معاشرے میں ایک دوسرے سے دُوری،لاتعلقی، غلط فہمیوں اور دیگر مسائل کے باعث عَدم برداشت اور پُر تشدد واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ لوگ معمولی سی باتوں پر لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے پیاروں اور چاہنے والوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔اس پُر تشدد رویے نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور نئی نسل پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
شہر کے مختلف علاقوں سے آئے روز پُر تشدد لاشیں ملتی ہیں، لڑائی جھگڑوں میں روزانہ متعدد لوگ قتل اور زخمی ہو جاتے ہیں، تلخ کلامی پر بات جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے اور لاٹھیوں، ڈنڈوں اور چھریوں سے ایک دوسرے پر حملے کیے جاتے ہیں۔ معمولی باتوں پر بات تھانوں تک پہنچ جاتی ہے، یہاں تک کہ بچوں کی لڑائیوں میں بھی بڑے کود پڑتے ہیں اور پھر بات مرنے مارنے تک پہنچ جاتی ہے۔ نوجوان اور بالخصوص خواتین گھریلو جھگڑوں اور ناچاکیوں کے باعث خودکشیاں کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔
گزشتہ دنوں اینٹی وائلنٹ کرائم سیل ( اے وی سی سی ) نے اغواء کے بعد قتل ہونے والے شخص کی بیوی اور ساتھیوں کو گرفتار کر کےمقتول کی ہڈیاں برآمد کر لیں۔ ایس ایس پی اے وی سی سی معروف عثمان کے مطابق مقتول گل محمد ولد قدرت علی 30 ستمبر 2020 کو لاپتہ ہوا، جس کا مقدمہ 1200/21 زیر دفعہ365/34 ت پ کے تحت تھانہ شاہ لطیف میں درج ہوا۔
مدعی کی درخواست پر مقدمے کی تفتیش 18 نومبر 2021 کو اے وی سی سی ٹرانسفر ہوئی۔ تفتیشی افسر نے انتہائی حکمت عملی سے اصل ملزموں کو گرفتار کیا اور ملزم کی نشاندہی پر مقتول(نعش) کی ہڈیاں ضلع خوشاب، صوبہ پنجاب کے بیابان علاقے سے برآمد کیں۔
انہوں نے بتایا کہ مقتول کی اپنی بیوی رابعہ بھی قتل میں ملوث نکلی، جس نے اپنے آشنا مرتضیٰ اور دوست علی حمزہ کے ساتھ مل کر مغوی کا قتل کیا۔ ملزم علی حمزہ نے مجسٹریٹ کے سامنے 164 بیان میں اقبال جُرم کر لیا۔ مقدمہ میں 302 ت پ کا اضافہ کر کے قتل میں ملوث دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔
برآمد شدہ ہڈیاں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری میں ارسال کر دی گئیں۔دوسرے واقعہ میں شاہ فیصل گرین ٹاؤن میں لیاقت ولد محمد رفیق نامی شخص کے قتل میں اس کی بیوی کو گرفتار کر گیا۔ ایس ایس پی کورنگی شاہ جہان خان کے مطابق 2 جنوری 2021 کو کو شاہ فیصل کالونی پولیس کو اطلاع ملی کہ مکان نمبر MC-961 نزد جیو بیکری گرین ٹاؤن میں کچھ نامعلوم افراد نے ایک شخص کو قتل کر دیا ہے، جس پر پولیس پارٹی موقع پر پہنچی اور متوفی لیاقت ولد رفیق کی لاش کو کارروائی کے لیے اسپتال روانہ کیا۔
پولیس نے تحقیقات کیں تو مالک مکان راشد نے بتایا کہ ایک ماہ قبل کمال نامی شخص نجمہ خاتون کے ساتھ آیا تھا اور مکان کرایہ پر لیا تھا، ایک ہفتہ قبل لیاقت نامی شخص مکان میں آیا، جس کا کمال سے جھگڑا ہوا، تو ہمیں معلوم ہوا کہ نجمہ لیاقت کی بیوی ہے، شور شرابہ ہونے پر کمال گھر سے بھاگ گیا، جس کے بعد لیاقت کبھی کبھی اپنی بیوی سے ملنے آتا رہتا تھا۔
