میری دنیا کیسے بدلی؟

May 05, 2024

آسیہ عمران

اس کی ملاقات میں کیسا جادو ہے! مسئلوں کی نوعیت بدل جانا ،جوش و خروش کی افزائش، بیسٹ دینے کا جذبہ پیدا ہونا، مثبت سوچ وفکر کارجحان مسائل کے حل کے راستے نکل آنایقینا ًکوئی خاص بات تھی۔اور اب تو جیسے دنیا بدل گئی تھی۔ وہ سوچتے بہت دور نکل گئی۔ یہ اس کے کالج کی سہیلی اسے عرصے بعد ملی تھی۔ ایسے وقت جب وہ مایوسی میں گھری ، ہر وقت بیمار رہتی ،معاشی مسائل نے بھی جیسے گھر کی راہ دیکھ لی تھی ۔ اپنوں کی اپنائیت ،مٹھاس تو کب سے روٹھ چکی تھی ،ہر رشتے ،تعلق میں خود غرضی نظر آتی ،اعتماد کیا اٹھا کہ وہ خود سے روٹھنے لگی۔

ایسے میں اس سے ملاقات اور پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلنا ایک غیر معمولی بات تھی۔ حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ اس سے ملاقات کا ہر دن اسے گزشتہ کیفیت سے نکال ہی نہیں رہا تھا ۔اس میں منفرد کیفیات پیدا کرنے کی بھی وجہ بن رہا تھا۔ وہ بیمار تھی ڈیپریشن میں تھی۔ ہنسنا ،مسکرانا ،ریلیکس ہونا بھول چکی تھی۔ اس سے پہلی ملاقات نے جیسے اس کیفیت پر ضرب لگائی ۔ اس نے یاد کرتے ہوئے کہا تھا ،’’ تمھارے ہنسنے کا انداز اور آواز کالج کی یاد دلا گیا ۔تمہاری بے تکلف بات چیت ، کھلکھلا تی ہنسی مجھے ہمیشہ سے پسند تھی ۔‘‘

وہ حیران ہوئی جب اس نے خود کو اسی انداز میں کھلکھلاتے، ہنستے،ریلیکس پایا۔ اس سے باتوں، باتوں میں اس نے اپنا ہر مسئلہ کہہ ڈالا تھا۔وہ بغور سنتی اس کے ہاتھ دباتی، اپنائیت کا احساس دلاتی ،گویا ہر الجھن اسےکہہ دینے پر اُکسا رہی تھی ۔‘‘ اختتام گفتگو پر اس نے کہا تھا ’’تم بہت بہادر ، دوسروں کے لئے اچھا چاہتی ہو۔ اللہ تمھیں مایوس نہیں کرے گا، بے بہا نوازے گا۔‘‘ دوسرے ہفتے وہ اس کے گھر پھر چلی آئی تھی۔ بچیاں بڑے عرصے بعد ماں کو منتظر اور چاق وچوبند محسوس کر رہی تھیں ،آج وہ کئی بار کھلکھلائی تھی۔

ماں کو کھلکھلاتے دیکھ کر بچیاں سمجھ گئی تھیں کہ آنے والی بہت ہی خاص ہے۔ وہ لمحہ اسے خوشگواری میں مبتلا کر گیا، جب اس نے اس کی بچیوں، انداز تربیت کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا، یہ پیاری بچیاں اللہ کی بہت بڑی دین ہیں۔ اس لمحے اُس نے بچیوں کو دنوں بعد بغور دیکھا۔ وہ جن نعمتوں کو شکایتوں کے انبار میں دھندلا ئے بیٹھی تھی قطعاً معمولی نہ تھیں۔

ساس امی سے شکایتوں کے انبار اکٹھے ہوتے پہاڑ بنے تو اپنوں کی بے گانگی نے دل کے تار ادھیڑدئیے تھے۔ ان کا مرہم وہ نرم جملے تھے جو کاموں میں ٹپکائے گئے وہ رشک بھرے انداز میں کہہ رہی تھی ،’’تم خوش قسمت ہو تمہیں بزرگوں کا خیال رکھنا نصیب ہو ا ہے۔ ان کی دعائیں انمول سرمایہ ، زندگی کا حاصل ہیں ۔کئی رحمتیں، برکات تو ان کے سبب سے برس پڑتی ہیں۔

ان کا بچوں کے قریب ہونا تربیت کے عمل میں مزید نکھار پیدا کرتا ہے۔ ‘‘اسے پہلی بار سوچنے کا موقع ملا تو انکشاف ہوا وہ بارہاان بزرگوں کے سبب سے نوازی گئی تھی ۔ بارہا اس کے بوجھ ہلکے ہوئے تھے۔ وہ آسودہ بھی ہوئی تھی اور اپنی گزشتہ سوچوں پر شرمندہ بھی،دن بدن عینک بدل رہی تھی۔ رنگ نکھرنے لگے ۔

