• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی یا پاکستان میڈیا کنٹرولنگ اتھارٹی؟

’’اکتوبر 1958ء : پاکستان کی قانون ساز اسمبلیاں تحلیل کرکے تمام سیاسی جماعتیں کالعدم قراردے دی گئی ہیں۔ آرمی چیف، جنرل ایّوب خان نےچیف ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے مسندِ اقتدار سنبھال لی ہے۔ گھروں، محافل، دسترخوانوں پر چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ ’’مُلک میں مارشل لاء لگ گیا ہے۔‘‘ گھروں کے بڑے، بالخصوص بزرگ مزید شدّت سے اخبارات کا انتظارکرتے ہیں۔ میڈیا بھی عوام کو با خبر رکھنے کا کام پہلے سے زیادہ جاں فشانی سے انجام دینے پر مامور ہے۔

1962ء : مارشل لاء بدستور برقرار ہے،مُلک بھر کےصحافی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئےاپنی ذمّےداریوں کی انجام دَہی میں مصروف ہیں، مگر صدر کو یہ منظور نہیں کہ ان کی ایڈمنسٹریشن کے خلاف کچھ لکھا جائے۔وہ صحافیوں کو مسلسل تنبیہہ کر رہے ہیں، لیکن ’’سرکش‘‘ صحافی کچھ سُننے کو تیار نہیں، وہ حقائق لکھنے سے باز نہیں آرہے۔ لہٰذا، میڈیا کو قابو کرنے کے لیے مُلک میں پہلی مرتبہ ’’ پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس (پی پی او)‘‘ متعارف کر وایا گیاہے۔نیز،نام نہاد خود مختار ادارے ’’نیشنل پریس ٹرسٹ‘‘ کا قیام( 1964ء میں)بھی عمل میں لایا جا چُکا ہے، جس پر صحافی برادری کو سخت تحفّظات ہیں، لیکن کوئی کچھ نہیں کہہ سکتاکہ سب کی زبانیں بند کرنے تمام انتظامات بھی موجود ہیں۔

اگست1973ء : پاکستان میں ایک طویل عرصے بعد جمہوری حکومت قائم ہوچُکی ہے۔کم از کم صحافی تو بے حد خوش ہیں کہ اب پابندیاں ختم ہوجائیں گی، صحافت آزاد ہوجائے گی، مگر افسوس کہ صحافت پرہنوز آمریت کے سائے ہیں۔ آزادیٔ رائے کو فروغ دینے کے بجائے موجودہ جمہوری حکومت این پی ٹی کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔تنقید کرنے، حکومت مخالف خبریں لگانے پر مدیران پابندِ سلاسل کیے جا رہے ہیں۔

جولائی 1977ء : وطنِ عزیز میں ایک بار پھر مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔ یہ دَور میڈیا کے لیے انتہائی سخت اور بد ترین ثابت ہو رہا ہے۔ پی پی او میں ترامیم کر کے اسے ’’ریوائزڈ پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈینینس (آر پی پی او)‘‘کا نام دیا گیا ہے۔جس کی رُو سے کسی کو بھی حکومت کے خلاف کچھ کہنے ، خبریںلگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔مزاحمت کر نے والے صحافیوں کوکوڑے مارے جا رہے ہیں، پابندِ سلاسل کیا جا رہا ہے۔ نیز،’’ پرِی پبلی کیشن سینسر شِپ‘‘ بھی متعارف کروا دی گئی ہے، جس کے تحت تمام اخبارات قبل از اشاعت چیک کیے جائیں گے اور ہرقابلِ اعتراض خبر فی الفور سینسر کر دی جائے گی۔ ‘‘

اس طرح پاکستان کی سات دہائیوں میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، وطنِ عزیز کبھی آمریت کےزیرِ سایہ رہا ،توکبھی نام نہاد جمہوریت کی آغوش میں، لیکن صحافت اور صحافی ہر دَور ہی میں کسی نہ کسی طور پابندیوں میں جکڑے نظر آئے۔نواز حکومت کی بات کریں ، تو اس میں این پی ٹی کی نج کاری کے ذریعے متعدّد صحافیوں کو بے روز گار کیا گیا، تو بدامنی پھیلانے کے الزام میںکچھ مدیران جیل بھی بھیجے گئے۔ کبھی سرکاری اشتہارات پر غیر علانیہ بندش لگا دی گئی،تو کبھی صحافیوں کے خلاف پراپیگنڈا مہم شروع کی گئی۔

