• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باجا خریدنے کیلئے 3 روپے روزانہ اُجرت پر مزدوری کی

بات چیت: وحید زہیر ،کوئٹہ

رقبے کے لحاظ سےپاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، بلوچستان نہ صرف اپنے معدنی وسائل کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے، بلکہ اس کی ثقافت و اقدارکا بھی کوئی ثانی نہیں۔ معروف دانش وَر، ایّوب بلوچ کے مطابق ’’بلوچستان کے چپّے چپّے میں شجاعت اور محبّت کی داستانیں کندہ ہیں۔‘‘ سرزمینِ بلوچستان نے کئی نادر فن کار پیدا کیے، جن میں ایک نام، ممتاز لوک فن کار،اختر چنال کا بھی ہے، جو گزشتہ دِنوں پہلے توکورونا وائرس کے باعث سخت علالت کا شکار ہوئے، بعد ازاں پتا چلا کہ ان کے دل کی وال بھی متاثر ہوگئی ہے۔

مگر بات چیت کے دوران انہوں نےمطمئن لہجے میں کہاکہ ’’یہ وہ وال نہیں، جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ یہ تو دَر حقیقت انگریزی والیWallہے،جو اتنی آسانی سے متاثر ہونے والی نہیں ۔ بس، وقت کے تھپیڑوں سے اس کا رنگ کچھ پھیکا پڑگیا ہے،ذرا سُرسنگیت کے رنگ دوبارہ چڑھنےدیں ، تواُس کی سُرخی دوبارہ لَوٹ آئے گی۔‘‘

زندگی میں رِدھم نہ ہو تووہ روکھی پھیکی سی لگتی ہے ۔ موسیقی وہ شعور ہے، جوانسانی احساسات کوتازگی بخشتا، بیابانوں میں چرواہوں کو فطرت سے گفتگو کا سلیقہ سکھاتاہے ۔کسی پُرسکون جنگل میں کوئل کی کُوک، چکور کی چاند سے باتیں سُنی جائیں، تو سُرکاسنگیت سےباہمی رشتہ سمجھ آتا ہے۔یہ جھرنوں ،چشموں اور گھنے درختوں کا سُکون اسی ردھم کاحصّہ ہے۔اور اسی سُرسنگیت، موسیقی، ردھم کے بادشاہ ،اختر چنال آج ہماری ’’انٹرویو ‘‘بزم کے مہمان ہیں۔ اُن سے ہونے والی گفتگو ملاحظہ فرمائیں۔

س: اپنے خاندان،علاقےاور ابتدائی زندگی سے متعلق کچھ بتائیں۔

ج: میرانام محمّد اختر اور ذات،چنال ہے، جو زہری قبیلے کی ایک ذیلی شاخ ہے۔ ہمارے خاندان کا پہلا پڑائو سکم ماراپ میں ہوا۔ دادا کا نام مسافر اور والد کاجمعہ خان ہے۔ ہمارا خاندانی کام مال داری ہے ۔ بلوچستان کے مال دار ہمیشہ سے پانی کے پیچھے بھاگتے رہے ہیں، جہاں پانی میّسر نہیں ہوا، موسم میں شدّت آئی ،بُزمرگی شروع ہوجاتی، جس کی وجہ سے خانہ بدوشی اختیار کرنی پڑتی۔ ہمارے خاندان نے بھی طویل خانہ بدوشی کے بعدآخر کار قلّات شہر میں سکونت اختیار کی۔

یہاں شاہی زئی پینٹ ہمارا آخری پڑائو تھا۔ خانہ بدوش زندگی جہاں برائیوں سے پاک ہوتی ہے،وہیں ایسی زندگی گزارنے والے انتہائی تخلیقی ذہن کےبھی مالک ہوتے ہیں۔ لوک داستانیں ، شاعری اور میٹھی آواز وَرثے میں ودیعت ہوتی ہے۔ میرے والد ہمارے خاندان کی وہ پہلی شخصیت تھے ،جنہوں نے سرکاری ملازمت کی۔ وہ محکمہ جیل خانہ جات میں بھرتی ہوئے تھے۔جس کے بعدان کا تبادلہ صوبے کے مختلف شہروں میں ہوتا رہا، کبھی کوئٹہ ،تو کبھی مچھ جیل، تو کبھی خضدار اور مستونگ۔

