لاہور سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بن گیا

January 19, 2023

پنجاب میںدس ماہ سے جاری سیاسی کشمکش انجام کو پہنچ گئی ، وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے اسمبلی تحلیل کردی اور گورنر نے اگلے ہی دن اس سلسلہ میںبھیجی گئی سمری پر دستخط بھی کردئیے۔ پنجاب اسمبلی ختم کرنے کا فیصلہ راتوں رات کیا گیا، وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہینے آدھی رات کو ایوان میںاعتماد کا ووٹ لیا اور فوری بعد اسمبلی کو تحلیل کردیا، یہ کارروائی اتنی تیزی اور سرعت سے کی گئی کہ اپوزیشن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا گیا۔ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان کی جانب سے اسمبلی کو تحلیل کرنے کے خلاف مزاحمت کا امکان تھا لیکن مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے لندن سے ہدایت جاری کردی کہ اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کی تیار ی کریں۔

پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے’’ماسٹر مائنڈ‘‘تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ملک میںنئے الیکشن کے لئے جدوجہد میں مصروف تھے، احتجاجی جلسے، جلوسوں اور لانگ مارچ کے ذریعے حکومت گرانے میںناکام ہوئے تو انھوں نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیاں ہی توڑ دیں، عمران خان جو وفاقی حکومت ختم کرنے چلے تھے پنجاب میںاپنی حکومت ختم کردی ، عمران خان کے اس اقدام سے سنگین سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف واضح کر چکے ہیں کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے باوجود حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرےگی اور عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوگے۔ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد لاہور سیاسی سرگرمیوںکا گڑھ بن گیا ہے، سیاست عروج پکڑ چکی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف ، آصف زرداری، چوہدری شجاعت حسین اور عمران خان اہم سیاسی فیصلوں میں مصروف ہیں۔ عمران خان پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے پوری طرح چارج ہیں، جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کشمکش کا شکار ہیں۔

مسلم لیگ ن اپنے قائد نواز شریف کی لندن سے واپسی ،انتخابات میں بیانیہ، غیبی امداد، حلقہ بندیوں، مردم شماری کے نام پر الیکشن ملتوی ہونے کی منتظر ہے۔ مسلم لیگ لاہور کے امیدواروںکو جتوانے کے لئے شہر میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پنجاب میں 20 برسوںتک بلاشرکت غیرے اقتدار میںرہنے والے شریف برادران گھبراہٹ میں مبتلا ہیں، پارٹی کی مرکزی قیادت نواز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی تحلیل ، نگران سیٹ اپ اور انتخابات کے سارے عمل کے دوران لندن میںآرام کررہے ہیں۔

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد جو ستمبر 2020میں عمران خان حکومت کے خلاف قائم کیا گیا اور اپریل 2022میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی، پنجاب اسمبلی کے انتخابات میںپی ڈی ایم اتحاد برقرار رکھنے میںناکام ہوچکا ہے، پی ڈی ایم غیر یقینی صورتحال میں مبتلا ہے، شہباز شریف تن تنہا تحادی حکومت میںشامل رہنمائوں سے مشاورت میں مصروف ہیں۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بھی لاہور پہنچ گئے، انھوں نے آمد کے فوری بعد پیپلزپارٹی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کو پنجاب اسمبلی کےانتخابات کی تیاری کی ہدایت کردی۔ اجلاس میں پنجاب کی سیاسی صورتحال خاص طور پر آئندہ انتخابات میں آصف زرداری نے رابطہ عوام مہم تیز کرنے کی ہدایت اورپنجاب میں آئندہ انتخابات سے متعلق تجاویز مانگ لیں، خیال رہے کہ گزشتہ انتخابات میں پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے ارکان کےسات ارکان کامیاب ہوئے جن میں خاتون رکن شازیہ عابد مخصوص نشست سے کامیاب ہوئی ، وسطی پنجاب میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہوگیا صرف حسن مرتضی چنیوٹ سے اپنی نشست پر جیت سکے جبکہ چھ ارکان وسطی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔

پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے پارٹی کمان آصف زرداری نے خود سنبھال لی ہے اور پنجاب کی سیاست میں بھرپور سرگرم ہیں، انھوں نے لاہور قیام کے دوسرے روز مسلم لیگ ق کے صدرچوہدری شجاعت حسین کے ساتھ بلاول ہائوس میں تفصیلی ملاقات کی، چوہدری شجاعت حسین وفد کے ہمراہ بلاول ہاؤس پہنچے جہاں انھوں نے سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی، دونوں رہنماؤں کی مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ سے بھی رابطہ پر اتفاق ، نگران حکومت کی تشکیل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، آصف زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان ہونے والی ملاقات ایک گھنٹہ جاری رہی،آصف زرداری پنجاب میں بھرپور جوڑ توڑ کررہے ہیں، تحریک انصاف سے الگ ہونے والے منتشر دھڑوں سے بھی رابطے ہورہے ہیں، جہانگیر ترین، سابق گورنر چوہدری محمد سرور، عبدالعلیم خان سمیت پیپلزپارٹی چھوڑکر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے ناراض رہنمائوں سے بھی مسلسل رابطے ہورہے ہیں۔

چوہدری محمد سرور مخدوم ہاؤس ماڈل ٹائون میںسابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور جنوبی پنجاب پیپلزپارٹی کے صدر مخدوم احمد محمود سے بھی تفصیلی ملاقات کر چکے ہیں، پیپلزپارٹی پنجاب ک پارلیمانی لیڈر حسن مرتضی بھی چوہدری سرور سے مل چکے ہیں جس سے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ پنجاب میںجلد سیاسی ہلچل ہونے والی ہے۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پی ڈی ایم اور مسلم لیگ ن کےساتھ ہونے والے معاہدہ ہے جس کے تحت طے ہوا کہ 2018کے انتخابات میں تحریک انصاف کے مقابلے میں جیتنے والی پارٹی اور رنر اپ یعنی دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کے امیدوار ہی مشترکہ امیدوار قرار پائیںگے۔

گزشتہ چار برسوں میں صوبہ میںقومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں اس معاہدے کے تحت سب ٹکٹیں مسلم لیگ ن کی جھولی میںڈال دی گئیں صرف ملتان میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی ضمنی الیکشن میںاپنی نشست پر کامیاب ہوئے۔ پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا تو پیپلزپارٹی صرف جنوبی پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی 9 نشستوں پرامیدوار کھڑے کر سکے گی، مشترکہ فارمولے کا سب سے بڑا فائدہ مسلم لیگ ن اور سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی کو پہنچے گا۔ پیپلزپارٹی نے مشترکہ فارمولے سےانکار کردیا ہے اور نیا فارمولہ تیار کررہی ہے ،پارٹی قیادت کو امکان ہے کہ مسلم لیگ ن بھی لچک پیدا کرے گی۔