افغان طالبان حکومت ایک سال بعد بھی اصلاحات پر تقسیم

August 11, 2022

برلن(اے ایف پی)افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو قریب ایک سال ہو گیا ہے اورملک میں اصلاحات کےمعاملےپر اب ان کی صفوں میں دراڑیں ابھرنا شروع ہو گئیں،جرمن میڈیا کے مطابق اس کی وجہ ملک میں کتنی اورکیسی اصلاحاتہونی چاہئیں قراردی جارہی ہے،جرمن میڈیا کی ایک رپورٹ کےمطابق طالبان اپنی نظریاتی توجہ منتشر کے بجائے مرکوز رکھنے کے عادی ہیں، اس لیے ایسا شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئے کہ طالبان اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوئی ضرورت محسوس کریں۔سطحی حوالے سے دیکھا جائے تو اس مرتبہ طالبان نے افغانستان میں اقتدار میں آ کر پہلے سے تھوڑا سا مختلف رویہ اپنایا، انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے افغانستان سے متعلقہ امورکے ماہر ابراہیم باہس نےکہاکہ افغان طالبان میں ایک دھڑا ایسا ہے جو اس عمل کے تسلسل کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، جسے وہ اصلاحاتی عمل کا نام دیتا ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا دھڑا بھی ہے،جو یہ سوچتا ہے کہ اب تک کی بہت معمولی اصلاحات بھی دراصل بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔یہ بات طے ہے کہ جب تک طالبان کی موجودہ حکومت واضح پیش رفت کے ناقابل تردید اشارے نہیں دیتی، افغانستان کے یہ اثاثے کابل کو دوبارہ دستیاب ہو ہی نہیں سکتے۔ لیکن اس کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ افغان عوام کو عرصے سے بہت بڑے اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور وہ ختم ہوتا اب بھی نظر نہیں آتا۔ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ کی مشاورت کرنیوالی کونسل کے ایک رکن اور ایک اسلامی مدرسے کے سربراہ عبدالہادی حماد نےبتایاکہ اخوند زادہ نے اب تک جو بھی فیصلے کیے ہیں، ان سب کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی طرف سے دیے گئے مشورے ہی بنے، مغربی تجزیہ نگاروں کےمطابق یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ افغان طالبان کے لیے ملکی سطح پر کسی بھی تبدیلی کا فیصلہ کرنے کے لیے سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے پیدا شدہ حالات اتنے اہم ہیں ہی نہیں جتنے ان کی یہ تشویش کہ ان کو نظریاتی سطح پر کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