مشرّف دَور میں میڈیا نے آزادی کی سانس تو لی کہ بیش ترنجی چینلز کا قیام اِسی دَور میں وجود میں آیا، 2002ء میں پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوئی، جس نے بے شمار نجی چینلز اور ایف ایم ریڈیوز کو لائسینز جاری کیے۔اسی طرح پریس کاؤنسل آف پاکستان ،2002ء،پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن(پی بی اے) وغیرہ جیسی میڈیا ریگولیٹری باڈیز کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ میڈیامنظّم انداز سے قوانین کے تحت کام کر سکے،لیکن جب اُسی میڈیا نے حکومت پر تنقید کی تو اُسے کڑی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔اور یوں ہر حکومت ہی نےصحافت کو اپنے مفادات کے تحت استعمال کرنے کی روش جاری رکھی ، جو تاحال برقرار ہے۔

دنیا بھر میں ’’میڈیا ‘‘ریاست کا چوتھا ستون تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن اِن دِنوں حکومتِ پاکستان’’ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے)‘‘ کے قیام کےذریعے اس ستون کو پابندیوں میں جکڑنے کے دَر پے ہے،جس کے لیے گزشتہ دنوں اسمبلی میں باقاعدہ بِل پیش کرنے کی باز گشت بھی سُنی گئی ،مگر اس حوالےسےصحافتی حلقوں میں بےشمار تحفظات پائے جاتے ہیں۔دَر حقیقت، مُلک کا ہر صحافی اور صحافتی ادارہ اس مجوّزہ قانون کو ماننے سے انکاری ہےاوراس کی بنیادی وجہ پی ایم ڈی اےکا اصل مسوّدہ ہے، جو سرکاری طور پر کسی فریق کو نہیں دیا گیا۔

کہا جا رہا ہے کہ اگر پی ایم ڈی اے کا قیام عمل میں آگیا ،تو اس کے بعد حکومت پر تنقید کرنا ناممکن ہوجائے گاکہ یہ قانون بنیادی طور پر اختلافی آوازوں کو دَبانے ہی کی ایک کوشش ہے۔ صرف اخبار ات ہی نہیں ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا کنٹرول بھی مکمل طورپرحکومت کے ہاتھ میںچلا جائے گا۔بِل میں میڈیا ٹریبیونل کی تشکیل کے حوالے سے شامل ایک شِق کے تحت، حکومت کو تین سے پانچ سال تک قید اور کروڑوں روپےجرمانے کی سزا دینے کا اختیار ہوگا، جسے صرف عدالتِ عالیہ ہی میں چیلنج کیا جا سکے گا۔

یعنی محض ایک پوسٹ، ٹویٹ یاخبر کسی کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کے لیے کافی ہوگی۔ البتہ بِل میں ایک ایسی شِق بھی ہے، جس کے تحت صحافیوں کو بلا وجہ ملازمت سے بر طرف نہیں کیا جا سکے گا،جو خوش آئند ہے۔ حکومتی ترجمان اس قانون کو نافذ کرنےکی یہ دلیل دیتے ہیںکہ اس طرح جعلی خبروں کاخاتمہ ہوجائے گا،حالاں کہ جعلی خبروں کے پھیلاؤ میں کون سب سے آگے آگےہے، اب یہ بات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیںرہی۔اور یہ بھی ایک عمومی تصوّر ہے کہ عام صحافی کی پریشانیوں سے نہ تو حکومت کو کوئی غرض ہے اور نہ ہی میڈیا مالکان کو۔

فوّاد چوہدری
فوّاد چوہدری

’’پیمرا اور دیگر میڈیا ریگولیٹری باڈیز کے ہوتے ہوئے، پی ایم ڈی اے کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟‘‘ یہ سوال ہم نے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات، فوّاد چوہدری سے پوچھا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’ ریگولیشن کے موجودہ نظام میںکوئی نصف درجن تو فرسودہ قوانین رائج ہیں، جو جدید دَور کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے۔ یہ تمام قوانین ڈیجیٹل انقلاب سے پہلے بنائے گئے ۔ اس وقت7 ریگولیٹری باڈیز پیمرا، پریس کاؤنسل آف پاکستان، پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی، سینٹرل بورڈ آف فلمز سینسرز، پریس رجسٹرار آفس، آڈٹ بیورو آف سرکولیشن اور امپلی منٹیشن ٹریبیونل برائے نیوز پیپرز ایمپلائز ،میڈیا اداروں کو چلا رہی ہیں، جب کہ ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کسی ریگولیٹری فریم وَرک کے تحت ہی نہیں ہیں۔

