دنیا میں کوئی بھی انسان غلطیوں سے مستثنیٰ نہیں ہے، جتنی بھی منصوبہ بندی کبھی نہ کبھی غلطی ہو ہی جاتی ہے۔کچھ غلطیاں دانستہاور کچھ نادانستگی میں سرزد ہوتی ہیں۔ غلطیوں کا اعتراف یا خود احتسابی کامیاب لوگوں کی ایک نمایاں خوبی ہوتی ہے۔ دنیا میں ترقی کرنے والے اشخاص کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو اُن میں’’خود احتسابی‘‘ کی صفت قدر مشترک نظر آتی ہے۔
یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ دنیا میں ترقی ہمیشہ اسی شخص نے کی جو اپنی غلطیوں اور خامیوں کو پہچان گیا۔ آج کل یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بعض نوجوان جلد ہی مایوسی اور ناکامی کے بعد ہار مان لیتے ہیں، لیکن وہ اپنی ناکامی سے کچھ سیکھ نہیں پاتے جس کی وجہ سے اُنہیں پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک نوجوان طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنی غلطیوں اور ناکامی کے باوجود سیکھنے کے عمل کو جاری رکھتا اور ان خامیوں کو تلاش کرتاہے جس کی وجہ سے ں ناکام ہوا۔اپنی حکمت عملی پر غور و فکر اور ازسرنو جائزہ لینے کے بعد کام کرتے ہیں، بلآخر کامیاب ہوجاتے ہیں۔
غلطیاں ہمیں جوسبق سکھاتی ہیں، وہ کوئی دوسرا نہیں سکھا سکتایہ ہماری تربیت کنندہ ہیں ۔ بس ایک غلطی کو بار بار نہ دہرائیں، ایساکرنا حماقت ہوگی۔ مشی گن ا سٹیٹ یونیورسٹی کے ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہےکہ، اپنی غلطیوں سے سیکھنے سے ہمیں اپنے ذہن کو کھولنے میں مدد ملتی ہے یا اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ محنت کرنے سے اس میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔جنھوں نے اپنی غلطیوں پر زیادہ توجہ دی انھوں نے زیادہ سیکھا۔ بیش ترموجدوں کی غلطیوں کے سبب عظیم دریافت ہوئیں۔
مشہور موجد تھامس ایڈلسن نے بلب کی ایجاد میں کئی مرتبہ تجربات کئے لیکن وہ ہر دفعہ ناکام ہوجاتا ، تجربے کے بعد سوچتا کہ مجھ سے کہاں غلطی ہو رہی ہے، اس نے ہمت نہیں ہاری ہر بارایک نئےجذبے کے ساتھ دوبارہ تجربے پر لگ جاتا، آخر کامیابی حاصل کر کے ہی دم لیا۔
انگریزی مصنف آسکر وائلڈ نے اپنی ایک تصنیف میں لکھاکہ،’’ہر آدمی اپنی غلطیوں کو تجربے کا نام دیتا ہے۔آپ کسی بڑے امتحان میں ناکام ہوں تو یہ سیکھ جاتے ہیں کہ مایوسی سے کس طرح نمٹنا ہے۔‘‘
امریکہ کے سابق صدر تھیوڈور روزو ولٹ نے کہا تھاکہ،’’صرف وہی شخص کبھی غلطی نہیں کرتا جو کبھی کوئی کام نہیں کرتا ۔‘‘
غلطی کا ڈر نوجوانوں کو اکثر نئے کام کرنے سے روکتا ہے، جبکہ غلطیوں کو قبول کرنا مقصد کے حصول کے لیے لامحدود آزادی دیتا ہے۔ ہر وقت سست رہنا، ماضی کی غلطیوں پر پریشان رہنا، مستقبل بہتر بنانے کے لیے اپنے آپ کو نااہل سمجھنا اور خودبخود کچھ بہتر ہونے کا انتظار کرتے رہنا کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتا۔ زندگی کو ایک نئے معنی دینا، بہتر مقصد کی تلاش کرنا اور اس کے لیے مصروف رہنا کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔
ماضی میں کی گئی غلطیوں کو بھلانا آپ کے اختیار میں نہیں، لہذا اس پر افسوس کرکے پریشان نہ ہوں، اس سے مسائل تو حل نہیں ہوں گے، البتہ آپ کی صحت اورسوچ پرمنفی اثرات مرتب ہوںگے۔ دیکھا جائے تو ماضی کی غلطیاں اپنے آپ کو سدھارنےکے لیے سبق ہوتی ہیں، ذہنی نشو و نما کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اگر ماضی میں آپ سے غلطیاں سرزد ہوئیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب بھی غلطیاں کرتے رہیں گے۔ غلطی چھپانے کےلئے مزید غلطیاں نہیں کریں بلکہ اسے تسلیم کریں۔
غیر جانبداری سے ان عوامل پر غور کیجیے جن سے آپ کو نقصان یا خسارہ ہوا تھا جب ان چیزوں پر غور کرنا شروع کریں گے تو ضرور ایسے نکتے پر پہنچیں گے جو آپ کو مطمئن کر دے گا۔ یاد رکھیں جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ گیا، وہ ہمیشہ کے لیے ترقی کی راہوں پر چل پڑا۔ خاص کر نوجوان طلباء و طالبات جو علم حاصل کررہے ہیں یا تدریسی شعبہ سے وابستہ ہیں اور علم کی فضیلت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ کوئی غلطی ہو تو اس کو پہلے سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ تعلیمی اور تدریسی ماحول میں غلطی کوغلط، نامناسب، ناشائستہ، بدگمانانی، تشدد زدہ ماحول میں تبدیل نہ ہونے دیں۔
اگر غلطی کرتے وقت شرم نہیں آتی تو معافی مانگنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے غلطی کرنے کے بعد فوری طور پر معافی مانگ لینی چاہیے۔ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ معافی مانگ لینے سے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔
ایک اور اہم بات ،اگر ابتدائی عمر میں والدین اپنے بچوں کو پہلی غلطی پر باز پرس کریں، پیار اور محبت سے سمجھا دیں، غلط اور صحیح کی تمیز بتا دیں تو بچے بڑے ہونے کے بعد غلطیاں کرنے سے اجتناب کریں گے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ کچھ والدین بچوں کی غلطیوں کو چھپاتے ہیں یا نظر انداز کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کے دل سے خوف جاتا رہتا ہے جس کی بنا پر وہ بڑے ہونے کے بعد بھی چھوٹی سی غلطی سے بڑ ی غلطیوں کی جانب بڑھتےہیں جن۔جس کا احساس والدین کو بعد میں ہوتا ہے کہ اولاد ان کے ہاتھوں سے نکل کر غلط راستے پر چل پڑی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھیے کہ غلطی انسان سے ہی ہو تی ہے، مکمل ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ماضی میں جینا آپ کو ذہنی مریض بنادے گا۔اگر ہمارے نوجوان اس بات کا ادراک کر لیں اور اپنےکردار کو شفاف رکھیں تو تہذیب یافتہ قوموں کی صف میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نے غلطی سے کچھ نہیں سیکھا تو پھر آپآ گے نہیں بڑھ سکتے۔ غلطیاں ہماری استاد ہوتی ہیں اور ہمیں زندگی گزارنے کا اور ہر کام کو انجام دینے کا ایک صحیح اور واضح طریقہ کار سکھا جاتی ہیں ۔عقلمندنوجوان وہی ہے جو ما ضی کی غلطیوں کو سیکھ کر اپنے مستقبل کو بہتر بنا ئیں یہی دانشمندی کی علامت ہے۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔
ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