کورس کے بعد ٹیلی میڈیسن یا ٹیلی ہیلتھ کی پریکٹس کرنے کا حقدار ہوگا۔ RMP مریض کو اپنی قابلیت سے آگاہ کرے گا جس میں PMC رجسٹریشن فراہم کی جائے گی جس میں اسپیشلائزیشن کی حدود بھی شامل ہیں۔ ٹیلی ہیلتھ رجسٹرڈ ہیلتھ پروفیشنلز کمیونٹی کو تعلیم کے لیے اچھی ہیلتھ پریکٹس کے فروغ کے لیے ہیلتھ سروس فراہم کریں گے۔ کابینہ نے بل کی منظوری دی اور اسے اسمبلی کو بھیج دیا۔

کابینہ نے سندھ ایلوپیتھک نظام (غیر مجاز استعمال کی روک تھام) ایکٹ -2014 کے قواعد کی بھی منظوری دی تاکہ ادویات کے ایلوپیتھک نظام کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔

کابینہ نے سندھ میں وکلاء کی فلاح و بہبود کو فروغ دینے کے لیے سندھ لائرز ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل 2021 کی بھی منظوری دی۔ اس مقصد کے لیے وکلاء کی فلاح و بہبود کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے گا۔ کابینہ نے بل کو اسمبلی میں بھیج دیا۔

صوبائی کابینہ نے سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے ضوابط کی بھی منظوری دی۔ اتھارٹی معیاری پروٹوکول اور مجوزہ طریقہ کار کو برقرار رکھتے ہوئے اور محفوظ بلڈ ٹرانسفیوژن کے تمام پہلوئوں کی نگرانی کرتے ہوئے بلڈ بینکوں، بلڈ سینٹرز اور دیگر بلڈ اداروں کو لائسنس کا رجسٹر رکھتی ہے۔ قوانین کے معیارات اور وضاحتوں کے ذریعے اتھارٹی ایک معیاری نظام تشکیل دیتی ہے اور خون کی جانچ، ذخیرہ اور تقسیم میں کسی بھی سنگین منفی واقعات کے تدارک کو یقینی بناتی ہے۔ اتھارٹی نے ایکٹ کے نفاذ کے حوالے سے معلومات کے تبادلے کے لیے باقاعدہ اجلاس کے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا۔

کابینہ نے محکمہ صحت کی درخواست پر سندھ انٹیگریٹڈ ایمرجنسی اینڈ ہیلتھ سروسز (SIEHS) بنانے کی تجویز کی منظوری دی جس کے تحت امن ایمبولنس سروس کراچی اور سندھ پیپلز ایمبولنس سروس صوبے کے مختلف اضلاع میں کام کرے گی۔ محکمہ صحت ایک ڈونر ایجنسی کے تعاون سے 200 ایمبولنسوں کا بیڑا شامل کر رہا ہے جو کہ SIEHS کے تحت کام کرے گا۔ کابینہ نے نئی تشکیل شدہ کمپنی SIEHS کے لیے 500 ملین روپے کی سیٹ اپ لاگت کی منظوری بھی دی۔

کابینہ نے وضاحت کے لیے ایس آر بی قوانین کے کچھ حصوں میں ترمیم بھی کی ۔ ایس آر بی نے ایک آئٹم پیش کیا جس کے تحت 5 فیصد ایس ایس ٹی اسکول فیس اور نجی صحت کے اداروں پر عائد کرنے کی تجویز دی تھی جسے کابینہ نے مسترد کر دیا۔ 

تازہ ترین