آج کے جدید دَور میں چوں کہ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات ایک موبائل فون میں سما چُکے ہیں، توان تمام ذرایع ابلاغ کے لیے الگ الگ نہیں، واحد ریگولیٹری اتھارٹی کی اشد ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ، ڈیجیٹل اور اُبھرتے ہوئے دیگرمیڈیا پلیٹ فارمز ریگولیٹ کیے جائیں ۔بہت سے لوگ اس مجوّزہ بِل کو ’’کالا قانون‘‘ کہہ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیںکہ جیسے یہ صحافیوں کے خلاف ہے، لیکن مَیں آپ کے پلیٹ فارم سےیہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ اتھارٹی صحافیوں کی سہولت ہی کے لیے ہے، اس کے نفاذسے تنقید کا حق ہر گزمتاثر نہیں ہوگا۔

مجوّزہ اتھارٹی کے تحت صحافی اپنی شکایات کے لیے رجوع کر سکیں گے، صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے حقوق کا تحفّظ یقینی بنانے کے ساتھ مُلک میں صحت مند اور مثبت صحافت کو فروغ ملے گا ، جب کہ جعلی خبروں کا تدارک ہوگا۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت میڈیا ورکرز سے فورسڈ لیبر کی طرح کام کروایا جا رہا ہے، انہیں کانٹریکٹ تک نہیں دیا جاتا، ڈی ایس این جی کے ڈرائیورز اور این ایل ایز کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لیے کوئی راستہ تک موجود نہیں۔ ہم نے میڈیا اداروں کو 75 کروڑ روپے کی ادائیاں کیں، لیکن اس کے باوجود کئی اداروں میں صحافی اور میڈیا ورکرزکئی کئی مہینوں سے تن خواہوں سے محروم ہیں۔ 

نیز، متعدّد میڈیا ورکرز اور صحافیوں کو بلا وجہ ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے، تو مجوّزہ اتھارٹی میں صحافیوں کے مسائل اور شکایات کے حل کے لیے میڈیا کمپلینٹ کمیشن موجود ہوگا، جس میں الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا سے منسلک تمام صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی شکایات پر 21 روزکے اندر فیصلہ یقینی بنایا جائے گا،جب کہ اس وقت صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو اپنے مقدّمات کے فیصلوں کے لیے برسوں انتظار کر نا پڑتا ہے۔یاد رہے، یہ’’میڈیا کمپلینٹ کمیشن ‘‘کراچی، لاہور، ملتان، سکھر،کوئٹہ،پشاور اور اسلام آباد میں کام کرےگا۔ ‘‘ ’’کیا اس بِل کو تجویز کرتے ہوئے یا تیاری میں میڈیا اسٹیک ہولڈرز/ صحافیوں سے بھی مشاورت کی گئی؟‘‘

ہمارے اگلے سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے بتایا کہ’’مجوّزہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مسوّدے کی تیاری میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت ہماری اوّلین ترجیح رہی ہے۔ وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات، فرّخ حبیب کی قیادت میں بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے تمام صحافتی تنظیموںبشمول، اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے ،پی ایف یو جے اور پریس کلبز کے عہدے داران کے ساتھ اجلاس منعقد کیے۔ اس کے علاوہ مشاورت کے لیے مختلف صحافتی تنظیموں کے ساتھ وقتاً فوقتاً رابطہ بھی ہوا اور صحافیوں اور میڈیا تنظیموں کے تحفّظات دُور کیے گئے۔

