• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوکرین کے مسئلے پر روس امریکا مذاکرات ناکام

سوئزرلینڈ کے شہر جینوا میں روس کے نائب وزیر خارجہ اور امریکہ کے ڈپٹی وزیر خارجہ کے مابین یوکرین اور کریمہ کے مسئلے پر طویل مذاکرات ہوئے۔ روس نے بار بار یوکرین کو جنگ کی دھمکیاں دیں ہیں اس کے علاوہ یوکرین کے سرحد پر روسی ٹینک بڑی تعداد میں جمع ہوگئے ہیں۔ میڈیا کے مطابق روس کسی وقت بھی کچھ کرسکتا ہے۔ 

اس صورت حال میں امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک بیان میں روس کے حالیہ اقدام کی شدید مذمت کی اور روس کو فوری طور پر کریمہ کا علاقہ خالی کرنے اور ٹینک پیچھے ہٹانے کا مطالبہ کیا مگر روس نے ایک بیان میں کہا کہ کریمہ ہمارا علاقہ ہے یوکرین اپنا دعویٰ واپس لے بصورت دیگر روس بڑی کارروائی کرے گا۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ترش بیانات نے مسئلے کو مزید سنگین بنادیا ہے۔

جینوا میں ہونے والے روس امریکہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔ دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ جاری صورت حال سے مشرقی یورپی ممالک سمیت سب ہی تشویش میں مبتلا ہیں۔

درحقیقت روس ہر طریقے سے یوکرین کو مغربی ممالک کے قریب جانے، تجارتی ثقافتی معاہدے کرنے سے روکنا چاہتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 2016ء میں امریکہ اور یورپی یونین نے یوکرین کے ساتھ بہت بڑا تجارتی اور ثقافتی معاہدہ کرنے پر اتفاق کرلیا تھا مگر یکایک یوکرین کے صدر وکٹر وینکولوچ نے معاہدہ کرنے سے انکار کردیا اس پر یوکرین کے عوام بھڑک اٹھے عوام کی خواہش تھی کہ یوکرین یورپی یونین کے ساتھ معاہدہ کیا جائے تاکہ یوکرین کو بھی یورپی یونین کا رکن بننے کا موقع مل سکے۔ 

جبکہ روس صدر ولادی میر پیوٹن یوکرین کو یورپی یونین اور امریکہ کے دائرہ اثر سے دور رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ روس کو خدشہ ہے کہ یوکرین یورپی یونین کے قریب چلا گیا تو پھر مشرقی یورپی ممالک بھی ایک ایک کرکے روس کے دائرہ اثر سے نکل کر یورپی یونین میں شامل ہونے لگیں گے۔ روسی صدر کے خدشات ایک لحاظ سے درست ہیں کیونکہ یورپی مبصرین کی رائے میں اکیسویں صدی کی نوجوان نسل تبدیلی چاہتی ہے۔ مغربی کلچر، ہالی ووڈ موویز، ڈسکو موسیقی یہ سب کچھ انہیں بہت پرکشش لگتا ہے۔

روسی صدر نے ایسے میں مغرب کا دروازہ بند کرنے کے لئے آبنائے کریمہ پر دعویٰ کردیا۔ اس طرح روس اور یوکرین کے مابین شدید کشیدگی بڑھتی چلی گئی ہے۔ سچ یہ ہے کہ آبنائے کریمہ یوکرین کا حصہ رہا ہے۔ روس اور یوکرین کے مسئلے کو سلجھانے کے لئے طے ہوا کہ ریفرنڈم کرایا جائے کیونکہ ابنائے کریمہ میں روسیوں کی تعداد زیادہ سے 2014ء میں ریفرنڈم کرایا گیا روسی باشندے یوکرین کے حامیوں کو ووٹ ڈالنے سے روکتے رہے اس طرح دھاندلی کے الزامات کے ساتھ ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا گیا۔ 

