حکومت کی طرف سے مہنگائی کے پے در پے حملوں کے بعد عوام کی حالت ایسے مظلوم لٹے پٹے قافلے جیسی ہو گئی ہے، جس کے پاس زاد راہ کے لئے بھی کچھ نہیں بچا، منی بجٹ سے ایک دن پہلے بجلی کی قیمتوں میں 4 روپے 30 پیسے فی یونٹ اضافہ، اس کے بعد منی بجٹ میں 360 ارب کے نئے ٹیکسز اور اگلے ہی دن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کی سنگدلی اور بے حسی کو ظاہر کرتا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار بار آئی ایم ایف کے کہنے پر منی بجٹ پیش کیا گیا اور آئی ایم ایف کے ہی اصرار پر سٹیٹ بنک کے بارے میں بل منظور کرایا گیا، جس کے تحت اپوزیشن کے بقول ملک کے ریاستی بنک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔
اسٹیٹ بنک کا آئی ایم ایف کی گرفت میں آنا، ملک کے مالیاتی نظام کی براہ راست کنجی ان کے حوالے کر دینے کے مترادف ہے ،مگر حکومتی وزراء اور ترجمان مسلسل یہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ منی بجٹ سے عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، مہنگائی نہیں بڑھے گی ، الٹا ملک کا مالیاتی نظام درست ہو جائے گا، یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے ، اس بارے وہ کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں ، جبکہ عوام کی حالت مہنگائی کے ہاتھوں دن بدن دگر گوں ہوتی جارہی ہے۔
یہ محاورہ اب درست ثابت ہورہا ہے کہ عوام کے منہ سے آخری نوالہ تک چھین لیا گیا ہے، اپنے پونے چار سال کے عرصہ میں موجودہ حکومت کسی ایک شعبہ میں بھی عوام کو ریلیف نہیں دے سکی، ریلیف دینا تو دور کی بات ہے،رہا سہا معاشی اختیار بھی ان کے پاس نہیں رہنے دیا گیا ، کہنے کو طفل تسلیوں کا تسلسل جاری ہے، وزیراعظم عمران خان کی طرح شاہ محمود قریشی بھی یہی دعوی کر رہے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی کم ہو جائے گی اور ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگ جائیں گی۔
یہ معجزہ کیسے رونما ہو سکے گا اور حکومت کے پاس ایسی کونسی جادو کی چھڑی آجائے گی ،جس سے وہ یکدم گرتی ہوئی معیشت کو اوپر اٹھانے کے قابل ہو جائے گی، یہ بیانیہ تو پچھلے پونے چار سالوں میں اختیار کیا گیا کہ آنے والے دنوں میں خوشحالی کا دور دورہ ہو جائے گا، مگر حالات بتاتے ہیں کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ زوال کی ایک نئی منزل معاشی شعبہ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے، یہ بیانیہ پٹ چکا ہے کہ ہمیں معیشت گھسی پٹی اور لٹی پٹی ملی، یہ بھی اپنی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے کہ ایک حکومت اپنے چوتھے سال کے اختتام پر بھی ماضی کی حکومت کو کوس رہی ہے۔
اگر اس حکومت نے تھوڑی سی بھی بہتری دکھائی ہوتی، تو کہا جاسکتا تھا کہ زوال کے بعد عروج کی طرف سلسلہ شروع ہے، مگر یہاں تو ترقی معکوس کا ایک ایسا تسلسل ہے کہ جو رکنے کا نام نہیں لے رہا، شاہ محمود قریشی ہو یا کوئی اور وزیر ، وہ جب بھی عوام کا سامنا کرتے ہیں ان کے پاس پرانے خواب دکھانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، وہ جذباتی باتوں سے اپنے حامیوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ شاہ محمود قریشی اس بار ملتان میں اپنے حامیوں کو یہ کہہ کر کرتے رہے کہ ان کا جینا مرنا اس دھرتی میں ہے، وہ نہ باہر جائیداد رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کا باہر کہیں بینک بیلنس ہے۔
