• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد نوے کی دہائی میں جو وسطی ایشیائی ریاستیں روس سے علیحدہ ہوگئی تھیں اور اپنی اپنی آزاد خودمختار حکومتیں تشکیل دی تھیں، ان میں قازقستان بھی شامل تھی۔ اس کا رقبہ ستائیس لاکھ مربع کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ آبادی دو کروڑ پانچ لاکھ اور سالانہ مجموعی آمدنی پانچ سو ستر بلین ڈالر ہے، سالانہ اوسط آمدنی دس ہزار ڈالر سے کچھ زائد ہے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کی تاریخ قدیم ہے۔ ماضی بعید میں یہ علاقہ بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ نہ تھا۔ 

چنگیز خان نے بڑی تباہی مچائی، ایرانی آئے، ترک آئے اور انہوں نے اپنی اپنی حکومتیں قائم کیں۔ اس طرح یہ خطہ جنگ و جدل کا نشانہ بنتا رہا پھر ان ریاستوں سے روس پر بھی حملے ہوتے رہے ، بعدازاں روس نے ان ریاستوں پر حملہ کرکے انہیں اپنی قلمرو میں شامل کرلیا تھا۔ نوے کی دہائی میں قازقستان میں قازق کمیونسٹ پارٹی فعال تھی ایسے میں نور سلطان بایوف صدر بن گئے۔ ان کی حکومت کا دورانیہ ہرچند طویل رہا مگر ریاست نے خاطرخواہ ترقی نہیں کی۔ 

روس سے آزاد ہونے کے بعد قازقستان کے عوام کو بڑی امیدیں تھیں کہ ریاست ترقی کی نئی منزلیں طے کرے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ 1986ء میں قازقستان میں سوویت یونین سے آزاد ہونے کی ایک بڑی تحریک ابھری، جس میں سیکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، ہزاروں کو جیل جانا پڑا۔ قازق عوام اس تجربے سے گزر چکے تھے۔ سیاسی شعور اور نظم و ضبط رکھتے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں۔ قازقستان میں عام انتخابات ہوئے، ان انتخابات کو برطانیہ کے واچ ڈاگ نے شفاف قرار دیا۔ نور سلطان نذر بایوف صدر بن گئے مگر کہا جاتا ہے کہ افغان وار پھر کووڈ19- کی وجہ سے ریاست پر معیشت کے بڑے مہیب اثرات پڑے۔ 

ایسے میں عوام میں بے چینی بڑھنے لگی تب نور سلطان بایوف نے استعفیٰ دے دیا، بعدازاں موجودہ صدر قاسم جومارٹ قائم مقام صدر بن گئے۔ قاسم جومارٹ چند برس وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز رہے تھے، کچھ عرصہ ڈپٹی پرائم منسٹر رہے۔ اقوام متحدہ کی جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے تنظیم آئی اے ای اے کے ساتھ جوہری معاہدہ کے حوالے سے بھی قاسم جومارٹ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ سوویت یونین سے علیحدگی کے وقت قازقستان میں جوہری ہتھیار موجود تھے جو اب بھی اس کے پاس ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ علیحدگی کے وقت ان ریاستوں میں سوویت یونین کے جوہری ہتھیار موجود تھے جن پر اب ان ریاستوں کا قبضہ ہے۔ 

مزید برآں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہت سے ہتھیار وہاں سے اسمگل ہوئے اور کچھ فروخت کئے گئے، یہ خداشات موجود ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی نے ان ریاستوں کو ایک معاہدے کے ذریعے پابند کیا ہے کہ وہ یہ ہتھیار فروخت نہیں کریں گے، اس کے بارے میں معلومات فراہم اور کوئی مواد بھی فروخت نہیں کریں گے۔ اس معاہدے پر قاسم جومارٹ کے دستخط ہیں مگر مختلف ذرائع کا دعویٰ تھا ان نوزائیدہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے حکمراں اور اشرافیہ بدعنوانی و کرپشن میں گلے گلے تک ڈوبی ہوئی ہے، ایسے میں جوہری ہتھیاروں کا محفوظ رہنا مشکل ہے۔ 

