• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالبان بھی انتخابات کا حصہ بننے کے ٹریک پر آجائینگے، حامد الحق حقانی


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”جرگہ“ میں گفتگو کرتے ہوئے مہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ، جمعیت العلماء اسلام سمیع الحق گروپ کے امیرمولانا حامد الحق حقانی نےکہا ہے کہ چند برسوں بعد طالبان بھی اس ٹریک پر آجائیں گے کہ وہاں پر انتخابات کا حصہ بن سکیں،بینظیر بھٹوکے قاتلوں نے دارالعلوم حقانیہ میں ہرگز پناہ نہیں لی اس وقت ایک غلط تاثر دیا گیا۔جو لوگ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ، اسلامی یونیورسٹی اور اسلامی مدرسے سے پڑھتے ہیں ۔ 

فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ اپنے نام کے ساتھ اعزازی طور پر حقانی لکھتے ہیں۔آج سے85 سال قبل ایک طالب علم نے مسجد کے ستون پر دارالعلوم حقانی لکھ دیامدرسہ حقانی تو بزرگوں نے اس کی تصحیح کی اور اس کو کہا کہ دارالعلوم حقانیہ تو اسی دن سے دارالعلوم حقانیہ کا نام پڑ گیا۔ دارالعلوم حقانیہ کے اندر انگلش میڈیم اسکول بھی قائم ہے ۔

ڈاکٹر مولاناشیر علی شاہ مدنی،اجمل خٹک، مولانا سمیع الحق شہید،پروفیسر افضل رضا نے اس اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔اسکول کا معیار بڑھانے کے لئے ہم نے حال ہی میں طلبا کی تعداد کم کرکے500 تک کردی ہے۔ دارالعلوم حقانیہ میں طلبا کی تعدادچارپانچ ہزار ہے جو وہاں تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ رہائش پذیر بھی ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے اکوڑہ خٹک سے تعلیم حاصل کی ہے۔

میرے والدمولانا عبدالحق بھی حیات تھے جب مولانا عبداللہ درخواستی خانپور نے مولانا سمیع الحق کا انتخاب اس وقت کیا ۔ خود امیر بنے اور مولانا سمیع الحق کو اس وقت جمعیت العلما ء پاکستان کا جنرل سیکریٹری بنایا۔ایم آر ڈی میں اس وقت اختلاف کی صورت بنی کچھ علماء کا اختلاف تھا کہ ہم نے بینظیر بھٹوکی پارٹی میں نہیں جانا۔

ملا عمر نے دارالعلوم حقانیہ سے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی جو اساتذہ دارالعلوم حقانیہ سے فضلائے حقانی گئے اپنے ملک افغانستان قندھار گئے ۔ ملا عمر اسی نسبت سے اپنے آپ کوحقانیہ کے ساتھ جوڑتے تھے ۔ ہم چونکہ پاکستانی ہیں افغانستان آنا جانا ہوا ہے لیکن ہم وہاں کبھی جنگوں میں شامل نہیں ہوئے نہ کبھی پاکستانیوں سے کہا۔

ایسا کبھی نہیں ہوا کہ امریکا، یورپ ، لندن کسی کو دہشت گرد کہتا ہواور ہم نے اس کو پناہ دی ہوایسا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ہم نے ہمیشہ اپنے حالات اور موسموں کے مطابق طالب علموں کو چھٹیاں دی ہیں کبھی کسی جنگ کے لئے ہم نے خصوصی چھٹیاں نہیں دی ہیں۔مدرسہ کا نظام خیراتی سسٹم سے چل رہا ہے ہماری کوئی پراپرٹی بھی نہیں ہے جس سے کرائے آتے ہوں۔

بینظیر بھٹوکے قاتلوں نے دارالعلوم حقانیہ میں ہرگز پناہ نہیں لی اس وقت ایک غلط تاثر دیا گیا۔ مولانا سمیع الحق نے کئی مرتبہ چیلنج کیا کہ ایسا کوئی ایک نام بھی ہو یا ایک شخص بھی زندہ یا مردہ ہو تو میرے سامنے پیش کریں کہ انہوں نے دارالعلوم حقانیہ میں پناہ لی ہویا یہاں پر منصوبہ بنایا ہو یہ ساری غلط باتیں ہیں ۔

رحمٰن ملک نے اس وقت غلط بیانات دیئے ۔مولاناکے قاتل ہمیں معلوم ہیں قاتل تو بڑی سپر طاقتیں یہود و نصاریٰ تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے افغانستان میں انتقام لے لیامولانا کا خون رائیگاں نہیں ہوا۔فاتح کی کوشش ہوتی ہے کہ جو لوگ اس کے ساتھ شریک سفر تھے اور قربانیاں دیں انہیں فرنٹ پر رکھے۔

چند برسوں بعد طالبان بھی اس ٹریک پر آجائیں گے کہ وہاں پر انتخابات کا حصہ بن سکیں ایک جمہوری طریقے سے وہ پارلیمنٹ بنا سکیں ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔اگر دنیا ان کو تسلیم کرے ان کے لئے ریاستی،خارجی، سفارتی دروازے کھول دے تو دنیا ان کی بہت اچھے طریقے سے تربیت کرسکتی ہے ۔ ان کو مین اسٹریم میں ہم داخل کرسکتے ہیں۔ 

میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حقانی نیٹ ورک یہ لفظ گزشتہ دس پندرہ برسوں سے سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ۔ امریکی صدور سے لے کر ان کے سیکریٹری خارجہ تک اور مغربی میڈیا کے اہم کرداروں ان کے سفارت کاروں تک سب کی زبانوں پر یہی لفظ ہوتا تھا۔

وہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان سے بھی جوڑتا تھااور طالبان کی جدوجہد میں ان کی بنیادی کردار کا بھی تذکرہ کرتا تھا۔ اب جبکہ افغانستان کے اندر حقانی بھی حکومت میں شامل ہوگئے ہیں تو ایک بار پھر حقانی نیٹ ورک اور دارالعلوم حقانیہ کے ساتھ اس کا پاکستان کے ساتھ تعلق موضوع بحث بن گیا ہے۔ اوپر سے کسر ہمارے وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں پوری کردی ۔

پاکستان میں حقانی تو عموماً وہی لوگ اپنے ناموں کے ساتھ لکھتے ہیں جو دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں اسی طرح افغانستان میں ہمارے وزیراعظم کے بقول حقانی کوئی پشتون قبیلہ ہے بلکہ خود جلال الدین حقانی اورسراج الدین حقانی وغیرہ کا زدران قبیلے سے تعلق ہے۔افغانستان میں یہ نام گیا بنیادی طور پر جلال الدین حقانی کی وجہ سے ۔

جلال الدین حقانی 1939ء میں کارزگئی کے علاقے میں پیدا ہوئے ان کا تعلق زدران قبیلے سے تھا۔ انہوں نے اس وقت دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں تعلیم حاصل کی تھی کہ جب افغانستان کے اندرسوویت یونین کے خلاف مزاحمت کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا۔ 

تازہ ترین