معاشی، سیاسی چیلنجز: وزیراعظم کا کڑا امتحان

April 21, 2022

پاکستان میں نئی حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف کو عالمی طاقتوں جن میں امریکہ روس چین سمیت اہم ممالک جن میں سعودی عرب برطانیہ ترکی ابوظہبی شامل ہے کی جانب سے مبارک باد کے پیغامات اور نئی حکومت کے ساتھ دو طرفہ تعاون کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا جارہا ہے اور بعض ملکوں نے اس ضمن میں عملی اقدامات کے لیے تاخیر کو وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔

جس سے ان ممالک کی پاکستان میں نئی حکومت سے تعاون کی خواہش کا اظہار ہوتا ہےکل لیکن داخلی سطح پر سیاسی صورتحال کے پیش نظر حالات اشارے کر رہے ہیں کہ نئی حکومت کو سیاسی عدم استحکام سے باہر نکلنے میں خاصا وقت لگے گا گو کہ وزیراعظم شہباز شریف کو اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد کابینہ بنانے اور حلف برداری کا آٹھ دن انتظار کرنا پڑا اور ابھی تک بعض حوالوں سے صورتحال مکمل طور پر واضح نہیں ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی بجائے نشستوں سے مستعفی ہوکر جلسے اور جلوسوں کے ذریعے حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کیلئے کتنا موثر اور کتنا ناکام رہے گا اس کا واضح فیصلہ تو مستقبل قریب میں ہی سامنے آئے گا۔ لیکن مستعفی کرائے جانے والے ارکان اسمبلی میں اس حوالے سے صرف بحث ہی نہیں بلکہ بعض سطح پر ’’مشاورت‘‘ بھی ہورہی ہے۔ واضح رہے کہ اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کا فیصلہ، اجتماعی ہرگز نہیں تھا اور بڑی تعداد میں ارکان اس فیصلے پر تحفظات بھی رکھتے تھے۔

قومی اسمبلی میں سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے 123 ارکان کے استعفے منظور کر لئے تھے۔ اس لئے اب قومی اسمبلی کا ایوان اپوزیشن (پی ٹی آئی) کے ارکان سے خالی ہے تاہم ان میں پی ٹی آئی کے وہ ارکان شامل نہیں ہیں جنہیں ’’منحرفین‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ 20 سے 25 کے درمیان یہ اراکین کیا پاکستان تحریک انصاف کا فاروڈ گروپ بناکر ایوان میں اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے اور بتدریج اپنی تعداد میں ’’ اضافہ‘‘ کرنے کیلئے بھی کوششیں جاری رکھیں گے اس کا انحصار آنے والے حالات پر ہوگا۔ تاہم شاہ محمود قریشی، سید فخر امام اور علی محمد خان ان ارکان میں اعلانیہ شامل تھے جنہوں نے مستعفی ہونے کی مخالفت کی تھی جبکہ شیخ رشید، فواد چوہدری قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دینے کے پرزور حامی تھے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اہم فیصلوں میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان مشاورت بھی آئین کا حصہ ہے جن میں نگران وزیراعظم اور نیب کے چیئرمین کے ناموں کا انتخاب بھی شامل ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف موجودہ صورتحال میں اپنے اس استحقاق سے بھی محروم ہوچکی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار میں آنے سے اور اقتدار سے اس کی رخصتی جس انداز سے ہوئی اور اس دوران جو واقعات پیش آئے ان سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہوا ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ تھا کہ عمران خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جنہیں آئینی اور قانونی طریقے سے متحدہ اپوزیشن کے ارکان اسمبلی نے ان پر عدم اعتماد کرتے ہوئے تحریک کے ذریعے ان کی حکومت کو ختم کیا اس سے قبل دو وزرائے اعظم محترمہ بینظیر بھٹو اور شوکت عزیز کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں پیش کی گئی تھی لیکن وہ دونوں ہی ناکام ہوئیں اور اسی تناظر میں خیال کیا جارہا تھا کہ اس مرتبہ بھی تاریخ خود کو دہرائے گی لیکن ایسا نہ ہوا اور اس طرح عمران خان کا نام پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس حوالے سے ایک منفرد حیثیت پا گیا کہ وہ ملک کے ایسے وزیراعظم تھے جنہیں نہ صرف اپوزیشن کے ارکان نے بلکہ خود ان کی جماعت کے (منحرفین)ارکان کی حمایت سے منصب سے ہٹایا گیا۔