شاید مَیں اپنے خاندان کا پہلا بچّہ تھا، جسے والد کے دوستوں کے پُرزور اصرار پرا سکول میں داخل کروایا گیا۔ والد صاحب کے مسلسل تبادلوں کی وجہ سے میری تعلیم پربھی اثر پڑا۔ میری زندگی میں تبدیلی تب آئی، جب مستونگ میں ابّا کو سرکاری کوارٹرنہ ملنے کی وجہ سے ایک دوست، ماما چاندی کے گھر رہنا پڑا۔وہ دونوں میاں بیوی بےحد سُریلے تھے۔ ان کے ایک دوست ،حاجی خان ،جو رباب بجاتے تھے ، کچھ دن ہمارے ساتھ مہمان رہے۔ 

چوں کہ اُس زمانے میں قلاّت اور مستونگ میں لوگوں کی تفریح کا واحد ذریعہ موسیقی کی نجی محفلیں ہوا کرتی تھیں ، تواستاد حاجی خان رات میں کسی محفل میں شرکت کرنے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے کہ اُنہیں رات میں کم دکھائی دیتا تھا(اس کی اجازت انہوں نے ابا سے لی ہوئی تھی)۔وہ ہر محفل میں مجھے اپنی ٹیم کا حصّہ بنا کر لے جاتے ، میرا کام ان کے گائے ہوئے اشعار دُہرانا اور تالی بجا کر سنگتی کرناتھا۔ یوں موسیقی میں میری دل چسپی پیدا ہوئی اور مَیں بھی تھوڑا بہت گنگنانے لگا۔ کچھ عرصے بعد( 1966ء میں) ٹائون کمیٹی، مستونگ کی جانب سے موسیقی کے ایک خاص پروگرام کا اہتمام کیاگیا ، جس میں شرکت کے لیےنام وَربلوچی گلوکار ،استاد فیض محمد بلوچ اوربہت سے دیگر فن کار کوئٹہ وغیرہ سے آئے۔ 

ٹائون کمیٹی کے چیئرمین نے محفل کے آغاز پر اسٹیج پر آکر اعلان کیا کہ ’’اس محفل کا آغاز مستونگ ہی کے کسی فن کار سے ہوگا، لہٰذا مستونگ کا اگر کوئی فن کار موجود ہے تو وہ اسٹیج پر آجائے۔خوش قسمتی سے اُس روز وہاں مستونگ کا کوئی بڑا فن کارموجود نہیں تھا ، تو قرعہ میرے نام نکل آیا، دوستوں نے زبردستی مجھے اسٹیج پردھکا دےدیا۔ اور مَیں نے اسٹیج پر ایک قوالی پیش کی، جس پر مجھے بے حدداد اور چیئرمین کی جانب سے ایک روپیا انعام بھی ملا۔ تو بس، اُسی روز جیسے فیصلہ ہوگیا کہ میر امستقبل اسٹیج ہے۔ یہاں میرے استاد ،نبی بخش تھے، جنہوں نے مجھے موسیقی سے متعلق بنیادی باتیں سکھائیں اور میری خوب حوصلہ افزائی بھی کی ۔

س: گانے کاباقاعدہ آغاز کب اور کیسے ہوا؟

ج: جب گانے بجانےکا شوق ہوا توتھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے بارہ روپے میں ایک باجاخریدا۔ مَیںایک روز کوئٹہ میں کلی عالم خان میں ایک محفل میں شریک تھا کہ ایک نوجوان میرا باجا دیکھ کر مذاق اُڑانےلگاکہ ’’یہ کوئی باجا ہے،میرے پاس تو اس سے بہت بہتر باجا ہے۔‘‘ اس کی باتیں سُن کر مجھے بہت غصّہ آیا، مَیں نے بھی کچھ باتیں سُنادیں۔ جس پر اُس نے کہا’’ مَیں ابھی وہ باجالاتا ہوں ،فرق پتا چل جائےگا۔

