افراد کی طرح مملکتوں میں بھی جبلّتیں پائی جاتی ہیں۔ زندگی کی دوڑ میں افراد کی نخوت اور گھمنڈ ان کا حوصلہ بڑھاتا ہے اور مملکتوں کی حد تک خواہ وہ جنگ ہو یا سیاسی تدبّر سے کام لینا، قومیت کا احساس ان کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔ اس وقت دُنیا کی تین بڑی طاقتوں میں دو نے اپنے پڑوسی چھوٹے ملکوں کے خلاف محاذ کھول رکھے ہیں اور تیسری طاقت دونوں بڑی طاقتوں کو للکار رہی ہے۔
سادہ لفظوں میں ایک طرف چین نے تائیوان کے خلاف اور دُوسری طرف روس نے یوکرین کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے جبکہ امریکا دونوں بڑی قوتوں کو للکار رہا ہے کہ باز آ جائو ورنہ میں دونوں کے خلاف کارروائی کروں گا۔ جب چینی بحری لڑاکا جہازوں نے تائیوان کا محاصرہ کر لیا اور چین کے صدر شی جن پنگ نے تائیوان کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا تو امریکا نے واضح طور پر کہا کہ اگر چین نے تائیوان کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا تو امریکا اس کا جواب دے گا اور تائیوان کی مدد کرے گا جبکہ حال ہی میں مشرقی یورپ کے ایک آزاد ملک یوکرین کے ساتھ بھی روس نے محاذ کھولا تو امریکی صدر جوبائیڈن نے خبردار کیا کہ روس نے یوکرین کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا تو امریکا یوکرین کا ساتھ دے گا۔ اس نازک ترین صورت حال میں سوچنے والے سوچ رہے ہیں کہ کیا واقعی امریکا مذکورہ دو بڑی طاقتوں کے خلاف نبردآزما ہو سکتا ہے؟
یہ بڑا بنیادی سوال ہے۔ کیا امریکا نے اس معاملہ پر غور کرلیا ہے، کیا نتائج پر غور کرلیا ہے،و اب بھی وقت ہے اس دو طرفہ للکار کے نتائج پر غور کر لینا چاہئے۔
روس ماضی قریب میں دُنیا کی سپر پاور رہا، امریکا اور روس کے مابین لگ بھگ نصف صدی تک سرد جنگ گرم رہی۔ روس اس دور میں سوویت یونین کہلاتا تھا، اس وقت بھی اور آج بھی وہ دُنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، مگر نوّے کی دہائی میں سوویت یونین منتشر ہوگیا۔ امریکا واحد سپر پاور بن گیا۔ اَسّی اور نوّے کی دہائیوں میں چین نے زبردست ترقّی کر لی، نہ صرف دفاعی لحاظ سے بلکہ معاشی طور پر بھی بڑی مستحکم قوت بن کر سامنے آیا جبکہ روس سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد کچھ عرصہ ڈپریشن میں رہا مگر صدر ولادی میر پیوٹن کے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے تمام سائنس دانوں اور ماہرین کو جدید سے جدید ہتھیار بنانے کے کام پر لگا دیا، پھر کچھ عرصہ بعد نہ صرف اسلحہ جدید ہتھیار فروخت کرنے والا ملک بن کر سامنے آیا بلکہ بڑی طاقت بھی بن گیا۔
ایسے میں روس اور چین بھی بڑی حد تک قریب آ گئے۔ اس طرح امریکا کے سامنے دو بڑی قوتیں کھڑی ہوگئیں۔ مگر جیسا کہ کہا گیا مملکتوں کی مسابقت، حسد، قومی ضرورت، قومی حمیت بھی ہوتی ہے۔ قدیم دور میں اسکندر، چنگیز، ہلاکو، تیمور، ہٹلر، مسولینی، اسٹالن، پول پاٹ جیسے حکمراں اور فاتح بھی گزرے جنہوں نے اپنی قوت، اَنا اور بربریت کا مظاہرہ کر کے لاکھوں دَر لاکھوں انسانوں کا خون بہایا، تہذیبوں اور ملکوں کو تباہ و تاراج کیا، اگر آج کی دنیا میں مذکورہ ناموں میں کوئی کسی کو ہیرو مانتا ہے تو اس کی عقل پر دُنیا شک کرتی ہے۔ آج دُنیا کو یوکرین سے ہمدردی ہے۔ دُنیا تائیوان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ اب تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ جو کام ماضی اور ماضی قریب میں امریکا کرتا رہا اب وہ یہی کام کرنے سے چین اور روس کو روکنے کے لیے ان کے خلاف میدان میں اُترنے کی دھمکی دے رہا ہے۔
تاریخ اس نوعیت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
غور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ دفاعی طور پر چین اس وقت دُنیا کی سب سے بڑی برّی فوج رکھتا ہے، اس کی پیپلز لبریشن آرمی 23 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جن کو چین نے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کر رکھا ہے بڑے بحری بیڑے اور تین طیارہ بردار جہاز ہیں۔ چینی فضائیہ کئی اسکوارڈن پر مشتمل ہے اور اس کے فضائیہ میں تمام جدید طیارے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بین البراعظمی میزائل، ڈیفنس سسٹم اور لیزر ہتھیار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خلاء سے زمین پر مار کرنے کی صلاحیت قریب قریب حاصل کر چکا ہے۔