خیال ہے کہ بہت سے میزائل اور جوہری ہتھیار فروخت ہوچکے ہیں تاہم حتمی طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ماہ جنوری کے اوائل ہی سے عوامی تحریک زور پکڑتی جارہی تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے اپنا بوجھ کم کرنے کیلئے تیل، بجلی اور دیگر اشیائے صرف پر سے سبسڈی ختم کردی، ایسے میں مہنگائی بڑھ گئی۔ عوام کا کہنا ہے کہ قازقستان تیل، قدرتی گیس سمیت یورینیم کے بہت بڑے ذخائر رکھتا ہے۔ اس کے پاس پندرہ سے زائد قیمتی معدنیات بھی موجود ہیں جس سے حکومت کو خاصا بیرونی زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ 

قازقستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے تو پھر یہ پیسہ کہاں جاتا ہے، ملک میں ابتری اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ 2؍جنوری سے عوام کی مہنگائی اور نااہل حکومت کے خلاف پرامن تحریک شروع ہوچکی ہے۔ تحریک کو بیرونی میڈیا نے بھی ہر طرح سے پرامن قرار دیا مگر اچانک حکومت نے احتجاجی تحریک ختم کرنے کیلئے جو اقدام کئے، اس سے عوام بھڑک اٹھے۔ ایسے میں تاحال دو سو سے زائد افراد ہلاک اور پانچ ہزار سے زائد افراد کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس طرح ہنگامے پوری ریاست میں زور پکڑ چکے ہیں۔ ہر چند کہ سیاسی رہنمائوں اور حکومت کے مابین مذاکرات بھی ہوئے مگر احتجاجی تحریک مزید زور پکڑتی جارہی ہے۔ 

مغربی قازقستان میں عوام کی قوت خرید کم ہے، وہاں ہنگامے زیادہ ہیں۔ یہ ریاست کا بڑا شہر ہے اس لئے یہاں بھی ہنگامے اور احتجاج زوروں پر ہے۔ سڑکوں پر فوجی گاڑیاں اور فوجی دکھائی دیتے ہیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا بھی یہ کہنا ہے کہ قازقستان کے حالات مخدوش ہیں۔ صدر قاسم جومارٹ ہنگاموں پر قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ 

حکومتی ذرائع ہنگاموں کو تیز کرنے کا الزام کبھی مغربی قوتوں پر ڈالتے ہیں تو کبھی روس کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ خرابیاں، کوتائیاں اور بدعنوانیاں یہ سب بیماریاں اندرونی ہیں۔ زیادہ تر حکمراں ان مسائل کو بیرونی سازش کا ڈھنڈورا پیٹ کر عوام کی توجہ اصل حقیقت سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قازقستان کے عوام تعلیم یافتہ، باشعور اور نظم و ضبط کے پابند ہیں، وہ ان سطحی باتوں سے متاثر نہیں ہوسکتے۔ 

وہ اپنے جائز مطالبات کو منوانے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا کا مفاد اس میں ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں جمہوری حکومتیں قائم رہیں، معیشت آزاد رہے، فری ٹریڈ جاری رہے اور دوطرفہ تعلقات مستحکم رہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے قیمتی قدرتی وسائل سے بآسانی مستفید ہوسکیں۔ 

مثلاً قازقستان کے پاس یورینیم کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے، دیگر قیمتی معدنیات بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ اسی طرح دیگر ریاستوں ازبکستان، آذربائیجان، قرقستان وغیرہ بھی قدرتی وسائل میں مالا مال ہیں، لہٰذا ان ریاستوں کو روس اور چین سے بچا کر رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور اظہاررائے کی آزادی کا چلن عام ہو کیونکہ روس اور چین ان جدید سیاسی لوازمات کو اپنے ملکوں میں بہت پہلے مسترد کرچکے ہیں۔

