مکار مکڑا

November 13, 2022

نسرین شاہین

بانگ درا میں بچوں کے لیے علامہ اقبال کی نظم” ایک مکڑ اورمکھی“ انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ علامہ اقبال نے اس نظم میں ایک کہانی بیان کی ہے کہ مکڑے نے کس مکاری سے مکھی کو اپنی باتوں سے ورغلایا اور مکڑے کی خوشامد سے کس طرح وہ موت کے منہ میں چلی گئی۔

ایک بھوکامکڑا ا پنے جالے کے سامنے شکار کی تاک میں بیٹھا تھا کہ کوئی کیڑا مکوڑا آئے، اسے پھانس کر کھا جائے اور اپنی بھوک مٹائے۔اسی وقت اس کے جالے کے سامنے سے ایک مکھی اُڑتی ہوئی گزری تو مکڑے نے اسے پھنسانے کے لیے خوشامدی انداز میں اس سے کہا۔

”بی مکھی ! تم روزانہ یہاں سے گزرتی ہو، کبھی میرے گھر بھی آؤ اور میری عزت بڑھاؤ۔ یہ سامنے ہی سیڑھی ہے۔“

مکھی سمجھ دار تھی ، مکڑے کی باتوں سے اس کا مقصد سمجھ گئی اور کہنے گی ،’’میں اتنی نادان نہیں کہ جو تمھاری سیڑھی پر قدم بھی رکھوں، کیوں کہ اگر میں تمھارے گھر آئی تو کبھی واپس نہ جا سکوں گی۔“ جب اس بات سے مکڑے کا کام نہ بنا تو اس نے مکھی سے اپنے گھر کی تعریف کر کے گھیر نا چاہا کہ’’ میرا گھر اگر چہ باہر سے کُٹیا کی طرح دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے اندر باریک باریک پردے ہیں اور اس میں مہمانوں کے اور آرام دہ بچھو نے بھی ہیں۔ میرے گھر کی دیواریں آئینے کی طرح سے شفاف ہیں۔ یہ سب چیز ہر کسی کے پاس نہیں ہوتیں۔

مکھی عقل مندتھی ، مکڑے کی باتوں میں نہ آئی اور کہنے لگی ،’’ا للہ تمھارے نرم بچھونوں سے بچائے۔ ان پر اگر کوئی لیٹا تو وہ تمھارا شکار بن جائے گا اور واپس باہر نہ آ سکے گا۔‘‘

مکھی کی سمجھ داری دیکھ کر مکڑے نے سوچا کہ اس کو اپنے جال میں پھانسے کے لیے خوشامد سے کام لینا پڑے گا۔ مکڑے نے اب بڑی ہوشیاری سے مکھی کی خوشامد شروع کر دی اور بولا،تمھاری صورت بہت حسین ہے۔

تمھاری آنکھوں کی مثال تو چمکتے ہوئے ہیروں کی طرح ہے اور اڑتے وقت تمھاری آواز ( بھنبھناہٹ ) کی خوب صورت گیت کی طرح اچھی لگتی ہے۔

بس پھر کیا تھا، سمجھ دارمکھی خوشامد سن کر خوش ہوگئی اور اس کا دل نرم پڑ گیا اور اس نے اپنی عقل سے کام لینا ہی چھوڑ دیا اور مکڑے سے کہا، ’’بھئی کسی کا دل توڑنا اور انکار کرنا بہت بری بات ہے۔

بس یہ کہہ کرمکھی اُڑی اور مکڑے کے جالے میں داخل ہوگئی، پھر جیسے ہی وہ مکڑے کے پاس آئی تواُس نے اُچھل کر اسے پکڑ لیا اور کھا گیا۔ اس طرح مکڑے نے خوشامد کر کے اپنی بھوک مٹائی اور مکھی خوشامد کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی گئی۔

اس نظم سے بچوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ کسی کی جھوٹی تعریف سن کر خوش ہونے کے بجائے اپنی عقل سے سوچنا چاہیے کہ سامنے والا جو تعریف کر رہا ہے، وہ جھوٹی ہے یا سچی ہے، کیوں کہ خوشامد کا مطلب ہے کہ کسی کی جھوٹی تعریف کر کے اس سے اپنا مقصد پورا کرنا۔

ہمیں عقل اورسمجھداری سے کام لینا چا ہیے اور خوشامد سے بچ کر رہنا چاہیے، ورنہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