• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوی سیلنگ کلب، معاملہ وزیراعظم کے سامنے نہیں رکھا تو سیکریٹری کابینہ کل پیش ہوں، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ پوچھ کر بتائیں نیوی سیلنگ کلب گرانے اور سابق نیول چیف کے خلاف فوجداری کارروائی کا عدالتی فیصلہ وزیراعظم اور کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت پر عملدرآمد ہوا یا نہیں؟ 

عدالت نے کہا کہ اگر فیصلہ کابینہ کے سامنے نہیں رکھا گیا تو سیکرٹری کابینہ ڈویژن 19 جنوری کو خود پیش ہوں۔جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ نیول فارمز کیلئے زمین کس نے خریدی؟ 

مقصد کیا تھا؟ انتقال کس کے نام ہوا؟ پیر کو عدالت عالیہ اسلام آباد کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ایڈمرل ریٹائرڈ ظفر محمود عباسی کی جانب سے اشتر اوصاف ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کی جس میں سنگل بنچ کے نیوی سیلنگ کلب کو گرانے اور سابق چیف آف نیول اسٹاف کے خلاف فوجداری کارروائی کے عدالتی حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ 

انٹراکورٹ اپیل میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ درخواست گزار 45 سال پاکستان نیوی میں افسر رہا۔ 2017 سے 2020 تک پاکستان نیوی کی کمانڈ کی۔ 

جس درخواست پر فیصلہ سنایا گیا وہ قابل سماعت ہی نہیں تھی۔ سنگل بنچ نے پٹیشنر کو وہ ریلیف دیا جو پٹیشن میں مانگا ہی نہیں گیا تھا۔ اپیل کنندہ کے خلاف پٹیشن میں فوجداری کارروائی کی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی لہٰذا سنگل بنچ کا 7 جنوری کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ 

دوران سماعت اشتر اوصاف ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ سابق چیف آف نیول اسٹاف نے غیر قانونی عمارت کا افتتاح کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔ 

وزیراعظم نے 23 اگست 1991 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جسکے تحت چیف آف نیول اسٹاف کو پاکستان بھر میں واٹر سپورٹس کا پیٹرن انچیف بنایا گیا۔ 

نیوی سیلنگ کلب کی عمارت 1994 میں دی گئی۔

اہم خبریں سے مزید