اسلام آباد (قاسم عباسی) ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے اور پورے موسم گرمامیں مقامی آبادیوں کو فراہمی آب یقینی بنانے کے لئے گلگت و بلتستان میں گزشتہ تین سال کے عرصہ میں 5؍ مصنوعی گلیشئرز تخلیق کئے گئے ہیں وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے تحت مختلف جامعات میں گلیشئر لیک آئوٹ برسٹ فلڈ رسک ریڈکشن (گلوف۔ٹو) پروجیکٹ شروع کیا گیا جس کے تحت سطح سمندر سے 4700؍ میٹرز کی بلندی پر دیوقامت گلیشئرز مقامی آبادیوں کی مدد سے وجود میں لائے گئے ہیں۔ گلیشئرز بنانے میں گلگت و بلتستان یونیورسٹی، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت، وفافائونڈین، چندو ولیج اسکردو، مرکو ولیج نگر، حسین آباد ولیج اور خوادو ولیج کے باشندوں نے کی۔ مصنوعی تخیق کردہ چار گلیشئر سطح سمندر سے چار ہزار میٹرز سے زائد کی بلندیوں پر ہیں ایک کی بلندی سطح سمندر سے 3263؍ میٹرز کی بلندی پر ہے۔ مصنوعی گلشیئرز کی تخلیق میں شریک آنسہ مہوش نے مصنوعی گلیشئرز بنانے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ 4500؍ سے 5000؍ میٹرز سطح سمندر سے سطح منجمد پر 8؍ سے 9؍ فٹ گہرے گڑھے کھودے جاتے ہیں۔ مقامی روایات کے مطابق یہ گلیشئرز مذکر اور مونث صفات کے بھی حامل ہوتے ہیں۔ مقامی باشندے شمشیر علی کا کہنا ہے کہ بنائے گئے گڑھوں میں خوبانی ک گودا رکھا جاتا ہے پھر مذکر اور مونث گلیشئرز میں شادی کے گیت گائے جاتے ہیں برف کے جوگنبد بنائے جاتے ہیں وہ منجمد رہتے ہیں۔یہ رسومات کے ساتھ ہے، جانور کی قربانی سب سے اہم ہے۔ اس پورے عمل کو گلیشیئرز کی شادی کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کے 12 سال کے عرصے میں مکمل ہونے کی امید ہے۔آئس اسٹوپا میں کوئی حرکت پذیر حصہ نہیں ہے، بجلی کی ضرورت نہیں ہے بس کشش ثقل کی ضرورت ہے۔ جھاڑیوں کو آئس اسٹوپا کی شکل دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اسے آئس اسٹوپا کا کنکال بھی کہا جاتا ہے۔آئس اسٹوپا کی شکل پانی کو عمودی طور پر ذخیرہ کرنے میں مدد کرتی ہے اور دوسرے مصنوعی گلیشیئرز کے مقابلے میں سورج کے سامنے آنے والے سطح کے رقبے کو کم کرکے برف کو منجمد رہنے کے قابل بناتی ہے۔مہوش (یو این ڈی پی کے ترجمان) کے مطابق، برفانی سٹوپا ہفتہ وار بنیادوں پر دیکھے جاتے ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ گرمیوں کے موسم میں ان سے ہزاروں باشندوں کو پانی فراہم کیا جائے گا۔