شاہ فیصل کالونی پولیس نے شک کی بِنا پر مقتول کی بیوی نجمہ خاتون کو شامل تفشیش کیا اور پوچھ گچھ کی، جس پر نجمہ خاتون نے قتل کا اعتراف کیا اور بتایا کہ میرے کمال کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اور ایک ماہ قبل ہم نے یہ مکان کرایہ پر لیا تھا اور میں اپنے شوہر سے ناراض ہو کر کمال کے ساتھ یہاں رہ رہی تھی، چند روز قبل لیاقت کو پتہ چل گیا اور وہ یہاں آیا اور مجھے کمال کے ساتھ دیکھ لیا، تو اس کی کمال کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی اور شور شرابہ ہونے پر کمال یہاں سے بھاگ گیا ،اس کے بعد کمال مجھے اپنے ساتھ ملیر ہالٹ ریلوے اسٹیشن لے گیا، جہاں پر بیٹھ کر ہم نے لیاقت کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اسی دن شام کو میں نے لیاقت کو فون کال کرکے گھر بلایا۔
جب لیاقت گھر میں آیا اور ٹی وی دیکھ رہا تھا، تو کمال نے پیچھے سے اس کے سر میں ڈنڈا مارا اور اس کے اوپر بیٹھ گیا اور تیز دھار کلپ اس کے پیٹ اور کمر پر مارا، جس سے وہ زخمی ہو گیا، تو میں نے لیاقت کے پاؤں باندھے اور اپنا دوپٹا کمال کو دیا ،کمال نے دوپٹہ لیاقت کے گلے میں باندھ کر کھینچا اور گلا دَبا کر جان سے مار دیا اور مجھے بولا کہ تم شور مچاؤ کے کچھ لڑکوں نے میرے شوہر کو چُھریاں مار کر قتل کر دیا، جس پر شاہ فیصل پولیس نے ملزمہ کو باضابطہ گرفتار کرکے تفتیشی حکام کے حوالے کردیا۔
واقعہ کا مقدمہ تھانہ شاہ فیصل میں متوفی کے والد کی مدعیت میں مقدمہ الزام نمبر: 03/2022 بجرم دفعہ 302/34 کے تحت درج کرلیا گیا۔ملزم کمال کی تلاش جاری ہے۔ تیسرے واقعہ میں شاہ راہ فیصل تھانہ کے شعبہ انویسٹی گیشن نے ڈیڑھ ماہ قبل لڑکی کے قتل میں ملوث مقدمے کے مدعی اور مقتولہ کے والد کو قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا۔
ایس پی انویسٹی گیشن ضلع ایسٹ الطاف حسین کے مطابق شاہ راہ فیصل تھانے کی حدود بلاک 12، گلستان جوہر میں قمروش نامی 16 سالہ لڑکی کے اندھے قتل کا معمہ حل کرلیا گیا ہے اور مقتولہ کے حقیقی باپ زین العابدین عرف ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کے مطابق زین العابدین نے اپنی بیٹی کو اپنے پڑوسی عدیل لاشاری کے ساتھ ناجائر تعلقات کے شبہ میں قتل کیا۔ قتل کے بعد ملزم خود ہی مقدمہ کا مدعی بھی بن گیا۔
ابتدائی طور پر ملزم نے پولیس کو بتایا تھا کہ وقوعہ والے روز کسی نامعلوم شخص نے اس کے گھر کا پچھلا دروازہ بجایا اور جونہی اس کی بیٹی قمروش نے دروازہ کھولا، اس کے سر پر ایک گولی مار کر فرار ہو گیا۔ تفتیشی افسران کو جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم پستول کا ایک خول ملا تھا، جو پولیس نے قبضہ میں لے کر معائنہ کے لیے بجھوا دیا تھا۔ واردات کے بعد ملزم جو اس مقدمہ کا مدعی بھی تھا، پولیس کو مختلف کہانیاں سُنا کر گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
شاہ راہ فیصل انویسٹی گیشن ٹیم نے تیکنیکی بنیاد پر قتل کے اصل محرکات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ملزم زین العابدین کا لائسنس یافتہ نائن ایم ایم پستول قبضہ میں لے کر معائنہ کے لیے فارنزک لیب بھجوایا، جہاں سے آنے والی رپورٹ میں یہ تصدیق ہوگئی کہ موقع واردات سے ملنے والا خول ملزم کے پستول سے ہی فائر کیا گیا تھا۔
لہذا ملزم زین العابدین کو باضابطہ مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ دوران تفتیس ملزم نے انکشاف کیا کہ وقوعہ والے روز اس نے باقاعدہ پلاننگ کے تحت اپنے گھر کے پچھلے دروازے پر دستک دی اور جونہی قمروش نے دروازہ کھولا، ملزم نے اپنے پستول سے اس کے سر پر ایک فائر کیا، جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئی، جس کے بعد ملزم پچھلی گلی سے ہی موقع سے فرا ر ہوگیا۔ اور پھر اپنی بیوی کے فون کرنے پر چند لمحوں میں ہی واپس گھر پہنچ گیا۔
