بلدیاتی انتخابات: کراچی میں پیپلز پارٹی کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے

June 23, 2022

سیاسی جماعتیں ضمنی انتخاب اوربلدیاتی انتخابی عمل میں مصروف ہیں کراچی کے حلقہ این اے 240 کے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم سخت مقابلے کے بعد صرف 65 ووٹوں کی برتری سے اپنی نشست بچانے میں کامیاب ہوئی جبکہ تحریک لبیک نے ایم کیو ایم پاکستان کو ٹف ٹائم دیا۔ ضمنی الیکشن کےد وران ووٹ کاسٹنگ کی شرح 8.38 فیصدرہی، 91.62 فیصدووٹرز نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا، جو کراچی میں اب تک کی سب سے کم شرح ہے، تحریک لبیک پاکستان نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

رات گئے این اے 240 کے ضمنی انتخاب کے غیرحتمی وغیرسرکاری نتائج کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے محمد ابوبکر 10683ووٹ لے کر صرف 65 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوگئے، جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے شہزادہ شہباز10618 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ مہاجرقومی موومنٹ کے امیدوار سیدرفیع الدین 8383ووٹ لے کر تیسرے، پاکستان پیپلزپارٹی کے ناصر رحیم 5248 ووٹ کے ساتھ چوتھے اورپاک سرزمین پارٹی کے شبیراحمد قائم خانی 4797 ووٹ لے کر پانچویں نمبر پر رہے۔

جبکہ 2018 میں ایم کیو ایم کے اقبال محمدعلی نے 61 ہزار 165 ووٹ لے کر پہلی، تحریک لبیک کے محمد آصف نے 30ہزار535 ووٹ لے کر دوسری جبکہ پی ٹی آئی کے فرخ منظور نے 29 ہزار 939 ووٹ لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ تحریک لبیک نے انتخابی نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ مہاجر قومی موومنٹ نے بھی انتخاب میں دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔ ایم کیو ایم کو 2018 کے عام انتخاب کی نسبت ضمنی انتخاب میں 50 ہزار سے زائد کم ووٹ لیے جوایم کیو ایم کے لیے لمحہ فکرہے۔

2018 میں ایم کیو ایم کے اقبال محمدعلی نے 61 ہزار 165 ووٹ لے کرپہلی ، تحریک لبیک کے محمد آصف نے 30ہزار535 ووٹ لے کر دوسری جبکہ پی ٹی آئی کے فرخ منظور نے 29 ہزار 939 ووٹ لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ ایم کیو ایم کو این اے 245 کا معرکہ بھی سرکرنا ہے۔ یہ نشست پی ٹی آئی کے عامرلیاقت کے انتقال کے سبب خالی ہوئی تھی اس نشست پر انتخاب کے لیے شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔ اور اس نشست پر 27 جولائی کو پولنگ ہوگی۔

اس نشست پر پی ٹی آئی بھی ایم کیو ایم کےمد مقابل ہوگئی۔ جبکہ این اے 240 پر پی ٹی آئی نے انتخاب کا بائیکاٹ کیاتھا تحریک لبیک نے این اے 240 پر متحدہ کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ جبکہ پی ایس پی تیسری پوزیشن بھی حاصل نہیں کرپائی۔ یہی وجہ ہے کہ پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال ایک جانب عصبیت کے خلاف بیانات دے رہے ہیں تو دوسری جانب این اے 240 کے رزلٹ کے بعد انہوںنے کہا کہ ہم باہر سے آنے والی جماعتوں کو کراچی پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔

این 240 کے انتخاب کے موقع پر پی ایس پی اور تحریک لبیک کے کارکنوں کو ہنگامہ آرائی کےا لزام میں گرفتار بھی کیا گیاپولنگ کے دن ایک شخص ہلاک جبکہ کئی زخمی بھی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے شخص سے متعلق پی ایس پی اور تحریک لبیک نے دعویٰ کیا ہے کہ جاں بحق ہونا والا شخص ان کی پارٹی سے تھا۔ بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں سیاسی جماعتیں علاقائی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہے جبکہ پی پی پی متحدہ قومی موومنٹ نے تا حال کسی سے سیٹ ایڈ جسٹمنٹ نہیں کی، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم بھی میدان میں ہیں جبکہ پی ٹی آئی، پی پی پی،جے یو آئی، پی ایس پی ،ٹی ایل پی ،مہاجر قومی مومنٹ ،سنی تحریک نے اپنے بڑے امیدوار جنہیں مئیر یا ڈپٹی مئیر نامزد کرنا ہے انہیں لبیر کونسلر کی سیٹ سے منتخب کرایا جائے گا۔

اہلسنت کی جماعتوں نے ووٹ بنک تقسم ہونے سے بچانے کے لیے وسیع اتحاد کیلئے رابطے شروع کر دئے ہیں اس ضمن میں ٹی ایل پی کراچی کے صدر، سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری ،جماعت اہلسنت کراچی کے امیر شاہ عبدالحق قادری اور دیگر زعما فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم دوسرے مرحلے کے انتخاب کی حلقہ بندیوں اور ان حلقوں کے ووٹرز پر ایم کیو ایم کے تحفظات ہیں جبکہ بلدیاتی قوانین میں تبدیلی نا ہونے پر بھی ایم کیو ایم متعرض ہے۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان اس ضمن میں معاہدہ ہوا تھا جس پر عمل نہیں ہوسکا۔

اس ضمن میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کی قیاد،وٹت کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے اور دعویٰ کیا گیا کہ دو ملاقاتوں کے بعد کئی معاملات میں پیش رفت ہوئی ہیں تاہم کراچی کے ایڈمنسٹریٹر، میئر کے اختیارات پر دونوں فریقین کے درمیان تعطل موجود ہے۔ بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی خرم شیرزمان ، فردوس شمیم نقوی، بلال غفار، اشرف قریشی کے علاوہ جماعت اسلامی کراچی کے امیرحافظ نعیم الرحمن بھی حصہ لے رہے ہیں جو یقیناً کامیابی اور اکثریت کے باعث میئر یا ڈپٹی میئرکراچی کے امیدوار ہوں گے۔

ادھر سندھ میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخاب 26 جون کو ہوں گے جس کے لیے سیاسی جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کررہی ہے پی پی پی نے کسی بھی جماعت سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی۔ کئی اضلاع میں پی پی پی کے ایک سے زائد امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہے جنہیں پی پی پی کی قیادت دستبردارنہیں کرپائی اس سےووٹ تقسیم ہونے کی صورت میں پی پی پی کوبلدیاتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں سیاسی نقصان کا امکان ہے۔