• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام مشکل میں، حکومت ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی، عدالتوں پر بوجھ پڑرہا ہے، چیف جسٹس گلزار احمد

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ عوام مشکل حالات اور مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومتوں کی طرف سے مسائل پر توجہ نہ دینے سے عدالتوں کو بنیادی حقوق کیلئے اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ 

عام اور چھوٹی چیزیں جو حکومتوں کو کرنی چاہئیں وہ نہیں ہو رہیں جس سے عدالتوں پر بوجھ پڑ رہا ہے ، عدالت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ گروہوں کے افراد کیساتھ کھڑے ہونے کا رجحان خطرناک ہے ، سدباب نہ ہوا تو نتائج سنگین ہوں گے۔ 

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ شبر رضا رضوی کی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بطور چیف جسٹس آف پاکستان آئین پر عملدرآمد میری ذمہ داری ہے۔ گورننس بہت پیچیدہ ، مہنگی اور مشکل ہو چکی ہے۔ عوام مشکل حالات اور مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ 

چھوٹی اور عام چیزیں جو حکومت کو کرنی چاہئیں چاہیے وہ نہیں کر رہی۔ سڑکیں بنانا ، پارکوں کی دیکھ بھال ہویا لوگوں کو قانونی تعمیرات کر کے دینے تک کی بنیادی ذمہ داریاں حکومت پوری نہیں کر رہی۔ حکومت کی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے پر عدالتوں پر بوجھ پڑ رہا ہے تاہم عدالت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی۔ 

اس موقع پر سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں آئین کی تشریح کی گئی ہے۔ ملک میں چار مارشل لاز نے آئینی بالادستی کو پامال کیا۔ مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز نے آئین کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا۔ ملک میں صدارتی اور پارلیمانی نظام کے تجربے کئے گئے جبکہ سوشلزم، فری مارکیٹ ، اسلام ازم اور فلاحی ریاست کا تجربہ بھی کیا گیا۔ 

جسٹس ریٹائرڈ آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ملک نے عدالتی نظام میں مختلف تجربات بھی دیکھے ، وقت بتائے گا کہ کون سا تجربہ سب سے زیادہ کامیاب رہا۔ ملک خوشحال تھا لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے یکسر حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ ملک میں بھوک ، افلاس اور خوف ہے۔ 

اللہ کی نا شکری سے معاشرے میں مسائل جنم لیتے ہیں۔ بڑے مسائل کا حل نہ کیا جائے تو ملک میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے جس کا ملک کو ابھی سامنا ہے۔ ملک میں چار پانچ بڑے مسائل ہیں جن کو سمجھ کر مشاورت کر کے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا مسئلہ ہے کہ اسلام کو گورننس پیراڈائم میں کہاں رکھا جائے؟ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کا مذہبی فراہمی میں کیا کردار ہونا چاہئے۔ 

اپوزیشن ہمیشہ حکومت پر کرپشن کے الزامات لگاتی ہے لیکن اپوزیشن حکومت میں آئے تو وہی الزامات ان پر لگتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن مل کر نیب اور الیکشن کمیشن کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔ ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگانے والے تعیناتیاں کریں گے تو عوام کا اعتماد کیسے ہو گا۔ جب تک شفافیت اور احتساب نہیں ہو گا کوئی حکومت سکون سے نہیں چل سکتی۔ 

آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کسی سیاستدان کیخلاف ذاتی کیس ہو تو پوری جماعت دفاع میں آ جاتی ہے۔ اپنے دھڑے کیساتھ کھڑے ہونے کی روایت سے میرٹ کا قتل ہوتا ہے۔ ایک وکیل کیخلاف پرچہ ہو تو پورے ملک میں ہڑتال ہو جاتی ہے۔ 

ایک سابق فوجی کو خصوصی عدالت سے سزا ہوئی تو فوج نے ٹی وی پر کہا ہم رنجیدہ ہیں۔ فوجی ترجمان کے مطابق پاک فوج ایک فیملی ہے ، یہ خطرناک رجحان ہے ، اس کا سدباب نہ ہوا تو نتائج سنگین ہوں گے۔ 

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ پاکستان دو لخت ہوا تو ملک میں متفقہ آئین نہیں تھا ، ہمارا قومی سانحہ ہے کہ ملک کے قیام کے بعد 1973 میں جا کر آئین پر اتفاق رائے ہوا۔

پاکستان بننے کے بعد انتخابات میں کہا گیا کہ مسلم لیگ کیخلاف ووٹ دینے والا مسلمان نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں فیصلے جمہوری روایات کے مطابق کئے جاتے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید