پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین رمیز راجا مسلسل فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد پاکستان کرکٹ کو مشکلات سے نکالیں۔ وکٹوں کی تیاری سے لے کر کوچز کی تعیناتی تک وہ کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان ٹیم دنیا کی نمبر ایک ٹیم بن جائے۔ کہتے ہیں کہ جب نیت صاف ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔شائد یہی وجہ ہے ان کے چیئرمین بننے کے بعد بابر اعظم پاکستان ٹیم کو فتوحات دلوارہے ہیں۔
بابر اعظم اور ان کے ساتھیوں کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے2021 میں پاکستانی پر چم کو بلند رکھا۔ یقینی طور پر سابق بورڈ نے بھی ٹیم کو بنانے میں محنت کی ہوگی لیکن 2022 میں رمیز راجا اور ان کے ساتھیوں کا اصل امتحان ہوگا۔ آسٹریلوی ٹیم مارچ اپریل 2022 میں پاکستان کے دورے پر آئے گی جس میں اسے تین ٹیسٹ تین ون ڈے اور ایک ٹی ٹوئنٹی کھیلنا ہے۔ٹیسٹ میچ کراچی لاہور اور راولپنڈی میں کھیلے جائیں گے جبکہ لاہور ون ڈے سیریز اور ٹی ٹوئنٹی میچ کی میزبانی کرے گا۔
یہ 1998 کے بعد آسٹریلیا کا پہلا دورۂ پاکستان ہوگا۔ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم آئندہ سال ستمبر اور اکتوبر میں پاکستان آئے گی۔ اس دورے میں وہ سات ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلے گی۔ اگلے سال ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد انگلینڈ کی ٹیم دوبارہ پاکستان آکر تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز بھی کھیلے گی۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم دو مرحلوں پر مشتمل دورے میں پہلا سفر اگلے سال یعنی 2022 کے دسمبر میں کرے گی جس میں وہ پاکستان میں جنوری 2023 تک قیام کرے گی۔
اس دوران وہ پاکستان کے خلاف دو ٹیسٹ اور تین ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلے گی۔یہ دورہ آئی سی سی کے فیوچر ٹور پروگرام کا حصہ ہوگا۔ اس میں کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریز آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں شامل ہوگی جبکہ ون ڈے سیریز آئی سی سی مینز ورلڈ کپ سپر لیگ کا حصہ ہوگی۔یہ دورہ مکمل کرنے کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم پھر اپریل 2023 میں دوبارہ پاکستان آئے گی۔ اس دورے میں وہ پانچ ون ڈے انٹرنیشنل اور پانچ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلے گی۔ یہ دورہ دراصل اس دورے کی تلافی کے لیے ہوگا جو نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم اس سال ستمبر میں کھیلے بغیر پاکستان سے واپس چلی گئی تھی۔
پھر انگلینڈ نے بھی دو ٹی ٹوئینٹی میچوں کے لئے پاکستان آنے سے انکار کردیا ہے۔پاکستان نے2022میں8 ٹیسٹ، گیارہ ون ڈے انٹر نیشنل،اور13ٹی ٹوئینٹی ون ڈے انٹر نیشنل کھیلنا ہیں۔ کہتے ہیں کہ دنیا کی بڑی ٹیموں کو ہرانے سے ہی پاکستان ٹیم صف اول کی ٹیم بن جائے گی۔اس لئے رمیز راجا اور ان کے ساتھیوں کے پاس موقع ہے کہ وہ اچھے کوچز کا نتخاب کریں جو پاکستان ٹیم کو دنیا کی صف اول کی ٹیم بنائیں۔
رمیز راجا کی تقرری کے بعد کوچز کی تلاش پی سی بی کے لئے بڑا چیلنج ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے پہلی بار پاور ہٹنگ کوچ کی تلاش کی جارہی ہے۔ پی سی بی نے قومی ٹیم کے کوچز کے لئے تلاش شروع کر دی ہے۔ قومی ٹیم کے لئے ہائی پرفارمنس کوچ ،بیٹنگ کوچ ، بولنگ کوچ اور فیلڈنگ کوچ کے لیے بھی درخواستیں طلب کی گئی ہیں ۔ مصباح الحق،وقار یونس اور یونس خان کے استعفوں کے باوجود پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں فرق نہیں آیا اس کی وجہ بابر اعظم کی لیڈرشپ تھی جو پاکستان کو مسلسل اچھے نتائج دے رہی ہے۔
بابر اعظم کے ساتھ ثقلین مشتاق نے ہیڈ کوچ کی حیثیت اچھا کام کیا۔رمیز راجا کہتے ہیں کہ ثقلین کے قومی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیا اس لئے ثقلین مشتاق کے نام پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ٹیم کے کوچز کی تقرری اہم ضرور ہے لیکن پاکستان میں ایسوسی ایشن کے کوچز کے بارے میں جس طرح بے ضابطگیوں کی شکایات آرہی ہیں اس جانب بھی رمیز راجا کو توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن ابھی تک رمیز کو چیئر مین بنے ہوئے چار ماہ ہوئے ہیں اور وہ اپنے کارڈز کو اچھے طریقے سے کھیلتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔اس لئے ان سے بہتری کی توقع ہے اور گراس روٹ کرکٹ کی جانب توجہ دینا ہوگی۔