نیز،پی ایم ڈی اےکے مسوّدے کی تیاری میں تمام صحافتی تنظیموں کے ساتھ مشاورت کا عمل تا حال جاری ہے۔ حکومت اس بِل پر تمام فریقین کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ گزشتہ دِنوں مجوّزہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بارے میں پی بی اے، اے پی این ایس، سی پی این ای، پی ایف یو جے،ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیاایڈیٹرز اینڈنیوز ڈائریکٹرز اور وزارتِ اطلاعات کے نمایندوں پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس کے اجلاسوں میں جعلی خبروں، بالخصوص سوشل میڈیا پر چلنے والی جعلی خبروں، میڈیا ورکرز کے حقوق سمیت قوانین اور ریگولیٹری فریم ورک کی مزید بہتری جیسے معاملات زیرِ بحث آئیں گے۔ 

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اس اتھارٹی کے قیام کا فائدہ صرف میڈیاورکرز یا صحافیوں ہی کو نہیں،عوام کو بھی ہوگاکہ واٹس ایپ اور ٹِک ٹاک کے متاثرین کے لیے موجودہ ریگولیٹری قوانین میں کوئی نظام سِرے سے موجود ہی نہیں، جو اس طرح کی شکایات حل کر سکے۔ پی ایم ڈی اے ایسا ادارہ ہوگا، جو عوامی مفادات میں خدمات انجام دینے والے تمام اسٹیک ہولڈرز کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ اور یہ نئی اتھارٹی، ڈویلپمنٹ، جدّت، ڈیجیٹل اکانومی، تربیت اور تحقیق پر توجّہ مرکوز رکھے گی۔ ‘‘

عظمیٰ بخاری
عظمیٰ بخاری

پی ایم ڈی اے کے حوالے سے سیکریٹری انفارمیشن، پنجاب،پی ایم ایل (نون) کی عظمیٰ بخاری کا کہنا ہےکہ ’’انتہائی حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ اقتدار میں آتے ہی اس حکومت کا پہلا شکار میڈیا بنا۔ وہ میڈیا، جو عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے میں پیش پیش رہا، لیکن پی ٹی آئی حکومت نے عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے اپنے ناپسندیدہ اینکرزکو ملازمتوں سے فارغ کروایا۔ انٹرویوز، ٹِکرز، خبریں تک اپنےکنڑول میں کیں اور اب اس میڈیا اتھارٹی کی آڑ میں بہت منظّم انداز سے پورے میڈیا کو قابو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 

ہماری جماعت ہمیشہ سے آزادیٔ صحافت کے حق میں ہے، یہی وجہ ہے کہ جب صحافیوں نے پی ایم ڈی اے کے خلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا تو ہم ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ایک طرف تووزارتِ اطلاعات کہتی ہے کہ اس قانون میں کچھ بُرا نہیں ہے، تو دوسری جانب مسوّدہ دکھانے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔

یاد رکھیں، میڈیا ریاست کا چوتھا ستون، ایک واچ ڈاگ کی حیثیت رکھتا ہے، اگر اسے ہی ہائی جیک کرلیا گیا، پابندیوں میں جکڑا گیااور آزادانہ طور پر کام نہیں کرنے دیا گیا تو یہ اپنی حیثیت کھو بیٹھے گا، جو ریاست، عوام اور سیاست دانوں کسی کے حق میں بھی کسی طور بہتر ثابت نہیں ہوگا۔ ‘‘

حافظ نعیم الرحمٰن
حافظ نعیم الرحمٰن

امیرِ جماعتِ اسلامی، کراچی، حافظ نعیم الرحمٰن کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ’’ ہم اس مجوّزہ بِل کی سخت مخالفت کرتے ہیںکہ آزادیٔ رائےجمہوری ریاستوں کا حُسن ہے، لیکن میڈیا کو بھی سوچنا چاہیے کہ آخر اس طرح کی کسی اتھارٹی کی نوبت کیوں آئی۔ آج کا میڈیا با خبر تو ہے، لیکن بد قسمتی سےیہ اینٹر ٹینمنٹ کے نام پر حد درجہ فحاشی و بد تہذیبی پھیلانے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ آج کل جس قسم کے ڈرامے اورشوز آن ائیر ہورہے ہیں، انہیں فیملی شوز تو ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔ 

دوسری جانب، مالکان کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ ملازمین کو اپنا خون پسینہ ایک کرنے کے عوض کیادے رہےہیں۔ وہ ملازمین، جو اُن کے چینلز، اخبارات، رسائل و جرائد کو بلندیوںپر پہنچانےکے لیے دن رات محنت کرتے ہیں، اُنہیں مالکان کتنی سہولتیںیا مراعات فراہم کرتے ہیں…؟‘‘