قازقستان کے موجودہ نئے صدر بھی کمیونسٹ نظریئے کے حامی رہے ہیں، اس لئے ان کے بعض اقدام اور قوانین سے عوام مطمئن نہیں ہیں۔ ہر جگہ اولین مسئلہ لازمی خوراک اور دیگر بنیادی اشیاء کی ارزاں قیمت پر فراہمی ہے۔ ان ضروریات کے بعد ان کے اہم مسئلے تعلیم اور صحت عامہ ہیں۔ غریب ممالک میں یہ مسائل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ عوام کے پاس قوت خرید نہیں، خواص کرپشن میں ملوث اور حکمراں طبقہ نااہل ہے مگر قازقستان کی صورتحال ایسی نہیں ہے۔ یہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ تیل، قدرتی گیس، قیمتی لکڑی اور دیگر معدنیات فروخت کررہا ہے۔ 

صنعتی یونٹ کام کررہے ہیں، زرعی پیداوار زیادہ نہیں مگر ضرورت پوری کرتی ہے، پھر اس کے باوجود ریاست میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں بڑا اضافہ، سبسڈی کا خاتمہ، دیگر سہولتوں میں بھی کٹوتی سمجھ سے باہر ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک قازق عوام بہت زیادہ خوشحال نہ سہی مگر آسودہ حال زندگی بسر کررہے تھے، مطمئن تھے، پرامن تھے۔ جاری صورتحال میں ریاست کی پرانی سیاسی جماعتیں بھی دھول جھٹک کر سڑکوں پر آگئی ہیں۔ ایسے میں قازق کمیونسٹ پارٹی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے چونکہ موجودہ صدر قاسم جومارٹ کا تعلق بھی کمیونسٹ پارٹی آف قازقستان سے ہے، اس لئے انہیں بھی پریشانی لاحق ہوگی۔ ان کے ہمنواء جاری صورتحال کا ذمہ دار امریکا اور برطانیہ کو قرار دے کر صدر کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔

حیرت ہے کہ محض دو کروڑ کی آبادی کو یہ حکمراں اور ان کی سو سالہ قدیم پارٹی اس قدر وسائل رکھنے کے باوجود اپنی عوام کو مطمئن نہیں رکھ سکتی۔ سابق سوویت یونین کے دور میں تاشقند کو بہت سیاسی اہمیت حاصل تھی، اکثر و بیشتر سیاسی مذاکرات اور معاہدے یہاں طے پاتے تھے۔ 1966ء میں پاکستان کے صدر ایوب خان نے بھی بھارتی وزیراعظم لعل بہادر شاستری سے مذاکرات کے بعد تاشقند معاہدہ پر دستخط کئے تھے مگر اب تاشقند کی وہ حیثیت نہیں رہی ہے۔ وسطی ایشیاء میں قازقستان کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے اور دارالخلافہ نور سلطان یا الماتے سیاسی مرکز بنتا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ دو ریاستوں کے بعد وسط ایشیائی آزاد ریاستوں کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مذکورہ ریاستیں جغرافیائی طور پر روس اور چین کے قریب ہیں۔ اس حوالے سے ان کا محل ووقوع کی اہمیت بہت زیادہ ہے پھر قدرتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔ خواندگی کا اوسط پچانوے فیصد سے سو فیصد تک ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور عصری تقاضوں کی پوری آگہی رکھتے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ روس، یوکرین کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے کہ وہاں اگر مغربی قوتوں نے دفاعی معاہدے کرکے یوکرین میں اپنے اڈے بنا لئے تو اس سے روس کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ روس اس حوالے سے یوکرین پر فوج کشی کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے گا جبکہ امریکا نے اور نیٹو نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین میں کوئی مہم جوئی کی تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔ 

حال ہی میں امریکی تھنک ٹینکس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ آج دنیا بہت بدل چکی ہے، فرسودہ نظریات اور طریقہ کار کو دنیا کی بڑی آبادیاں مسترد کرچکی ہیں، قدامت پسند حکومتیں طاقت کے زور پر زیادہ دیر تک عوام پر حکمرانی نہیں کرسکتی ہیں۔ آج کی نئی نسلیں اپنے انداز سے جینا چاہتی ہیں، آزادی کی کھلی ہوا چاہتی ہیں مگر ان کی اس جائز خواہشات کو کچلا گیا تو پھر ہر طرف انارکی کا راج ہوسکتا ہے۔