پھر وہ باجا لایاتو واقعی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔اُس نوجوان نے بتایا کہ’’تقسیمِ ہند سے قبل پرنس روڈ، کوئٹہ میں ایک سکھ کا باجے بنانے کا کارخانہ تھا ،تقسیم کے وقت جب وہ جانے لگا تو کار خانہ نوجوان کے والد کے حوالے کر گیا۔ بعد میں اُس لڑکے کے والد نےباقی سارے باجے تو فروخت کر دئیے، مگر یہ ایک باجا اُس نوجوان نے اپنے لیےرکھ لیا۔وہاں موجود ہر شخص ہی باجے کی بے حد تعریف کر رہا تھا، لیکن میرے بہت اصرار پر نوجوان ایک سو بیس روپے میں بمشکل وہ باجا بیچنے پر آمادہ ہوگیا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ اُس وقت میرے پاس پیسے نہیں تھے، تو مَیں نے باجے کی بکنگ کروالی۔ 

والد صاحب کو پوری بات بتائی تو ان کی اجازت سے یہ طے ہوا کہ اسکول سے چُھٹّی کے بعد کوئٹہ جیل میں ہونے والےتعمیراتی کام میں کچھ دن مزدوری کرنی پڑے گی۔ اور یوں باجا خریدنے کے لیے مَیںتین روپے دِہاڑی پرکام پر جُت گیا۔ ایک مہینہ ہونے کو آیا ، تواووَر ٹائم ملا کر بمشکل ایک سو روپے ہی جمع ہوپائے ، جب کہ ہاتھوں میں چھالے بھی پڑگئےتھے، مزید کام کرنے کی سکت نہیں تھی۔تو مَیں اپنے ایک دوست (موجودہ سالے )کے پاس گیا اور ساری رُوداد سنائی، تو باقی کے بیس روپے اس نے دے دئیے، یوں مَیں نے وہ قیمتی باجا خریدا۔ اوربس، پھر مَیں تھااور میرا باجا۔ جیسے باجے نے میرااور مَیں نےباجےکا ساتھ نبھانے کی قسم اُٹھالی ہو۔

س: استاد صادق علی خان تک کیسے پہنچے؟

ج: مَیں نے کچھ عرصہ محکمۂ پولیس میں بطور ریزرو پولیس بھی ملازمت کی۔ ایک مرتبہ سبّی جانا ہوا، تو وہاں دونوجوان گلوکار ، استاد اکبر علی اور اختر علی آئے ہوئے تھے۔کیا کمال گلوکار تھے ،معلوم ہوا کہ دونوں استاد صادق علی خان کے فرزند ہیں ۔ بس ،اسی روز مَیں نے دل میں ٹھان لی کہ استاد صادق علی خان کی شاگردی اختیار کروں گا۔ اسی دوران قلّات میں فائن آرٹس کی مشہور شخصیت اکبر جان نے، جو میرے دوست تھے ، ان دنوںریڈیو پاکستان ،کوئٹہ میں اسکرپٹ کے شعبے سے وابستہ تھے، مجھے ریڈیو کے براہوی زبان کے پروگرام میں شرکت کے لیے آمادہ کیا، تومَیں 1973ء میں آڈیشن پاس کرکے ریڈیو گلوکار بن گیا اور اے کیٹگری تک پہنچا۔

ایک روز پروگرام شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل بوتھ میں داخل ہواتو وہاں ایک شخص لیٹا ہوا تھا ،مَیں نے ریہرسل کے لیےباجا کھولا تومجھے اندازہ نہیں ہوا کہ وہ شخص کن انکھیوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔مَیں جیسے ہی باجا بجانےلگا ،تو وہ اُٹھا اور تلخ لہجے میں بولا’’ پہلے موسیقی کے ادب آداب توسیکھ لو، آلاتِ موسیقی سے پیار کارستہ اپنائو ۔تم نے جس طرح سے باجا زمین پر پٹخا اور کھولا ہے اور بے ترتیب انگلیاں رکھی ہیں ،مجھے یہ انداز ہر گز پسند نہیں آیا۔‘‘مَیں نے پوچھا ’’تو کیا کروں؟‘‘ بولا’’جائو، استاد صادق علی سے سیکھو۔‘‘مَیں نے اُس کا نام پوچھا تو طالب حُسین بتایا ۔بعد میں پتا چلا کہ وہ ہارمونیم پلیئر ہیں۔ 

