• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی، موضوع پھر زیر بحث

کراچی(نیوز ڈیسک ) پاکستان میں میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر ان دنوں بحث چھڑی ہوئی ہے کہ ملک کے اندر پارلیمانی نہیں بلکہ صدارتی نظام حکومت ہونا چاہیے جس میں ملک کا صدر ملک کی بہتری کے لیے اپنے طور پر اقدامات کرنے کے لیے بااختیار ہوتا ہے اور اسے پارلیمانی اکثریت کی محتاجی نہیں ہوتی اور اس حوالے سے صدارتی نظام کے حامی امریکہ کے صدارتی نظام کی بطور خاص مثال دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ کے صدارتی نظام میں ہر چند کہ صدر آئینی طور پر اپنی کابینہ کے وزراء ارکان پارلمنٹ میں سے لینے کا پابند نہیں ہے، لیکن وہ اپنی کابینہ کے ارکان اور دوسرے اعلیٰ سفارتی اور سرکاری عہدوں کے لیے اپنے نامزد کردہ لوگوں کی کانگریس سے منظوری لینے کا پابند ہے۔

 اس کے علاوہ بھی زیادہ تر کام ایسے ہوتے ہیں جن میں اگر صدر اور کانگریس کے درمیان اختلاف ہو تو صدارتی فرمان کے ذریعے کام چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ ایک مخصوص مدت تک چل سکتا ہے اور آخر کار منظوری کے لیے کانگریس کے پاس آنا پڑتا ہے۔ 

پاکستان میں نظام میں تبدیلی کے حوالے سے جو بحث چل رہی ہے وہ بہت متنوع ہے اور سیاسی امور کے ماہر اور آئینی اور قانونی امور پر نظر رکھنے والے اس سلسلے میں مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ 

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش ایک کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں۔ اس بارے میں امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس قسم کی مباحثے چلتے رہتے ہیں خاص طور اس وقت جب پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹنی ہو تو اس قسم کی باتیں کی جاتی ہیں کہ اس نظام میں چونکہ وزیراعظم پابند ہوتا ہے ارکان پارلمنٹ کی حمایت کا اس لیے وہ کام نہیں کر پاتا جبکہ صدارتی نظام میں جیسے کہ امریکہ میں ہے۔

اہم خبریں سے مزید