پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم ’’دو آنسو‘‘ حکیم احمد شجاع پاشا کے ناول ’’باپ کا گناہ‘‘ سے ماخوذ تھی، جسے ان کے فرزند انور کمال پاشا نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ ’’دو آنسو‘‘ 1950ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ اس کی ریلیز کے 7سال بعد انور کمال پاشا کے شاگرد جعفر ملک نے اسی کہانی کو ’’باپ کا گناہ‘‘ کے نام سے ری میک کیا، یُوں ’’باپ کا گناہ‘‘ پاکستان میں بننے والی پہلی ری میک فلم قرار پائی۔
پھر یُوں ایک روایت اور ایک رجحان کا آغاز ہوا کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں جو فلمیں باکس آفس پر کام یاب یا سپرہٹ ہوئیں، اُنہیں ستر اور اسّی کی دہائیوں میں مختلف ڈائریکٹرز نے ری میک کیا۔ یعنی ان ہی کہانیوں کو مخصوص تبدیلیوں کے ساتھ یا جوں کا توں کسی نئے عنوان کے ساتھ فلمایا۔ یُوں تو ری میک فلموں کی فہرست بہت طویل ہے، لیکن زیر نظر مضمون میں ہم ایسی چند فلموں پر تفصیلی بات کریں گے کہ جو ماضی کی کام یاب فلموں کی کہانی پر بنائی گئیں اور اُنہیں بھی باکس آفس پر نقش اول جیسی یا اس سے بھی بڑھ کر کام یابی ملی۔
اس ضمن میں ہدایت کار انور کمال پاشا کی ’’قاتل‘‘ 1955ء ریلیز کے اعتبار سے وہ پہلی ہٹ فلم تھی کہ جس کا ری میک بھی کام یاب بلکہ سپرہٹ ثابت ہوا۔ جی ہاں ہمارا اشارہ شباب کیرانوی کی فلم ’’سہیلی‘‘ 1978ء کی جانب ہے، جس کے تمام مرکزی کردار اور کہانی کی ون لائن کو ’’قاتل‘‘ 1955ء سے اخذ کیا گیا تھا، لیکن ماحول، اسکرین پلے اورکرداروں کی سرگرمیاں یکسر یُوں تبدیل کر دی گئی تھیں کہ عام فلمیں کے لیے تو یہ تصور کرنا بھی محال تھا کہ ’’سہیلی‘‘ 1978ء دراصل ’’قاتل‘‘ 1955ء کا نیا روپ ہے، جس میں صبیحہ خانم والا رول ’’شبنم‘‘ نے، سنتوش کمار والا کردار ’’غلام محی الدین نے اور مسرت نذیر والا کردار’’رانی‘‘ بیگم نے ادا کیا تھا، جب کہ اسلم پرویز کے مختصر کردار کو اسٹیبلش کرکے وحید مراد سے کروایا گیا، اگر ’’قاتل‘‘ باکس آفس پر سلور جوبلی ہٹ ، تو اس کا ری میک ’’سہیلی‘‘ نے باکس آفس پر شان دار گولڈن جوبلی منائی۔
1956ء میں ہدایت کار عطاء اللہ شاہ ہاشمی نے بہترین سوشل ڈراما مووی ’’چھوٹی بیگم‘‘ بنائی تھی، جس نے جاندار کہانی، میوزک، کردار نگاری، اور ڈائریکشن وغیرہ جیسے شعبوں میں عمدہ معیار کے سبب شان دار گولڈن فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ 1979ء میں عطاء اللہ شاہ ہاشمی کے شاگرد رشید کے خورشید نے سدھیر اور صبیحہ خانم کے کردار ’’چھوٹی بیگم‘‘ سے ایڈاپ کرکے بالکل نئے منظر نامے کے ساتھ فلم ’’نیا انداز‘‘ بنائی، جس نے شبنم اور لہری کی اعلیٰ کردار نگاری اے حمید کے عمدہ میوزک اور بشیر نیاز کے مضبوط اسکرپٹ کے سبب ’’چھوٹی بیگم‘‘ ہی کی طرح باکس آفس پر شان دار گولڈن جوبلی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1956ء کی ریلیز ہدایت کار انور کمال پاشا کی کاسٹیوم فلم ’’سرفروش‘‘ پاشا صاحب کے کیریئر کی سب سے زیادہ کام یاب فلم تھی جو تقریباً 46ہفتے چلی۔