ماسٹر طالب حُسین کی وہ باتیں کئی روز تک میرےذہن میں گردش کرتی رہیں۔پھر ایک دن استاد صادق ملے، مَیں نے ان سے درخواست کی تو انہوں نے کہا’’جائو، اپنا راستہ ناپو۔ یہ کوئی بچّوں کا کھیل نہیں، کئی لوگ آئے،میرا وقت برباد کرکے چلے گئے۔ آج کل کے نوجوانوں کونہ استادوں کے احترام کا پتا ہے، نہ ہی سیکھنے کا کوئی جذبہ ہے۔مجھے نام کے شاگرد نہیں چاہئیں۔‘‘ اُن کی باتوں سے مَیں دل برداشتہ ہوکرلَوٹ آیا۔ 

کوئٹہ کے ’’جمعیت رائے روڈ‘‘ پرجو اب ’’میر خلیل الرحمٰن روڈ ‘‘کہلاتا ہے، ایک استاد عبدالحق آلاتِ موسیقی، خاص طورپر باجے مرمّت کرتے اوربناتے تھے، اُن کے ہاںگلوکاروں کا کافی آنا جانا لگا رہتا تھا، وہ میرے بھی دوست ومربّی تھے، جب مَیں نے ان سے حالِ دل بیان کیا توانہوں نے استاد صادق علی سے بات کی ،استادوں کا ایک طریقہ ہوتا ہے، جسے اکثرلوگ غلط رنگ بھی دیتے ہیںکہ وہ انسیت پیدا کرنے اور آنے جانے کے لیے کچھ شرائط رکھتے ہیں۔ 

میرے لیے جو شرائط طے ہوئیں، اُن میں ایک جوڑا کپڑے ، جوتے، 70روپے نذرانہ ،ایک کلو مٹھائی اور پانچ چینک چائے شامل تھی۔جب مَیں نے موسیقی کی تعلیم لینی شروع کی تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ استاد کو کہنا پڑا’’ اختر !تم انسان نہیں ،جن ہو۔مجھے ایسے چمٹے ہوکہ مَیں تمہارا ہی ہوکر رہ گیا ہوں۔‘‘ پھرمجھے ڈاک خانےلے کرگئے ،وہاں سے پارسل لیا۔ پارسل میں ایک کتاب ’’معارف انضمات ‘‘تھی ،جو موسیقی کے حوالے سے ایک بنیادی کتاب ہے، وہ مجھے پڑھاتے رہے۔

ایک روز اپنے بیٹے سے کہا’’ دیکھو! میرا یہ ہونہار شاگر دکیا سے کیا بن گیا ہے۔ جس کی اردو کاتم لوگ مذاق اڑاتے تھے،آج کتنی صاف اردو بولتا ہے۔‘‘ استاد نے نہ صرف میری اردو درست کی، بلکہ فارسی اور سنگیت کی زبان، ’’برج بھاشا ‘‘بھی سکھائی۔ بس، یوں سمجھ لیں کہ مجھے بلبلِ بغداد بنادیااور دیکھتے ہی دیکھتے مَیں ان کے گھر کا ایک فرد بن گیا ۔ استاد صادق علی خان کا تعلق موسیقی کے تلونڈی گھرانے سے تھا، جنہوں نے آلاپ ایجاد کیا، خود طبلہ بجاتے تھے۔ اُن کاتعلق ننکانہ سے اور رہنے والے کوئٹہ کے تھے۔

س: شہرت کب اور کیسے ملی؟

ج: مَیں نےپی ٹی وی ،کوئٹہ کے ایک پروگرام میں شرکت کی ،جس میں پاکستان کے چیدہ چیدہ گلوکار موجود تھے۔ اس پروگرام کے دوچار روز بعد پی ٹی وی، کوئٹہ کے ارباب اختیار نے بتایا کہ آرٹس کاؤنسل، کراچی میں قومی تہوار کے سلسلے میں ’’موسیقی میلہ‘‘ منعقدہونے جارہا ہے اور آپ کو اس میں لازمی شرکت کرنی ہے ۔

وہ ایک بہت بڑا پروگرام تھا، جس میں اللہ تعالیٰ نے میری عزت رکھی۔میرے گانوں نے لوگوں کو جھومنے پر مجبور کردیا، وہاں موجود سیکرٹری کلچر ،حمید اخوندنے اسٹیج پرآکر مجھے گلے لگایا اور پروگرام میں موجود اس وقت کے پی این سی اے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ،امر جلیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا’’ امر جلیل! آپ کے امریکاوالے ٹور میں اختر چنال شامل ہے؟‘‘ 