اصولی طور پر تو اس کے فوری بعد انتقال اقتدار کا مرحلہ شروع ہوجانا چاہئے تھا لیکن وزارت عظمیٰ کے منصب سے محروم ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے اس عمل میں اتنی پیچیدگیاں، رکاوٹیں اور تعطل پیدا کیا، کبھی ۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر حتیٰ کہ ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے انکار کرکے حلف لینے سے انکار کیا اور کبھی اعلیٰ عدالتوں کے احکامات سے بھی انحراف کیا لیکن اس سعی لاحاصل کے باوجودو اب وزیراعظم شہباز شریف قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف اور ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ عباسی اپنے مناصب پر فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن صرف یہی نہیں دوسری طرف اقتدار سنبھالنے کے بعد نئی حکومت کے سامنے جو چیلنجز پیش تھے ان میں اولین اور سرفہرست کابینہ کی تشکیل تھی اور یہ بھی سیاسی تاریخ کا پہلا موقعہ تھا کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی کابینہ کے اراکین کے انتخاب میں اتنی تاخیر کرنی پڑی۔

گوکہ وزراء بنائے جانے کے فیصلے کافی عرصہ پہلے ہی کر لئے گئے تھے لیکن معاملات ’’پسندیدہ وزارتوں‘‘ اور دیگر اہم انتظامی اور آئینی مناصب کے مطالبوں اور تقاضوں پر تاخیر کا بڑا سبب بنے۔ پھر متحدہ اپوزیشن میں شامل 12 جماعتوں کو اس حوالے سے راضی رکھنا ایک انتہائی دشوار ترین کام تھا کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک محض دو یا تین ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئی اور اس کیلئے جتنے جتن کئے گئے وہ بھی سیاسی مورخین ’’یاد رکھیں‘‘ گے اس سارے عمل میں کئی سیاسی گھرانوں کا بھرم ٹوٹا بہت سے بڑے نام ایکسپوز ہوئے۔ کتنے ہی ارکان کے سیاسی مستقبل پر داغ لگے اور کئی نیک نام نہ رہے۔ چونکہ سابقہ اپوزیشن اور حال کی حکومت پرانی پوزیشنوں میں دونوں ہی عدم اعتماد کو یقینی اور ناکام بنانے کیلئے ایک ایک ووٹ کی درخواست کرنے ان کے پاس حاضری دیتے رہے۔

حتیٰ کہ سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری جماعت اسلامی کا ایک ووٹ لینے منصورہ جا پہنچے تھے اس لئے عدم اعتماد کی تحریک میں سیاسی جماعتوں، اتحادی دھڑوں اور انفرادی ووٹوں والے بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے ووٹوں سے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اس لئے حکومت سازی میں ان کے ’’تقاضوں‘‘ کو تسلیم کیا جائے۔ اس حوالے سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان جو قدرے ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔

وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے ساتھ احتجاجی تحریک، مخالفانہ بیانات، لانگ مارچ، دھرنا، مسلسل پریس کانفرنسوں اور حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے کے عمل میں شامل تھے اور شاید ایسی لئے انہیں اس بات کا یقین تھا کہ ایوان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باعث مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جہاں وزیراعظم بنیں گے وہاں ان کے صدر بننے کی خواہش پوری ہوجائے گی لیکن اس حوالے سے انہوں نے اپنی خدمات تو یاد رکھیں لیکن یہ بھول گئے کہ ایوان مین اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے اور آصف علی زرداری دوسری مرتبہ ملک کے صدر بننے کا موقعہ کیوں ہاتھ سے جانے دیں گے۔