ہدایت کار اسلم ڈار نے اسی کہانی کو چند جزوی تبدیلی کے بعد 1971ء میں فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ بنائی، جس میں سنتوش کمار والا کردار نصر اللہ بٹ نے صبیحہ خانم والا کردار رانی نے میشا شوری والا کردار نِمّو نے اور شیخ اقبال والا کردار سلطان راہی نے ادا کیا تھا۔ جب کہ خود اسلم ڈار نے اپنے لیے وہ کردار چنا، جو نعیم ہاشمی ’’سرفروش‘‘ میں ادا کرچکے تھے۔ فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ نے باکس آفس پر بہترین بزنس کرتے ہوئے سلور جوبلی منائی۔
اشفاق ملک پچاس کی دہائی میں ایکشن فلم کے اسپیشلسٹ فلم میکر کے طور پر اُبھرے۔ اور شہرۂ آفاق ایکشن فلم ’’باغی‘‘ کے بعد ’’آخری نشان‘‘ ایسی اعلیٰ معیار کی متاثر کُن ایکشن فلم تخلیق کی، جسے جملہ خوبیوں کے سبب عوام میں بے حد پذیرائی ملی، بالخصوص سدھیر کی ایکشن کردار نگاری کو بے حد سراہا گیا۔
اس فلم نے گولڈن جوبلی جیسا بڑا کام یابی کا لینڈ مارک عبور کیا۔ 1979ء میں ممتاز علی خان نے آخری نشان کی کہانی کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ’’گہرے زخم‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ عمدہ ٹریٹمنٹ اور جاندار میوزک کے سبب ’’گہرے زخم‘‘ کو ’’آخری نشان‘‘ ہی کی طرح باکس آفس پر شان دار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔
اشفاق ملک نے 1960ء میں دل چسپ سوشل کہانی پر فلم ’’سلمیٰ‘‘ بنائی، جس میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ یہ اپنے وقت کی ایک نمایاں ہٹ فلم تھی، جو 40سے زائد ہفتے چلی۔ رشید عطرے کا میوزک علائو الدین، یاسمین اور بہار کی عمدہ کردار نگاری سلمیٰ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔
ہدایت کار محمد جاوید فاضل نے 1980ء میں اسی سبجیکٹ پر فلم ’’صائمہ‘‘ کی بنیاد رکھی، جس میں بہار بیگم والا رول بابرہ شریف نے، علائو الدین والا کردار ندیم نے یاسمین والا رول بازغہ نے اور اے شاہ شکاری پوری والا رول لہری نے ادا کیا۔ صائمہ نے اپنی جملہ خصوصیات کے سبب باکس آفس پر زبردست کام یابی حاصل کی اور شان دار گولڈن جوبلی منائی۔
مکالمات، ڈائریکشن اور کردار نگاری کے ضمن میں ’’صائمہ‘‘ ، ’’سلمیٰ‘‘ سے بھی زیادہ متاثر کن فلم تھی۔ ہدایت کار نذیر اجمیری کی سوشل ڈراما مووی ’’پیغام‘‘ 1964ء اپنے وقت کی ایک معیاری اور کام یاب سلور جوبلی فلم تھی، جسے ہدایت کار ایس سلیمان نے 1976ء میں ’’آج اور کل‘‘ کے روپ میں ازسرنو فلمایا۔
شمیم آراء والا کردار شبنم نے اس کمال فن کے ساتھ ادا کیا کہ ’’آج اور کل‘‘ 1976ء کی سب سے بڑی فلم کے طور پر سامنے آئی۔ فلم کا میوزک، اسکرپٹ، ڈائریکشن غرض ہر شعبہ فلم ’’پیغام‘‘ سے بڑھ کر تھا۔ فلم نے پیغام سے کئی گنا زیادہ بڑی کام یابی سمیٹی اور شان دار ڈائمنڈ جوبلی کی سند سے سرفراز ہوئی اور نمایاں شعبوں میں متعدد نگار ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ 1965ء میں مصنف و ہدایت کار عزیز میر بھٹی نے بہت ہی دل چسپ طلسماتی فلم ’’ہزار داستان‘‘ بنائی تھی ، جس میں مرکزی رول محمد علی، رانی اور آغا طالش نے ادا کیے تھے۔