اس طرح 1991ء میں ، مَیں نےپہلی مرتبہ مُلک سے باہر کسی بڑے مجمعے میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ دل چسپ بات یہ ہےکہ دورۂ امریکا میں مجھے اندازہ نہیں تھا کہ لاکھوں کا مجمع ہوگا اور انہیں جوش وخروش کے ساتھ لے کر چلنا ہوگا ۔ جب ہماری باری آئی توآرگنائزرز پریشان ہوگئے، لیکن میری فنِ موسیقی کی تربیت کام آئی اورمَیں نے آرگنائزرز کو تسلّی دی۔

اُس وقت میری نظر اسٹیج پر موجود اس بڑے آرکسٹرا پر تھی، جس نے میرا کام آسان کرنا تھا ۔ مَیں نے ان سے مدد مانگی اور موسیقی کی زبان میں صرف اتنا بتایا کہ ’’بھائی! ڈرم میں تیرے کالے بھوپالی اور کی بورڈ میں بلوچی داد را چاہیے۔‘‘ بس جی پھر کیا تھا، ایسا رنگ جما کہ مجمع فدا ہی ہوگیا۔ مجھے جانے ہی نہیں دے رہا تھا۔ اُس ایک کنسرٹ نے میرے لیے دنیا کے 25 ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی راہ ہم وار کی۔

س: آپ خصوصی طورپر فرانس بھی گئے تھے؟ وہ کیاقصّہ ہے ؟

ج: کراچی میں تخریب کاری کے نتیجے میں ایک فائیواسٹار ہوٹل میں موجود کچھ فرانسیسی دھماکے کی زَدمیں آگئے تھے۔ مَیں اس وقت گِزری کے علاقے میں موجود تھا، رات کو پولیس والے میرے گھر آئے اور دروازہ کُھلتے ہی پوچھا ’’یہ اختر چنال کا گھر ہے؟‘‘پولیس کو دیکھتے ہی میری تو جان نکل گئی۔ بمشکل جواب دیا ’’مَیں ہی اختر چنال ہوں ۔‘‘یہ کہنے کی دیر تھی کہ ایک مرداور خاتون سامنے آئے، خاتون زارو قطار رو رہی تھیں۔ 

مرد نے بتایاکہ ’’اختر بھائی! اس لڑکی کا دوست دھماکے میں مرگیا ہے۔ تمام فرانسیسی بے حد ڈرے ہوئے ہیں اور حکّام کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان سےخیر سگالی کا پیغام لے کر آپ ان کے ساتھ فرانس جائیں کہ وہاں کے عوام موسیقی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس طرح مَیں ایک ماہ کے لیے فرانس کے مختلف شہروں میں امن کا پیغام پہنچاتا رہا۔ اس موقعے پر فرانسیسی گلوکاروں اور موسیقاروں نے بھی بھرپور انداز میں میرا ساتھ دیا۔

س: ’’دانے پہ دانہ‘‘ کی کیاکہانی ہے ؟

ج: مَیں ایک روزقلّات میں ایک درزی کی دُکان پر بیٹھا تھا ۔اس نے ٹیپ ریکارڈر پر دانے پہ دانہ سُنایا، جو مزاحیہ اشعار پر مبنی تھا ۔مجھے یہ لائن بے حداچھی لگی ، اسےباربار سُننے کے بعد مَیں نے ازخود اُسے سنجیدہ شاعری میں ڈھالا، جو بعد ازاںمیری شناخت بن گیا۔ بعد میں اسے بعض دیگر گلوکاروں نے بھی گایا، مگر طرز تو اپنالی ،لیکن زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے زبان کے ساتھ انصاف نہ کر سکے۔

س: کسی پس ماندہ صوبے سے اُبھرنا، اس قدر نام کمانا ہر گز آسان نہیں، یقیناً آپ کو بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا؟

ج: ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں یک ساں سلوک نہیں کیا جاتا ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے تمام شعبے زوال کاشکار ہیں۔ شروع شروع میں تو مَیں جہاں گیا، پروپیگنڈا ہوتا کہ یہ شخص بلوچی ، براہوی زبانوں کی نمایندگی توکررہا ہے، لیکن اِس کا تعلق اُس صوبے سے نہیں، میرے خلاف باتیں بھی بنائی گئیں، لیکن مجھے ’’نیت صاف، منزل آسان ‘‘پر پورا یقین تھا، تو محنت کرتا رہا اور آگے بڑھتا رہا۔