’’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہےاور اسے صحافتی تنظیموں، صحافیوں کی اکثریت کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہاہے؟‘‘ ہم نے پوچھا تو گزشہ پانچ دَہائیوں سے صحافتی خدمات میں مصروف سابق گروپ ایڈیٹر، روزنامہ جنگ اور انتہائی زیرک صحافی، محمود شام اپنے روایتی انداز میں کچھ یوں گویا ہوئے کہ’’صحافت اور صحافیوں پر قدغنیں لگانا، پابندِ سلاسل کرنا یا قوانین کی آڑ میں پابندیوں میں جکڑنا کوئی نئی بات نہیں کہ ہم نصف صدی سے زائد عرصے سےان ہی جکڑ بندیوں کا مقابلہ کرتے آرہے ہیں۔ ہم نے ایّوب خان کے دَور میں پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈینینس میں بھی صحافتی ذمّے داریاں ادا کیں اورضیاء دَور کی ’’پرِی پبلی کیشن سینسر شِپ ‘‘ کا دَور بھی دیکھا۔

محمود شام
محمود شام

اس حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ جب پہلی مرتبہ پرِی پبلی کیشن سینسر شِپ نافذ العمل ہوئی اوررات کے آخری پہر (اخبارات اُسی وقت اشاعت کے لیے جاتے ہیں)، تمام اخباری نمایندے اپنے اپنے اخبار کی کاپی لے کرآن ڈیوٹی کرنل صاحب کو دِکھانے گئےکہ جنہیں سینسر شِپ کے تحت شایع ہونے والے اخبارات کےمواد کا جائزہ لینا تھا، تو وہ دیکھ کر فرمانے لگے کہ ’’ تمام اخبارات کی شہہ سُرخی ایک ہی ہونی چاہیے‘‘ ظاہر ہے وہ صحافتی تیکنیک اور باریکیوں سے نابلد تھے، تو پھر اُنہیں سمجھایا گیا کہ ایسا نہیں ہوتا، ہر اخبار کا کام کرنے کا اپنا طریقہ اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ 

خیر، اُس زمانے میں پابندیوں کے با وجود کام کرنے میں مزہ آتا تھا کہ کٹھن حالات ہی صلاحیتیں نکھارتے ہیں۔ حالاں کہ اخباری مالکان ، ما سوائے ایک، دو کے،حکومتی پابندیاں بخوشی قبول کرلیتے تھے ، لیکن اُن وقتوں کے مدیران اس قدر ذہین اور باصلاحیت ہوتے تھےکہ اپنی بات کسی نہ کسی طور عوام تک پہنچا ہی دیتے تھے، جب کہ آج کل مدیران اس قدر با اختیار نہیں۔ جہاں تک بات ہے موجودہ دَور اور صحافت کی، تومیرا خیال ہے کہ آج میڈیاجس قدر تیز رفتار ہو چُکا ہے،تو اس کے لیے کچھ قواعد وضوابط تو ہونےہی چاہئیں۔ ویسے تو ہر شعبے کی ترقّی میں قواعد و ضوابط انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن قوانین بنانے میں باہمی مشاورت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یا تومیڈیا ریاست کے کنٹرول میں آجائےیا بالکل ہی بے قابوہوجائے، تو اعتدال ضروری ہے۔‘‘

مظہر عبّاس
مظہر عبّاس

سینئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری جنرل، مظہر عبّاس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’ یہ مجوّزہ بِل نہیں، ’’Confusion‘‘ اور ایوب خان کے زمانے میں نافذالعمل ’’پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈینینس‘‘ کی جدید شکل ہے۔ پھر ایک بات تو میری سمجھ سے بالکل بالاتر ہے کہ جب تمام ذرایع ابلاغ کے لیے الگ الگ ریگولیٹری ادارے موجود ہیں، تو انہیں ایک نئے ادارے میں ضم کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جہاں تک جعلی خبروں کامعاملہ ہے، تو اس حوالے سے پہلے سے رائج قوانین میں ترامیم کرلیں۔ دَر حقیقت، حکومت پی ایم ڈی اے کے نام پر ایک ایسا ادارہ قائم کرنا چاہتی ہے، جو صرف اس کے اشاروں پر چلے، جس کے ذریعے میڈیا کو قابو کیا جا سکے۔