بلیک اینڈ وائٹ دور میں ’’ہزار داستان‘‘ طلسماتی فلموں کی تاریخ کی سب سے کام یاب فلم ثابت ہوئی اور مجموعی طور پر 45ہفتے تک زیر نمائش رہی۔ اسی کہانی کو عزیز میر بھٹی کے شاگرد اقبال کشمیری نے 1981ء میں ’’الہ دین‘‘ کے عنوان سے ری میک کیا، جس میں آغا طالش کی کردار نگاری نقش اول ’’ہزار داستان‘‘ سے بھی بڑھ کر عمدہ و اعلیٰ تھی۔
کمال احمد کا میوزک بھی معیاری تھا۔ رقص اور آرٹ کے شعبے خاص طور پر قابل تعریف تھے، جب کہ فیصل الرحمٰن اور بابرہ شریف نے بھی اپنے اپنے کردار بہ خوبی نبھائے تھے۔ ان تمام خوبیوں کی بدولت ’’الہ دین‘‘ نے بھرپور کام یابی حاصل کی اور گولڈن جوبلی سے ہم کنار ہوئی۔ ظفر شباب نے 1968ء میں فلم ’’سنگدل‘‘ بناکر بہ طور ڈائریکٹر ڈیبیو کیا تھا۔ ’’سنگدل‘‘ ایک نغمہ بار فلم تھی، جس کے مرکزی کردار ندیم اور دیبا نے ادا کیے تھے۔
اس فلم سے مسعود اظفر نے ڈیبیو کیا تھا۔ ایم اشرف کی بھی منظور سے علیحدگی کے بعد یہ پہلی فلم تھی، جسے باکس آفس پر بھرپور کام یابی ملی اور فلم نے گولڈن جوبلی منائی۔ 1978ء میں ظفر شباب ہی نے اس کہانی کو کچھ ترامیم کے ساتھ ’’آواز‘‘ کے عنوان سے فلمایا، جس میں وحید مراد نے ندیم والا کردار اور شبنم نے دیبا والا رول ادا کیا ، جب کہ مسعود اختر والے رول میں غلام محی الدین کو پیش کیا گیا۔
تاہم محمد علی کا کردار ایڈیشنل تھا، جس کی بدولت ’’آواز‘‘ کی باکس آفس ویلیو بہت زیادہ بڑھ گئی۔ ’’آواز‘‘ ہر شعبے میں بہترین معیار کی حامل فلم تھی، جس میں ’’شبنم‘‘ کی بھرپور جان دار عوامی کردار نگاری سب سے بڑا پلس پوائنٹ تھا۔
اے حمید کا میوزک بھی سپرہٹ تھا۔ ان تمام خصوصیات کے سبب ’’آواز‘‘ نے تہلکہ خیز کام یابی حاصل کی اور نہ صرف تیز رفتاری سے پلاٹینم جوبلی منائی، بلکہ مجموعی طور پر 93ہفتے تک دھواں دھار بزنس کیا، جب کہ حیدرآباد میں بھی راحت سنیما پر مجموعی طور پر (25) ہفتے مکمل کرکے شان دار سلور جوبلی منائی۔ 1974ء میں شباب کیرانوی نے ’’آئینہ اور صورت‘‘ بنائی، تو اس فلم کی جداگانہ کہانی، اعلیٰ ترین میوزک اور محمد علی کی دیہاتی کے روپ میں عمدہ کردار نگاری نے اس فلم کو عوامی سطح پر نہایت پسندیدہ فلم کے اعزاز سے ہم کنار کیا۔
فلم نے اعلیٰ بزنس کے ساتھ شان دار گولڈن جوبلی منائی۔ اسی کہانی کو معمولی ردوبدل کے ساتھ 1981ء میں شباب کیرانوی نے ہی ’’لاجواب‘‘ کے ٹائٹل سے فلمایا۔ گو کہ ’’لاجواب‘‘ ایک دل چسپ اور معیاری فلم تھی، جسے باکس آفس پر ’’آئینہ اور صورت‘‘ کے مقابلے میں دُگنا بڑی کام یابی یعنی ڈائمنڈ جوبلی سے یہ فلم ہم کنار ہوئی۔
ندیم، بابرہ شریف، شجاعت ہاشمی کی کردار نگاری عمدہ تھی۔ ایم اشرف کا میوزک بھی معیاری تھا، لیکن یہ فلم کسی بھی شعبے میں ’’آئینہ اور صورت‘‘ کے معیار کی ہر گز ہرگز نہ تھی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس فلم کے حصے میں کام یابی آئینہ اور صورت کی بہ نسبت زیادہ آئی۔ (لے آئوٹ آرٹسٹ: شاہدحسین)