ہرچند کہ دنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہورہی ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے جبکہ بعض دانسوروں کا خیال ہے کہ بہت عرصہ قبل دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ سترہویں، اٹھارہویں صدی میں سائنسی علوم، جدید نظریات اور ادب نے دنیا کو دو دھڑوں میں بانٹ دیا تھا۔ ایک جانب قدامت پسند دنیا تھی اور دوسری جانب جدید نظریات سے متاثر ترقی پسند دنیا تھی۔ اس کا بڑا ثبوت انقلاب فرانس، انقلاب روس، صنعتی انقلاب اور چین کا انقلاب ہے۔ 

نشاۃ ثانیہ کا احیاء ہے اور جدید ادب کا فروغ ہے۔ سابق سوویت یونین کے دور میں تاشقند کی سیاسی حیثیت زیادہ تھی۔ اس دور میں تاشقند کو وسطی ایشیا کا حب تصور کیا جاتا تھا بعدازاں سال 2000ء کے بعد وسطی ایشیائی ریاستوں میں تبدیلیاں نمایاں ہوئیں اور بعدازاں قازقستان کے شہر الماتا کو اہم تصور کیا جانے لگا۔ قازقستان بڑی ریاست ہے اس کا دارالخلافہ تین بار تبدیل ہوا ہے۔ پہلے الماتا، آستانہ اور اب نور سلطان ہے۔ قازق حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں، سیاحوں اور غیر ملکی شہریوں کو شہریت دینے کیلئے خاصی رعایت دے رکھی ہے۔ قازقستان نے روس، امریکا، چین اور یورپی یونین کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ہیں۔

قدیم تاریخ میں وسطی ایشیا کا بڑا کردار رہا تھا۔ اس تمام خطے میں بیرونی حملہ آوروں نے خاصی تباہی پھیلائی تھی خصوصاً چنگیز خان نے یہاں ہزاروں افراد کو قتل کیا اور شہروں کو آگ لگا دی پھر ایرانیوں کے حملے شروع ہوئے، ترک لشکر آئے بعدازاں فرار روس کے دور میں ان ریاستوں کو روس میں شامل کیا گیا۔ روس سوشلسٹ انقلاب کے بعد یہ ریاستیں سوویت یونین میں ضم کردی گئیں مگر سوویت یونین منتشر ہونے کے بعد یہ آزاد اور خودمختار ہوئیں۔

وسطی ایشیا، مشرقی یورپ اور مشرق وسطیٰ کا میل ملاپ زیادہ رہا مگر اب ایک بار پھر وسطی ایشیائی ریاستوں میں سیاسی شورشیں جنم لے رہی ہیں۔ اس حوالے سے قازق حکومت غیر ملکی فوتوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ امریکا نے قازقستان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرے، عوام کے حقوق کو پامال نہ کرے۔ اس ضمن میں ماہرین کہتے ہیں کہ قازق حکومت امریکا کی تنقید یا رائے زنی کو اہمیت نہیں دیتی اور نہ اس کو اقتصادی پابندیوں کا ڈر ہے۔ 

وہ اپنے وسائل سے ان پابندیوں کو بے اثر بنا سکتی ہے جبکہ کہا یہ جارہا ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستوں کو اب پانی کی فراہمی کا مسئلہ بہت بڑا مسئلہ بن کر آسکتا ہے کیونکہ اس خطے میں واقع بلند پہاڑ جو ان ریاستوں کو پانی فراہم کررہے ہیں، رفتہ رفتہ ان پر جمی برف پگھل رہی ہے اور وہ اب صرف پتھریلے پہاڑ بن رہے ہیں خاص طور پر کرغستان، ترکمانستان اور قازقستان میں پانی کی کمیابی کا مسئلہ بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے دیگر ریاستیں بھی بہت جلد اس مسئلے کی لپیٹ میں آنے والی ہیں۔ 