ویسے تو وزیرِ اطلاعات صاحب فرما رہے ہیں کہ اس سے صحافیوں کو بڑا فائدہ ہوگا، لیکن اسی مجوزہ بل کے مطابق ہر 1،2 سال بعد اخبارات اور چینلز کواپنا لائسینس ری نیو کروانا ہو گا، یعنی ناپسندیدہ میڈیا ہاؤسز کو قانون کی آڑمیں بند کیا جا سکے گا۔ ذرا سوچیں کہ جب ادارہ ہی بند ہوجائے گا ،تو ملازمین کہاں جائیں گے؟ اس سے ان کا کیا فائدہ ہوگا؟میرے خیال میں تویہ مجوّزہ بِل سوائے آئی واش کے اور کچھ نہیں۔‘‘

سینئر صحافی اور منفرد اندازِ بیاں کے حامل ، سلیم صافی کہتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں اسے ’’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘ نہیں، بلکہ ’’پاکستان میڈیا ڈی مولِش اتھارٹی‘‘کہنا چاہیے۔ اس پورے بِل میں کوئی ایک بات بھی میڈیاکے فائدے کی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس بِل کو لانے کی بات کرکے حکومت خود گھبرا گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تک اس حوالے سے کوئی حکومتی نمایندہ کُھل کر بات نہیں کر پا رہا۔اگر حکومت کو صحافیوں کا اتنا ہی خیال ہے تو سرکاری اشتہارات ملازمین سے مشروط کردےاور ملازمین کے فائدے ہی کے لیے سرکاری اشتہارات دے۔مَیں تو بس اتنا ہی کہوں گا کہ فی الحال تو اس بِل کی بات دَب گئی ہے، لیکن اس حوالے سے تمام صحافتی تنظیموں اور میڈیا ہاؤسز کو متحد رہ کر اسے کسی صُورت منظور نہیں ہونے دینا چاہیے۔‘‘

فہیم صدّیقی
فہیم صدّیقی

بیوروچیف، جیو نیوز، کراچی اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری، فہیم صدّیقی نے اس ضمن میںکچھ یوں اظہارِ خیال کیا کہ ’’ویسے تو اس مجوّزہ اتھارٹی میں کئی معترضہ نکات ہیں، لیکن بنیادی طور پر 3نکات کی وجہ سے ہم نے اسے یک سر مسترد کیا، جن میں پہلی اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ اگرکسی صحافی کی کسی بھی خبر پر اعتراض اُٹھایا جاتاہے یا اسے غلط سمجھا جاتا ہے، تو اتھارٹی اس پر10کروڑ روپے تک جرمانہ کر سکے گی۔ہم سب ہی جانتے ہیں کہ مُلک کا عام صحافی، چند ہزارروپوں کی نوکری کرکے بمشکل اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے، تو ایسے حالات میں اگر اس پر جرمانہ ہوگیا ، تو وہ یہ خطیر رقم کیسے اور کیوں کر ادا کرسکے گا۔اور سچ کہوں تومسئلہ صرف جرمانے کا بھی نہیں ، بلکہ اس سوچ، نظریے اور فکر کا ہے، جو ان جرمانوں کے ذریعے پروان چڑھے گی۔ 

یعنی اس سے یہ پیغام دیا جائے گا کہ اب تمہیں ہماری مرضی کے مطابق چلنا پڑے گا، ورنہ جرمانے بھی ہوں گےاور نوکریوں سے بھی نکال دیا جائے گا، کیوں کہ جب کسی صحافی پر جرمانہ ہو گا ، تو ادارہ بھی ایسے صحافی کو مزید نہیں رکھنا چاہے گا۔ اس طرح اداروں کو ڈاؤن سائزنگ پر مجبور کیا جائے گا۔ اور ایک صحافی کی بر طرفی فردِ واحد پر نہیں، اس کےپورے خاندان پر اثر انداز ہوگی ۔ ذرا سوچیں کہ ایک غلط فیصلہ کتنی زندگیاں متاثر کرے گا۔

