• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ہارون مرزا۔راچڈیل
دنیا کے مختلف ممالک میں موسم سرما کے دوران برفباری ہوتی ہے اور مقامی حکام اور محکمہ موسمیات لوگوں کو حالات سے مکمل طور پر آگاہ رکھتے ہیں اور برفباری کی صورت میں مرکزی شاہرائوں پر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کیلئے جہاں برف ہٹانے والی مشینری کا استعمال کیا جاتا ہے وہیں نمک کا چھڑ کائو بھی موثر طریقہ مانا جاتا ہے، بدقسمتی سے رواں موسم سرما میں پاکستان کے سیاحتی مقام مری میں 24سیاحوں کی دردناک موت نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا، واقعہ پر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے وسیع پیمانے پر تحقیقات شروع کرا دی ہیں، حکومت نے مرنے والوں کے اہل خانہ کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے مالی امداد کا بھی اعلان کیا ہے، یہ واقعہ کیسے اور کیوں ہوا اس سے متعلق حکومت پنجاب کو سانحہ مری کے حوالے سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی گئی جس کے مطابق مری اور گرد و نواح میں موجود سڑکوں کی گزشتہ دو برس سے جامع مرمت نہیں کی گئی اور گڑھوں میں پڑنے والی برف سخت ہونے کے باعث ٹریفک کی روانگی میں رکاوٹ پیدا کرتی رہی، نجی کیفے کے باہر پھسلن ہونے کے باوجود کوئی حکومتی یا ہائی وے کی مشینری موجود نہیں تھی اور اسی پھسلن والے مقام پر مری سے نکلنے والوں کا مرکزی خارجی راستہ تھا مختلف علاقوں میں بجلی نہ ہونے کے باعث سیاحوں نے ہوٹلز چھوڑ کر گاڑیوں میں رہنے کو ترجیح دی، دوسری طرف اس حادثے کے بعد جہاں مری کے ہوٹلوں میں سیاحوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کیا گیا وہ قابل شرم ہے ہوٹلوں کے کمروں کے کرایہ جات ‘ ہیٹر کیلئے ہزاروں روپے وصول کیے جاتے رہے، وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار نے مری کے ہوٹلوں میں اوورچارجنگ کی شکایات پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ہوٹل مالکان کے خلاف کاروائی کا حکم دیا ہے حکومت پنجاب نے اعلان کیا ہے کہ سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو لوٹنے والوں کومعاف نہیں کیا جائے گا، اوورچارجنگ کاروبار نہیں، لوٹ مار کے مترادف ہے جو قطعاً برداشت نہیں ‘مری کانیانام ضلع کوہسار رکھنے کی تجویز بھی سامنے آ گئی ہے اس سلسلے میں کوہسار ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے گی جو تعمیر و ترقی کی ذمہ دار ہوگی رواں سال کا آغاز ملک پر بھاری ثابت ہوا ‘مری کے مرغزاروں اور برف زاروں نے ہمارے دو درجن کے قریب معصوم پاکستانی سیاحوں کی جان لے لی ہر گھر سے آہیں اور اشک ابل رہے ہیں حکومت اور حکمرانوں سے شکوے اور گلے کیے جا رہے ہیں اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت سے صرف پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس چھوٹے سے سیاحتی مقام، مری، میں مصیبت اور آفت میں گھرے ہوئے لوگوں کو بروقت امداد کی جاتی تو حالات شاید مختلف ہوتے وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ ملک میں سیاحت کے فروغ کیلئے بلند وبانگ دعوے کیے اور لوگوں کو سبز باغ دکھائے مگر سب سے بڑے سیاحتی مقام پراتنا بڑا حادثہ انکے تمام تر دعوئوں کی نفی کرتا ہے اس واقعہ میں جاں بحق ہونیوالے تمام افراد پاکستان ہیں کو ئی غیر ملکی سیاح زندگی سے محروم نہیں ہوا اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہم غیر ملکی میڈیا پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتا ضرورت اس امر کی ہے کہ مری سانحہ سے حکومت سبق سیکھتے اور ملک کو حقیقی معنوں میں سیاحتی حوالے سے مثالی بنانے کےلئے پر فضا اور سیاحتی مقامات پر عملی اقدامات کیے جائیں کشادہ سڑکیں ‘ سیاحوں کےلئے سرکاری طو رپر رہائشگاہیں ‘ اور کھانے پینے کی اشیاءکےلئے پرائس کنٹرول اتھارٹیز کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور مستقبل میں ایسے سانحات سے نمٹنے کیلئے مشینری اور ضروری اقدامات کی دستیابی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے ۔
یورپ سے سے مزید