ملزم زین العابدین عدیل لاشاری کو بھی قتل کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ اپنے والدین کے ساتھ وقوعہ والے روز ہی کسی اور مقام پر منتقل ہوگیا تھا۔ چوتھا واقعہ اورنگی ٹائون میں پیش آیا، جہاں تھانہ اقبال مارکیٹ طوری بنگش پولیس چوکی کے قریب گھر کے اندر سے دو ماہ کی بچی حیات دختر علی کی گزشتہ روز لاش ملی، جسے عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا ، بچی کے جسم پر کسی چوٹ یا تشدد کا نشان نہیں تھا۔
پولیس نے بتایا کہ بچی کے والد اختر نے دو شادیاں کی ہوئی ہیں اور اس کے والد نے پولیس کو بیان دیا کہ اسے شک ہے کہ اس کی بیوی نے بچی کو کچھ کھلادیا ہے، جس سے اس کی موت واقع ہوئی ، پولیس نے بچی کے والد کے شک کی بنیاد پر بچی کا پوسٹ مارٹم کروانے کا کہا ہے ، پوسٹ مارٹم کی رپورٹ موصول ہونے پر ہی موت کی وجہ معلوم ہوسکے گی اور رپورٹ کی روشنی میں ہی تفتیش کو مزید آگے بڑھایا جائے گا ۔یہ حالیہ دنوں کے چند واقعات ہیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔
خاندان کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کے سوسائٹی بالخصوص بچوں پر اثرات کے حوالے سے ریسرچ کرنے والے ادارے’’فارایور‘‘کے ڈائریکٹر ریسرچ محمد اسعد الدین نےہم سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’گزشتہ کچھ عرصے سے گھریلو اختلافات اب پرتشدد واقعات میں تبدیل ہوگئے ہیں، معمولی تلخی جان لینے اور جان دینے تک پہنچ جاتی ہے، اس کی بنیادی وجوہات ہماری’’ لائف کوالٹی‘‘ اور’’فاصلے‘‘ ہیں۔
اس وقت عمومی مشاہدہ ہے کہ ہر فرد ہر وقت مصروف ہے،مصروفیت کے اسی کلچر نے غیر محسوس انداز میں رشتوں، گھر، خاندان گلی محلے اور پوری سوسائٹی میں ایک فاصلے، ایک دوسرے سے دُوری، لاتعلقی پیدا کردی ہے، جس کی وجہ سے لوگ آپس میں بات چیت کرنے، ایک دوسرے کے حالات، مصروفیات، مسائل، مشکلات، احساسات، جذبات سے بے خبر ہوتے جا رہے ہیں، بیوی کو شوہر کی مصروفیات، مسائل الجھنوں کا پتا نہیں، شوہر بیوی کی مشکلات کی خبر نہیں، بچے ماں باپ سے اپنے جذبات و احساسات شیئر کرنے کو ترس رہے ہیں۔ والدین کو علم نہیں کہ بچے کیا کر رہے ہیں، ایک کمیونکیشن گیپ ہے، ایموشنل گیپ ہے، مینٹل گیپ ہے، صورت حال مسلسل خراب ہورہی ہے، اس کے لیے فوری کرنے کا کام یہ ہے لائف اسٹائل کے بہ جائے کوالٹی آف لائف کو فوکس کیا جائے، خود ساختہ مصروفیت کو فورا ختم کرکے زیادہ سے زیادہ وقت گھر والوں کے ساتھ گزارا جائے۔
ان کی سُنی جائے اپنی کہی جائے‘‘محمد اسعد الدین کا کہنا تھا کہ ’’ مسلسل مصروفیت سے پہلے فاصلے پیدا ہوتے ہیں، کچھ عرصہ کے بعد اکتاہٹ، بے زاری اور پھر غلط فہمیاں اور بد گمانیاں پیدا ہوتی ہیں، اس کے بعد وقت بے وقت جھنجلاہٹ اور غصہ اپنا رنگ دکھانا شروع کرتا ہے، جو بڑھتے بڑھتے انتقام تک پہنچتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آدمی ابتدا میں ہی انتہائی قدم اُٹھاتا ہے، حالیہ دنوں میں باپ کے ہاتھوں بیٹی، بیوی کے ہاتھوں شوہر کے قتل کے واقعات ہوئے ہیں، سوچا اور غور کیا جائے تو یہ رشتے محبت کے اٹوٹ رشتے ہیں، لیکن فاصلوں نے غلط فہمیوں، بدگمانیوں کو جنم دیا اور ہوتے ہوتے اپنوں نے اپنوں کی جان لے لی۔
اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے ریاست کو ترغیبی مہمات چلانی چاہیے کہ لوگ اپنوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور دوسری طرف ایسے قوانین بنانے چاہیے کہ کوئی آسانی سے ایسا انتہائی قدم نہ اٹھا سکے۔