سوال یہ ہے کہ عوام کو ان باتوں سے کیا غرض ہو سکتی ہے، ان کا مسئلہ تو مہنگائی، غربت اور بے روزگاری ہے، اس طرف حکومت کا نہ تو کبھی پہلے رجحان رہا ہے اور نہ ہی اب اس میں کوئی ایسی صلاحیت نظر آتی ہے کہ وہ عوام کو ان دیرینہ مسائل سے سے نجات دلا سکے گی، یہ سلسلہ اب اپنے ایسے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے کہ جو موجودہ حکومت کی ایک واضح ناکامی پر منتج ہوگا۔
دوسری طرف اپوزیشن ہے کہ جو حکومت کی اتنی بڑی بڑی ناکامیوں کے باوجود عوام کے اندر اپنی مقبولیت اور بیانیہ کو تسلیم کرانے میں ناکام رہی ہے، پارلیمنٹ کے اندر ہی نہیں ، بلکہ پارلیمنٹ کے باہر بھی اپوزیشن کی مہنگائی کے خلاف جدوجہد ایک ایسا فرینڈلی فائر نظر آتا ہے کہ جو کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا، البتہ جن کے لیے وہ کیا جاتا ہے ان کی حالت ضرور خراب ہو جاتی ہے، تفریق تو مئیر کے امیدواروں میں بھی پائی جاتی ہے، جو ملتان میں حکمران جماعت کی طرف سے حصہ لینے کیلئے سرگرم ہو چکے ہیں، امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد سامنے آرہی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے سبھی پر مئیر بننے کا خبط سوار ہوچکا ہے، اس سے پہلے مسلم لیگ ن میں امیدواروں کی ایک واضح لائن لگی ہوئی ہے ،اب تحریک انصاف کے امیدوار بھی اسی طرح سامنے آرہے ہیں جیسے خود رو گھاس ہوتا ہے، کیا ان سب لوگوں کو پی ٹی آئی کی قیادت مطمئن کر سکے گی ؟
کیا جب ٹکٹ دینے کا وقت آئے گا، تو میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاسکے گا؟ حالت یہ ہے کہ شہر میں میئر شپ کے امیدواروں نے اپنے حامیوں کے ذریعے بڑے بڑے ہورڈنگز لگانا شروع کر دیئے ہیں ، مئیرشپ کے امیدواروں میں ایم پی اے سلمان نعیم بھی شامل ہوچکے ہیں، جنہوں نے شاہ محمود قریشی کو صوبائی انتخابات میں شکست دی تھی، ان کے اس فیصلے پر شاہ محمود قریشی نے سکھ کا سانس لیا ہوگا، کیونکہ اگر وہ مئیر بن بھی جاتے ہیں ، تو کم از کم ان کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں خطرہ ثابت نہیں ہوں گے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے سلمان نعیم نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ صوبائی حلقہ کے ساتھ ساتھ قومی حلقہ پر بھی شاہ محمود قریشی کا مقابلہ کریں گے، کئی دیرینہ سیاسی کارکن بھی مئیر کے براہ راست انتخاب میں حصہ لینے کے لیے پر تول رہے ہیں ،اگر یہی صورتحال رہی ،تو سیاسی جماعتوں کے لیے امیدواروں کے جم غفیر کو قابو کرنا ایک بڑا دردسر بن جائے گا، یہ بھی امکان ہے کہ ٹکٹ نہ ملنے پر بیشتر امیدوار باغی ہو جائیں، اور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیں۔
بہرحال اس وقت بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے گہما گہمی شروع ہو چکی ہے، ڈیرے آباد ہو رہے ہیں اور متوقع امیدواروں نے عوامی رابطوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اب انتظار صرف اس بات کا ہے کہ پنجاب حکومت الیکشن کا اعلان کرے، تاکہ اس محاذ پر اپنے اپنے گھوڑے دوڑائے جا سکیں۔