چیزیں واضح ،خوبصورت، اجلی نظر آنے لگیں ،یہ غیر معمولی تبدیلی تھی۔ اس کے اصرار پرایک دن وہ بچیوں کو ساتھ لئےاس کے گھر گئی۔وہ لمحے گویا عید بن گئے ۔اس نے دروازے پر پرتپاک استقبال کیا ۔ بچوں کو گفٹ دئیے اس سے بڑی چیز اہمیت ،محبت دینے والا پُرخلوص انداز تھا۔ بچے حیران تھے وہ ان سے دوسری بار ملے تھے اتنی اہمیت کیوں دے رہی تھی،وجہ جو بھی تھی انھیں خوش کر رہی تھی۔

چائے کے ساتھ بسکٹ اور چپس تھے ، مگر زیادہ اہم وہ محبت ،بھرا لہجہ، پرخلوص اصرار تھا اور وہ اسیر ہو گئی۔ ماما ان آنٹی کے ہاں ہم جاتے رہیں گے۔ واپسی پر چھوٹے بیٹے نےگویا دل کی بات کہہ دی تھی ۔اگلے ہفتے ہی فون آیا ۔اس کی ایک قریبی کو ہوم ٹیوشن کی ضرورت تھی۔ اندر سے آواز آئی تم بیمار ہو، نہیں کر پاؤ گی ،مگر زبان نے حامی بھر لی۔

اگلا ہفتہ بدل دینے والا تھا ،اس کی بیماری ہوا ہو گئی تھی۔ گھر کے کام بھی جیسے سمٹ گئے تھے۔ ٹیوشن کے آئے چند پیسوں سے کئی چھوٹے چھوٹے کام ہو گئے تو جیسےجسم میں توانائی سی بھر گئی ۔احساس ہوا معمولی سی رقم سےچھوٹی چھوٹی خوشیاں، آسانیاں کشید کی جا سکتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں میاں کے لئے حیرت انگیز تھیں۔

اگلا ماہ کافی ہنگامہ خیز تھا۔ اس کی ماں جو’’ بھولنے‘‘ کے مرض میں مبتلا تھی، بھائی اس کے پاس چھوڑ گئے۔ماں جو وقت پر خوراک نہ ملنے کے سبب نڈھال تھی، اس کی توجہ سے گویا جی اٹھی ۔ تنگ دستی میں ماں کی خدمت نہ کر پانے کا احساس تھا ۔ایسے میں سہیلی ماں سے ملنے چلی آئی ، اس نے اس کے ہاتھ چومتے کہا۔ مجھے وہ ہاتھ چومنے دو جو ماں کی خدمت کی سعادت ہیں۔

قدر دانی پر ان کے آنسو بہہ پڑے۔ بولیں ،اللہ سب سے بڑا قدردان ہے۔ وہ اندر سے تھوڑی اور اونچی ہوئی ،جیسے قد نکالا ہو۔ ہر بارلگتا وہ جتنی بلند ہوتی ہے،مسائل اتنے ہی چھوٹے اور بونے ہونے لگتے ہیں ۔یہ بات بڑی ہی خوشگوار تھی،شاید ماں کی خدمت کی برکت تھی کہ وہ جو اپنے مکان کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ،وسائل پیدا ہوتے گئے اور پھر چند مہینوں میں اپنی چھت کے نیچے تھی۔

اب وہ کرائے کے ایک کمرے والے مکان کا سوچتی تو دم گھٹنے لگتا۔ اس کی عجیب عادت بن گئی ہر کچھ دن بعد جب غبار جمع ہونے لگتا وہ اس سے شئیر کر لیا کرتی۔ ایک دن اس نے عجیب بات کی۔ کہنے لگی،’’ تم اصل کی طرف توجہ دو کب تک عارضی سہاروں میں پناہ لو گی ۔ بات سمجھ نہ آئی تھی ۔مثال دیتے بولی۔ میں بھی تمہاری طرح تھی۔ ایک محسنہ کے بغیر سانس لینا دوبھر تھا، جب بھر جاتی تو اس سے آکسیجن لیا کرتی ،مگر ایک دن اس نے پکڑ لیا بولی۔ میں تو صرف تمھاری باتیں سنتی ہوں اور کچھ نہیں کر پاتی۔وہ ذات جو سرگوشیوں میں بھی بات کرنے کو پسند کرتی ہے ،اصل تو وہی ہے ،جس کو بوجھ کا بتانا بنتا ہے۔

کچھ عرصہ مسائل کو ہولڈ کرنا اور پھر اس کے سامنے سر جھکائے سب کہہ جانا، ہر بوجھ ہٹا دیتا ہے ۔اس سےدو فائدے ہوں گے ۔ اوّل اندر وسعت پیدا ہوگی۔ دوسرا رب سے تعلق کی اصل گہرائی سمجھ آئےگی۔ اسے تھامنے کی قوت پیدا ہوگی ،تب عارضی سہارے ڈھونڈنے کے بجائے ،سہارا دینے والی بن جاؤ گی ۔اب یہی سفر تمھارا منتظر ہے ۔یہ کہتے وہ تھپکی دیتے چل دی ۔اور یہ کھلے آسماں تلے لامحدود فضاؤں پر نگاہیں جمائے کھوجے جا رہی ہے۔