یورپی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سارا ڈرامہ روسی صدر کا ہے جو کبھی نہیں چاہتے کہ یوکرین جمہوریت کا راستہ اپنائے مغربی کلچر یہاں عام ہو اس لئے انہوں نے یوکرین کو ہراساں کرنا شرورع کیا۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد روسی صدر نے اپنی پارٹی سرکل میں کہا کہ اگر امریکہ نے یوکرین کے مسئلے پر مداخلت کی تو پھر روس کیوبا اور وینزیلا میں اپنی فوجیں رکھے گا۔ مگر روسی ذرائع اس کی تردید کرتے ہیں۔ 

واضح رہے کہ ساٹھ کی دہائی میں روس اپنے مزائل کیوبا میں نصب کرنے کے لئے روانہ کرچکا تھا وہ سرد جنگ کا گرم دور تھا ایسے میں امریکہ نے نیوی کے جہاز بحراوقیانوس میں بجھجوا دئیے اور دونوں سپر طاقتوں کے مابین جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ روس کے جہاز واپس چلے گئے۔ اب پھر لوگوں کو لگتا ہے کہ روسی صدر پیوٹن ایسا ہی کچھ کرسکتے ہیں۔ 

بعض مغربی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ بیانات دینے اور پابندیاں عائد کرنے تک محدود رہے گا اور روس کچھ نہ کچھ کر گزرے گا۔ روس کو ایک اور سہولت حاصل ہے کہ چین نے جنوبی امریکی ممالک اور کیریبین جزائر میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرچکا ہے اور یہاں فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔ یوں بھی وینزیلا اور کیوبا میں روس کے لئے نرم گوشہ رکھنے والی حکومتیں قائم ہیں۔

مشرقی یورپ میں واقع یوکرین جس کا رقبہ چھ لاکھ مربع کلومیٹر، آبادی کے لحاظ سے یوکرینین 77فیصد، روسی 19فیصد ہیں باقی دیگر باشندے ہیں۔ مجموعی آمدنی 622بلین ڈالر اور مجموعی اوسط آمدنی پانچ ہزار ڈالر سے کچھ زائد ہے۔ یوکرین غریب ملک ہے۔ عوام پسماندگی سے پریشان ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران یوکرین نے بہت بڑے نقصان اٹھائے، معیشت تباہ ہوگئی پھر وہ سابقہ سوویت یونین کا حصہ بن گیا۔ 1991ء میں روس سے الگ ہونے کے بعد یوکرین کو امید تھی کہ یورپی یونین میں شامل ہوکر معیشت کو سدھارے مگر یوکرین کے صدر نے جو کمیونسٹ پارٹی کا رہنما تھا یورپی یونین کو مسترد کردیا پھر روس نے بھی یورپی یونین کو یوکرین کے قریب نہیں آنے دیا۔ آبنائے کریمہ پر بھی قابض ہوگیا۔

سچ یہ ہے کہ یوکرین کے مظلوم عوام مزید غربت کا شکار ہورہے ہیں۔ کریمہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ یوکرین کی مشرقی شمالی سرحدوں کے آس پاس کی زمین کھلی ہے۔ بڑا علاقہ ہے خدشہ ہے کہ اگر روس نے اپنے ٹینک سرحد میں داخل کردئیے تو یہ بآسانی میدانی خطہ میں دوڑتے آگے آجائیں گے جبکہ آبنائے کریمہ کے آس پاس نیوی کے جہاز کھڑے کردئیے ہیں اور اس طرح روس میدانی اور آبی علاقوں میں یوکرین کا محاصرہ کرچکا ہے۔ 

یورپی یونین اور نیٹو ممالک اس صورت حال سے خاصے پریشان ہیں۔ تاہم جرمنی روسی صدر پیوٹن پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کررہا ہے کہ کشیدگی کی سطح کو کم سے کم کیا جائے یوکرین کا محاصرہ ختم کیا جائے۔ جو مسئلہ ہے اس کو مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے۔ جرمنی یورپ کا اہم ملک ہے اور اس کے روس سے بہت بہتر تعلقات ہیں۔ یورپی ممالک کو بھی امید ہے کہ جرمنی ہی درجہ حرارت میں کمی لاسکتا ہے۔ یہ طے ہے کہ روس آبنائے کریم سے واپس نہیں جائے گا۔ اگر جائے گا تو بڑی سودے بازی کے بعد۔