ماسکو نیوز کے ماحولیاتی نامہ نگار نے لکھا کہ پانی کی فراہمی کے مسئلے کے بارے میں ماہرین دس برس پہلے بھی خبردار کرچکے ہیں کہ ڈیم بنانے شروع کردو مگر حکمرانوں نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ گویا وسطی ایشیائی ریاستوں کے مسائل میں بڑا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ماہرین ماحولیات نے ان تمام ممالک کو باربار یاددہانی کرائی ہے کہ ڈیم مستقبل قریب میں پانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ ہوں گے مگر بیشتر حکومتوں نے اس پر توجہ نہیں دی ہے، ان میں وسطی ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہیں۔ 

واضح رہے کہ اسرائیل نے پندرہ برس قبل تل ابیب کے قریب ایک ایسا انوکھا ڈیم بنایا تھا جو رات گرنے والی شبنم کے قطروں سے پانی فراہم کرتا ہے۔ بھارت اب تک چھوٹے بڑے دس ہزار سے زائد ڈیم بنا چکا ہے، لگ بھگ اتنے ہی ڈیم چین نے بنا رکھے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اب اس حوالے سے کام شروع کیا جارہا ہے جس کیلئے سعودی عرب نے حال ہی میں ماحولیات کی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔

صدر نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد فوج کو پولیس کی مدد کیلئے طلب کرلیا ہے۔ تاحال دو سو تیس افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں بیس کے قریب پولیس اہکار اور فوجی شامل ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ دہشت گرد گروہ عوام میں شامل ہوکر سیکورٹی فورسز پر گولی چلا رہے ہیں اور یہ سب کچھ بیرونی ہاتھ کی سازش ہے مگر حکومت نے کوئی ثبوت نہیں پیش کیا ہے۔ سرکاری ترجمان کا کہنا ہے کہ عوام سابق صدر نور سلطان کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اور سابق صدر کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ 

درحقیقت قازقستان کے سابق صدر نور سلطان نے قازقستان کی آزادی کے بعد سے دس برس تک حکومت کی، قدرتی گیس کی مرکزی کمپنی اپنے داماد کے حوالے کی، ایل این جی گیس کمپنی اپنے بیٹے کے حوالے کی، ملک کی بڑی تجارتی کمپنی کا سربراہ اپنی بیٹی کو بنایا۔ اسی طرح اہم سرکاری اور نجی اداروں کی سربراہی اپنے رشتے داروں اور احباب کے سپرد کرکے سابق صدر نور سلطان نے اقرباء پروری اور بدعنوانی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے، عوام کا احتجاج یہاں سے شروع ہوا۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ اکیاسی سالہ سابق صدر نور سلطان کی جان کو بھی خطرہ ہے، عوام بپھرے ہوئے ہیں۔ آج ان کی یہ حالت بنانے والا بدعنوانی، کرپٹ، نااہل سابق صدر ہے جس نے جاتے جاتے اشیائے صرف اور پیٹرول پر پر بھی سبسڈی ختم کردی جبکہ ملک میں وافر مقدار میں تیل اور قدرتی گیس موجود ہے اور دنیا للچائی ہوئی نظروں سے ملک کی معدنیات کو دیکھتی ہے جس میں سب سے زیادہ یورینیم موجود ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ روس نے حالیہ ہنگاموں کو روکنے کیلئے اپنے فوجی بھیجنے کی بھی پیشکش کی ہے۔ 

بعض روسی مخالف حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ روس کی نظریں قازقستان کے یورینیم پر لگی ہوئی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ دنیا میں بیشتر ممالک یورینیم اور پلانیٹیم کے حصول کیلئے سرگرداں رہتے ہیں، ان میں اسرائیل، جنوبی افریقہ اور برازیل کے نام نمایاں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں چھوٹے ممالک کی قیمتی معدنیات بھی ان کیلئے سیکورٹی رسک کے مترادف ہیں مگر قازقی حکومت کو جلد ازجلد عوام کے مسائل حل کرلینا چاہئیں بصورت دیگر وسطی ایشیائی خطے کی بگڑتی سیاسی صورتحال مزید خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