• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شبانہ ایاز

نوجوان دنیا بدل سکتے ہیں۔ باشعور اور متحرک نوجوان قوم کی ایسی طاقت بن سکتے ہیں، جس سے انقلاب بپا ہوسکتا ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں جب بھی اور جہاں بھی انقلاب آیا ، اس کی قیادت نوجوانوں نے ہی کی۔ ہر ورق پر ان کا کردار بڑا اہم اور کلیدی نظر آتا ہے۔ زمانہ قریب میں مشرق وسَطِی میں یکے بعد دیگرے کئی ممالک میں آنے والے انقلابات میں بھی نمایاں کردار نوجوانوں کا ہی تھا ۔، اس لہر نے یمن، بحرین، لیبیا اور پھر شام کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔ 

نوجوانوں نے مسلسل کوشش جاری رکھتے ہوئے کئی آمر حکمرانوں کے تختے الٹ دیئے تھے۔ روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا، یا مارٹن لوتھرکنگ (1929-1968) کا بپاکردہ انقلاب، غرض کہ ہرایک کے پیچھے نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ ماضی میں بھی ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعہ سے آئی۔

ستّر کے عشرے کے آخری سالوں میں ایران کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بیس فیصد تک تھا اور 1989 میں ایران میں انقلاب بپا ہوا۔ تحریک پاکستان میں نوجوانوں اور طلبہ نے اپنے بے پناہ جوش و خروش اور ولولے سے قوم کی تقدیر بدل ڈالی تھی۔ ان کی قربانیاں اور کاوشیں نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ایسا عظیم الشان اور تابناک ماضی جس پر ہماری آئندہ نسلیں بھی فخر کریں گی، جب ہر نیا سورج نئی فتوحات اور کامیابی کی خوشخبری لاتا تھا۔

زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی وسماجی ان میں نوجوان پیش پیش تھے۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک ان ہی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔

تغیر، تبدیلی اور انقلاب فطرت کا قانون ہےلیکن آج کے نوجوان اب تک ان قوتوں کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ کبھی نوجوانوں سے دنیا بہادری اور شجاعت کا درس لیا کرتی تھی،آج وہ سرد ہوچکے ہیں۔ جس ملک کے پاس نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد ہو، اس کے باوجود اس کا ترقی کے بجائے پستی کی طرف جانا یقیناً قابل حیرت ہے۔ 

فی زمانہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نسلِ نو کی درست سمت میں رہنمائی کی جائے تاکہ ان کی توانائیاں، ولولہ، جوش و خروش اور خوداعتمادی روشن مستقبل کے لئے ایک سرمایہ ثابت ہوسکے۔ کسی دانا کا قول ہے ’’اس قوم کی ترقی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ،جس قوم کے نوجوان ذمے دار اور محنتی ہوں، اور کسی قوم کی بربادی کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اس قوم کے نوجوان بے فکرے اور کاہل ہو جائیں‘‘۔

اگر نوجوان اپنی تعلیمی قابلیت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کا عزم کریں تو انہیں ہر ممکن کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ وہ چاہیں تو معاشرے میں مثبت تبدیلی اور اپنی مثبت صلاحیتوں کے ذریعے معاشرے میں انقلاب لا سکتے ہیں ۔دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب نوجوانوں کی وجہ سے تو آیا، یقیناَ وہ ملک کے بہترین مستقبل کے لئے سرگرم کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔

آج کا نوجوان طبقہ نہ صرف باشعور ہے بلکہ وہ بڑی جرأت مندی کے ساتھ اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار بھی کرتا ہے اور سیاست میں بھی شراکت داری کا خواہش مند ہے، اس لیے نسلِ نو کو چاہیے کہ دیگر اقوام کی صرف اُن باتوں سے مرعوب ہوں، جو اُن کی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہورہی ہیں ۔ دنیا کی ظالم اور استعماری طاقتوں کے نظریات سےبالکل متاثر نہ ہوں۔ اپنی الگ شناخت بنائیں،جو دوسروں کے لیے قابل تقلید ہو نہ کہ دوسروں کی تقلید میں اپنی شناخت ہی کھو بیٹھیں۔

مواقع کوئی ایسا درواز ہ نہیں ہے جو دوسرا آپ کے لئے وا کرے گا،اسے تو خود آپ کو ہی کھولنا ہے۔ طویل مدت سے ذہنوں میں گھرکیے ہوئے منفی سوچوں کو بدل کر اور ذہن کی ری پروگرامنگ کے ذریعہ اپنی زندگی کو خوشی و مسرت اور سکون و اطمینان سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بنیادی چیز بہترین تعلیم کا حصول ہے، اس کا مطلب مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا نہیں ، بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق آپ جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہوں، آپ کا ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں استعمال ہونا چاہیے۔آج اس ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی آپ ہی کو سب سے اہم کردار ادا کرنا ہے، دنیا کے سامنے اپنے ملک و قوم کی شناخت ہیں،اپنے بزرگوں کی امید اور اپنے بعد آنے والی نسل کے لئے ایک مثالی نمونہ ہیں۔

جب نسل نو راہ راست پر ہو اور خود اعتماد ہو تو انہیں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اپنے ہنر، طاقت اور توانائی سےملک کے حالات بدل سکتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی ہنرمندانہ تربیت بھی کی جائے ، کیوں کہ ہنرمند نوجوان ہی معاشی انقلاب لاسکتے ہیں۔ انہیں تہذیب اور اخلاقیات کا سبق سکھانا بھی ضروری ہے، تاکہ اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال رکھ سکیں۔ 

دور حاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق زندگی کے تمام شعبوں کے لئے علم و ہنر سے آراستہ نوجوان مہیا کریں، تاکہ یہ نوجوان قومی خدمت اور فلاح کے جذبے سے قومی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت نوجوانوں کے مسائل اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے بارے میں عملی طور پر اقدامات کرے۔ حکومت نے نوجوانوں کے لیے جو تربیتی پروگراموں کے اعلان کیے ہیں، اُن کامستقل بنیاد پر اطلاق کیا جائے تاکہ نوجوان ہنر مندانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے ساتھ ملکی معشیت کو مستحکم کر نے میں فعال کردار ادا کر سکیں ۔

جس تیزی سے نوجوانوں میں اخلاقی بیماریاں عام ہوئی ہیں اور ہورہی ہے اس کےعلاج کے لیے حکام کو بہت مضبوط اور منظم انداز میں فعالی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہم اپنا قیمتی اثاثہ گنوادیں گے۔ اگر نسل نو قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جا ئے اور ملک میں ہر برائی کو اچھائی میں تبدیل کرنے کی ٹھان لیں، تو یقین کیجیے کہ تعمیر قوم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائے۔

دور حاضر میں نوجوان طبقہ بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف غیر متوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تو دوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے پھر بے روز گاری نے پر یشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں ماں باپ، علما اور دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مربیانہ رول ادا کریں تاکہ نوجوان طبقہ مستقبل میں قوم وملت اور سماج کی تعمیر اور اصلاح کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکے۔ قوموں اور تحریکوں کے لیے یہی طبقہ امید کی کرن اور مستقبل کی تعمیر کا ضامن ہے۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