دوسری بات یہ کہ جرمانے کا فیصلہ چیلنج کرنےکے لیے صوبائی عدالت ، جیسے سندھ ہائی کورٹ نہیں، سپریم کورٹ جانا پڑے گا، تو وہ صحافی، جو موٹر سائیکل میں پیٹرول بھی مشکل سے ڈلواپاتا ہے، اسلام آباد جانا کیسے افورڈ کر ے گا؟ اور چلیں کسی طرح عرضی کے لیے اسلام آباد چلا بھی گیا، تو وہاں رہائش، وکیل کی فیس اور بعد میں تاریخوں پر حاضری کیسے یقینی بنا پائے گا؟ یہ وہ چند بنیادی باتیں ہیں، جن کے سبب ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت نے اس بِل کےذریعےآزادیِ صحافت اور آزادیِ رائے پر قد غن لگانے کی کوشش کی ہے۔ 

علاوہ ازیں، ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں جو مسوّدہ موصول ہوا ہے، اس میں لکھا ہے کہ ایک 21گریڈ کا آفیسراس بات کا ذمّے دار ہوگا کہ وہ حکومت کی پالیسی مِن و عن تسلیم کروائے۔ اب حکومت کی کیا پالیسیز ہیں، یہ کسی سے پوشیدہ تو نہیں۔ اس طرح تو مُلک میں موجود تمام اداروں کی حیثیت سرکاری ٹی وی یا اخبارات کی سی ہو کر رہ جائے گی۔ عام آدمی سے تو جاننے کا حق ،جسے ’’Right To Information‘‘ کہا جاتا ہے، وہی چِھن جائے گا، حالاں کہ ایک آزاد جمہوری معاشرے میں یہ عوام کا بنیادی حق ہوتا ہے کہ وہ جانیں کہ مُلک میں ہو کیا رہا ہے۔‘‘ 

’’ اس میں یہ نکتہ بھی تو شامل ہے کہ ملازمین کو غیرضروری طور پر برطرف نہیں کیا جا سکے گا، اس طرح تو یہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے حق میں ہے؟‘‘ہمارے اس سوال پر فہیم صدّیقی نے وضاحت کی کہ ’’حکومت کا یہ کہنا ہے کہ اس میں بہت سے ایسے نکات ہیں، جن سے میڈیا ورکرز اور صحافیوں کو فائدہ ہوگا، تو مَیں اس بات سے بالکل اتفاق کرتا ہوں، بلکہ میرا سوال یہ ہے کہ صحافیوں یا میڈیا ورکرز کے لیے جوقوانین پہلے سےموجود ہیں، جو مالکان کو صحافیوں کو اُن کے حقوق دینے کا پابند کرتے ہیں، تو آپ نے آج تک ان پر عمل در آمد یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ 

انٹرنیشنل ٹریبیونل فار نیوز پیپر ایمپلائیز (آئی ٹی این ای) کے نام سے جو ٹریبیونل قائم ہے،جہاں ورکرز اپنی شکایات لے کر جاتے ہیں، اس میں گزشتہ 6، 7 ماہ سےکوئی جج ہی نہیں ہے، اس حوالے سے حکومت کیا کر رہی ہے؟ آئی ٹی این ای کو بجٹ کیوں نہیں دیا جاتا؟ اس کے دفاتر کیوںقائم نہیں کیےجاتے؟ہم ایک طویل عرصے سے مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ آئی ٹی این ای کا جج صوبائی سطح پر لگایا جائے کہ ایک ہی جج پورے مُلک کے کیسز کی سماعت کرتا ہے۔نیز، اگر آپ کو جعلی خبروں کے حوالےسے تحفطّات ہیں،تو پیمرا اور پیکا میں موجود شقوں کے تحت کارروائی عمل میں لائیںاور ماضی کی حکومتوں نے ایسا کیا بھی ہے۔

ہمارا بس اتنا کہنا ہے کہ ایک نئی اتھارٹی بنا کر مرکزیت قائم کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے سے رائج قوانین میں بہتر ی لائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں اسے ’’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘ نہیں’’پاکستان میڈیا کنٹرولنگ اتھارٹی ‘‘کہتا ہوں۔یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کی اسی طرح کی ایک کوشش مسلم لیگ (نون)کے دَور میں بھی کی گئی تھی، جب مریم اورنگزیب وفاقی وزیرِ اطلاعات تھیں، لیکن اس وقت بھی صحافتی تنظیموں اور میڈیا کی جانب سے اس قدر سخت ردّ ِ عمل کا اظہار کیا گیا کہ بات وہیں ختم ہو گئی۔‘‘