س: آپ کی اولاد بھی فنِ موسیقی سے وابستہ ہے ؟

ج: میرا نواسا،قادر بخش اچھا گلو کار اور ہارمونیم پلیئرہے ، لیکن میرابیٹا، عبدالقیوم ،جو اچھا فن کار ہے، پچھلے پندرہ برس سے بیمار پڑا ہے ۔

س: کتنی زبانیں بول اورسمجھ لیتے ہیں؟

ج: بلوچی اوربراہوی تومادری زبانیں ہیں۔ اُردو ، فارسی ،پشتو ،برج بھاشا، سرائیکی اورسندھی زبان میں گانے گا لیتا ہوں، جب کہ پشتو اورفارسی بھی بول لیتاہوں ، بس انگریزی ذرا کم زور ہے۔

س: بھارتی گانے’’افغان جلیبی‘‘کا کیامعاملہ کیا تھا ؟

ج: ایک روز لاہور سے ایک شخص نے کسی جاننے والے کے ذریعے رابطہ کیا اورکہا’’ہم آپ سے ایک بھارتی فلم میں گانا گوانا چاہتے ہیں۔ اُن لوگوں کے ساتھ معاملات طے پاگئے۔ مَیں جب لاہور اسٹوڈیو پہنچا تو انہوںنے گانے کا اسکرپٹ دیا۔ گانے کے بول کچھ یوں تھے، ’’ افغان جلیبی، معشوق فریبی، گھائل ہے تیرا دیوانہ… بھئی واہ! بھئی واہ!‘‘ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی۔ لیکن بقیہ بول کچھ اس طرح تھے’’ مقتول جگر، قاتل ہے نظر… ایک مہ جبیں،  ایک نورِنبی ،نورِ نبی ۔‘‘ جس پر مَیں نے شدید اعتراض کیااور گانے سے انکار کردیا۔ بہر حال، میرے شدید احتجاج پرانہوں نےبول تبدیل کرکے ریکارڈنگ کی اور بعد میںوہ گانا ایک دوسرے پاکستانی گلوکار نے بھی گایا۔

س: امیتابھ بچن سےکیسے ملاقات ہوئی؟

ج: مَیں ایک فلم کے گانوں کی ریکارڈنگ کے لیےبھارت گیا تھا، تو امیتابھ بچن کرکٹ میچ دیکھنےشارجہ گئے ہوئے تھے۔اسی دوران میاں داد کی ان سے فون پر بات چیت ہوئی، تو میاں داد نے بتایا کہ’’ پاکستان سے دو گلوکار، اخترچنال اور سائیں ظہور بھارت آئے ہوئے ہیں۔‘‘بچن صاحب نے کہا ’’مَیں شام کی فلائٹ سےواپس آرہاہوں، دس منٹ کے لیے اُن سے ملاقات کرلوں گا۔‘‘

یوں ان سےہماری چائے پر ملاقات ہوئی۔رسمی علیک سلیک کے بعد ڈراویڈین بولنے والوں پر بات چل نکلی ،تو پھروہ ’’ دس منٹ‘‘ کی ملاقات، گھنٹوں پر محیط ہوگئی۔ میاں داد کی کال آئی تو کہنے لگے ’’یار! بڑے دل چسپ آدمی ہو۔ امیتابھ جیسے شخص کا وقت کتنی آسانی سے لے لیا ۔‘‘مَیں نے کہا’’ جناب! کم قیمتی توہم بھی نہیں…‘‘

س: دلیپ کمار سے بھی مل چُکےہیں؟

ج: ایک مرتبہ تو 1988ء میں فاطمید فاؤنڈیشن کے پروگرام میں معین اختر کے طفیل شریک ہواتھا ،تو ملاقات ہوئی تھی اور دوسری مرتبہ 1998ء میں پرائیڈآف پرفارمینس ملنے کے موقعے پر ملاقات ہوئی ۔دلیپ کمار کو بھی وہاں تمغہ دیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں میرے علاوہ ملکہ ترنّم ،نورجہاں ،استاد سلامت علی خان، استاداختر علی خان ،استادبڑے فتح علی خان ،سلطان راہی و دیگر شامل تھے ۔