شہزادہ ذوالفقار
شہزادہ ذوالفقار

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر، شہزادہ ذوالفقار نے اس حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ جس وقت ہمیں علم ہوا کہ حکومت یہ’’صحافت دشمن‘‘ بِل لانے کا سوچ رہی ہے، تو ہم نے اسے فوری چیلنج کرتے ہوئے سخت ردّ ِ عمل کا اظہار کیا۔ اُس کے بعد سی پی این ای، اے پی این ایس ، پی بی اے وغیرہ بھی ہمارے ساتھ متّحد ہوگئے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ نہ صرف صحافتی ، بلکہ سیاسی جماعتوں ، وکلابرادری اور ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی ہمارا بھر پور ساتھ دیا اور مظاہروں میں بھی ہمارے ساتھ شرکت کی۔

یہ ہمارے اتّحاد ہی کا نتیجہ ہے کہ حکومت پی ایم ڈی اے لانے میں تا حال کام یاب نہیں ہو سکی اور اب میڈیا اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت ہی سے بِل پر کام ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ میڈیا اتھارٹی کے قیام سے صحافیوں کو فائدہ ہوگا، اگر ہماری اتنی ہی فکر ہے تو اتنے ماہ میں آئی ٹی این ای کا جج کیوں مقرّرنہیں کیا گیا؟ اور اس بِل کے نافذالعمل ہونے کا صرف صحافیوں پر نہیں، ہر شہری پر اثر پڑے گا کہ کوئی بھی ٹویٹ، پوسٹ وغیرہ چیلنج کی جا سکے گی اور اسی بنیاد پر سزائیں بھی دی جائیں گی۔ 

ایّوب خان کے زمانے میں بھی سخت قوانین اور پابندیاں تھیں، لیکن اس قدر سخت سزائیں تو مارشلائی دَور میں بھی رائج نہیں تھیں،جتنی حکومتِ وقت دینے کی کوشش کررہی ہے۔جس مُلک میں دو وقت کی روٹی عام آدمی کی پہنچ سے دُور ہو ، وہاں کروڑوں روپے کا جرمانہ کون بھر سکے گا…!! اس لیےقوانین بس ایسے ہی نہیں بہت سوچ سمجھ کر بنانے چاہئیں۔‘‘اسی ضمن میںجنرل سیکریٹری، کے یو جے (دستور)، موسٰی کلیم نے کہا ’’مجوّزہ قانون سے نہ صرف میڈیا انڈسٹری ،بلکہ پورا معاشرہ متاثر ہوگا کہ کوئی بھی ٹویٹ، خبر، نظریہ یا اظہار ،جملۂ معترضہ قرار دے کرفرد کو ٹریبیونل کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔

موسٰی کلیم
موسٰی کلیم

نیز، سزائیں بھی قابلِ برداشت نہیں کہ کروڑوں روپے کے جرمانے، 3سے 5 سال کی قیدعام آدمی کہاں سے برداشت کر سکے گا۔یہی نہیں، قانون کی آڑ میں میڈیا ہاؤسز پر چھاپے مارے جا سکیں گے ،ہوسکتا ہے اس طرح انہیں بندشوں، پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑے۔ جب میڈیا ہاؤسز ہی پابندیوں کی زَد میں آجائیں گے ، تو پھر حکومت کیسے کہہ رہی ہے کہ متذکرہ قانون سے صحافیوں کا بھلاہوگا۔سچ تو یہ ہے کہ اس سے صحافی اور صحافت دونوں ہی کوسخت نقصان پہنچے گا۔‘‘

حکومتی، صحافتی مشترکہ کمیٹی کا قیام

حکومت اور میڈیا انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈرز نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) پر بات کرنے اور جائزہ لینے کے لیے مشترکہ ایکشن کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔یہ اتفاق پی بی اے، اے پی این ایس، سی پی این ای، پی ایف یو جے کے مختلف دھڑوں اورایمنڈ کے نمایندوں کی وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات، فواد چوہدری اور وزیرِ مملکت برائے اطلاعات فرّخ حبیب کے ساتھ ملاقات میں کیا گیا۔ کمیٹی بالخصوص سوشل میڈیا پر جعلی خبروں، میڈیا ورکرز کے حقوق و قوانین اور ریگولیٹری فریم ورک میں مزید بہتری لانے کے طریقوں پر غور کرے گی۔

تازہ ترین