س: پاکستان میں فن کا شعبہ زوال پذیر ہے ؟

ج: صرف فن کا شعبہ ہی نہیں، کھیلوں کاشعبہ،شعبۂ تعلیم ، الغرض جہاں بھی نظر دوڑائیں،زوال ہی زوال نظر آتاہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر اداروں میں غیر متعلقہ افراد کا عمل دخل زیادہ ہوگیا ہے۔ ان شعبوں کے اربابِ اختیار کو غیر سنجیدہ اور نافہم افراد کانوٹس لیناچاہیے۔کھلاڑی ، فن کار اور ہنر مند افراد تومُلک کا اثاثہ،سفیر ہوتےہیں۔ 

ان شعبوں کے طفیل امن کے راستے ہم وار ہوتے ہیں۔بہت حد تک میڈیا نے بھی ان شعبوں کو نظرانداز کردیاہے، کب تک چھوٹی اسکرین پرعوام کو ذہنی کوفت میں مبتلا رکھنے کا کام ہوتا رہے گا؟ عوام کو مثبت تفریح کے مواقع فراہم کرنے چاہئیںکہ شعرو ادب کے ذریعے قوم کی تربیت ناگزیر ہے ۔

س: آپ کن بڑی شخصیات سے متاثر ہیں؟

ج: شعرو ادب میں علاّمہ اقبال ،ساغر صدیقی ،عطا شاد۔سماجی شخصیات میں عبدالستار ایدھی ،فن کاروں میں الن فقیر ، ریشماں ،زرسانگہ ،روشن آرابیگم اور میرے آئیڈیل، ضیاء محی الدین ہیں، جنہیں سُن کرمجھے بولنے کا طریقہ ،الفاظ میں روح پھونکنے کاسلیقہ آیا۔ میں نے ان کی دیکھا دیکھی تحت اللّفظ میں بڑا کام کیا۔ 

قرآن شریف کی 20 سورتوں کا ترجمہ اپنی آواز میں ریکارڈ کرچُکا ہوں۔ خوانینِ قلّات پرکام کررہاہوں، ایک ناول نما ’’زوبہ ‘‘ کے نام سے لکھ چکاہوں، جسےاپنی آواز میں پیش کررہا ہوں ، جب کہ دلّی کا یادگار مشاعرہ بھی تحت اللّفظ میں ریکارڈ ہوچُکاہے ۔

س: کورونا نےکئی فن کاروں کو مفلسی کے دَر پر لاکھڑا کیا، آپ کیا کہتےہیں؟

ج: ویسے توکورونا سے پوری دنیا ہی متاثر ہوئی ہے،لیکن بلوچستان میں چوں کہ فن کی ترسیل کے ذرایع پہلے ہی محدود تھے ، توکورونااس تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ بلوچستان میں ٹی وی اور ریڈیو فن کے حوالے سے واحد سہارا ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے سبب یہ دونوں ویسے ہی اپنی افادیت کھوبیٹھے ہیں۔ 

کوئٹہ اسٹیشن سے نہ ہونے کے برابر پروگرامز ہوتے ہیںاور اسٹیج تو بہت پہلے ہی دہشت گردی کی نذر ہو چُکا۔ اب بلوچستان کے تمام فن کارمحکمۂ ثقافت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔حکومت کو فن کاروں کی مالی معاونت کرنی چاہیے، بالخصوص کورونائی ایّام میں تو فن کے لیے مختص رقم میں سے فن کاروں کی مدد کا سلسلہ فی الفور شروع ہونا چاہیے۔ 

نیز، فن کاروں کے لیے کام کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں، یعنی ریڈیو اور ٹی وی کو فعا ل کیا جائے۔ سرکاری سطح پر ہونے والی تقریبات میں بلوچستان کے فن کاروں کی زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہےکہ بعض پروگرامز میں انہیں شریک تو کیاجاتا ہے، مگر دیگر صوبوں سے آنے والے فن کاروں کی نسبت ان کا معاوضہ انتہائی قلیل ہوتا ہے۔فن و موسیقی کو باقاعدہ تعلیم کا حصہ بناناچاہیےکہ علم و آگہی کے تمام شعبے انسانی فلاح ہی کے لیے ہوتے ہیں۔

تازہ ترین