دُوسری جانب روس ہے جو سوویت یونین کے دور میں سب سے پہلے خلائی ملک بنا تھا۔ خلاء میں پہلا انسان روانہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ پچاس، ساٹھ اور ستّر کی دہائیوں میں روس اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ ستّر کے عشرے میں سوویت یونین امریکا سے ایک قدم آگے بڑھ چکا تھا۔ ہرچند کہ نوّے کے عشرے میں سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد اس کے بیش تر ہتھیار اس سے الگ ہونے والی ریاستوں کے پاس چلے گئے، کچھ چوری ہوئے، کچھ اسمگل ہوئے کچھ فروخت کر دیئے گئے۔
یہاں تک کہ سوویت دور کے بیش تر سائنس دانوں کو برطانیہ، فرانس، امریکا، جرمنی و دیگر ممالک نے اغوا کر لیا یا وہ سائنس داں سیاسی پناہ میں چلے گئے، مگر پھر پندرہ بیس برسوں میں خاص طور پر روس کے موجودہ صدر کے دور میں روس نے اپنی دفاعی کمی کو پھر سے نہ صرف پورا کیا بلکہ اس میں خاصی ترقّی بھی کر لی۔ اس طرح ایک طرف دُنیا کا رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک اور دُوسری طرف آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا سب سے بڑا ملک چین دونوں بہت سے معاملات میں امریکا سے پرخاش رکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ مسابقت ور اپنی اپنی بالادستی قائم کرنے کا ہے۔
امریکا کے پاس برّی فوج نہیں ہے۔ امریکا کی نیول فورس دُنیا کی سب سے بڑی نیول فورس ہے امریکا کے سات بحری بیڑے دُنیا کے سات سمندروں میں شب و روز تیرتے پھرتے ہیں، ہر بیڑہ طیارہ بردار جہاز، درمیانی لڑاکا طیاروں اور دیگر جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اس کے پاس جدید میزائلوں کی بھرمار ہے۔ جغرافیائی طور پر روس اور چین سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے۔ امریکا لیزر اور خلائی ہتھیاروں کے سلسلے میں بھی سب سے آگے ہے، مگر چین کی طرح اتنی بڑی آبادی نہیں رکھتا ،لیکن جدید ٹیکنالوجی اس کمی کو پورا کر سکتی ہے۔ اب فرد یا افراد سے زیادہ مشینوں سے کام لیا جاتا ہے۔
افرادی قوت ثانوی ہے۔ امریکا کو دُنیا کی بڑی معیشت کہا جاتا ہے مگر مقروض بھی بہت ہے۔ امریکا اور یورپی یونین، نیٹو ممالک امریکا کے اتحادی ہیں، مگر یہاں ایک اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ روس اور چین کے مابین ایک غیرتحریری معاہدہ یہ ہے کہ اگر چین کسی کے ساتھ جنگ کر رہا ہے تو روس اس کی مدد کو نہیں آئے گا اسی طرح روس اگر کسی سے نبردآزما ہو تو چین اس جنگ میں نہیں کو دے گا۔ گویا اپنی اپنی جنگیں خود لڑو۔ اس صورت حال میں امریکا سے چین لڑسکتا ہے، امریکاسے روس لڑ سکتا ہے۔ بیک وقت روس اور چین مل کر سامنے والے فریق سے مشترکہ جنگ نہیں لڑیں گے،مگر امریکا نیٹو ممالک کا اتحادی ہے بلکہ سرپرست ہے۔
نیٹو بڑی قوت ہے۔ برطانیہ اور فرانس ایٹمی قوت ہیں اور خود بھی جدید ہتھیار طیارے اور دیگر جدید ہتھیار بناتے اور دیگر ممالک کو فروخت بھی کرتے ہیں۔ اگر نیٹو اتحاد کو دُنیا کی چوتھی بڑی طاقت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ برطانیہ یورپی یونین کا حصہ نہیں ہے مگر نیٹو کا بااثر رکن ہے۔ فرانس بڑا اور اہم ملک ہے، یہ دونوں ایٹمی قوت بھی ہیں۔ جرمنی سوئیڈن، ہالینڈ، ڈنمارک، بیلجیم اور اسپین وغیرہ اہم ممالک ہیں۔ دو عالمی جنگوں اور نوآبادیات میں طویل حکمرانی کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے نیٹو امریکا کے لیے مؤثر اتحادی قوت ہے۔ اس کے علاوہ جاپان، آسٹریلیا، بھارت، برازیل اور چند افریقی ممالک بھی امریکا سے قریبی سیاسی، تجارتی تعلقات رکھتے ہیں۔
ان تمام حقائق اور اعداد و شمار کے باوجود آج کی دُنیا کسی طور پر بڑی جنگ برداشت نہیں کر سکتی۔ علاوہ ازیں اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آج ماحولیاتی بگاڑ، موسمی تغیرات، قدرتی آفات نے کرّۂ اَرض کو بہت نازک مقام تک پہنچا دیاہے۔ اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں۔ خواہ امریکا، روس، چین یا کوئی اور ملک کسی بھی وجہ سے اپنے مقابل کے خلاف جنگ چھیڑ دیتا ہے تو نہ صرف وہ اپنے لیے تباہی کا سامان پیدا کر لے گا بلکہ پوری انسانیت کو شدید خطرات سے دوچار کرلے گا۔ ایسے میں نہ صرف امریکا بلکہ تمام ایٹمی قوتوں کو جنگ کے بھیانک نتائج پر ضرور غور کرنا چاہئے۔ ایٹمی جنگ ایک دو ممالک کے نہیں پوری دنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اس میں کوئی فاتح نہیں بن سکتا۔
یوکرین روس کے لیے دُوسرا افغانستان ثابت ہو سکتا ہے۔امریکا اور نیٹو ممالک نے روس کے سامنے یوکرین کا پانسہ پھینک دیا ہے، ایسے میں روس کو بہت کچھ سوچنا ہوگا۔ اس کے جواب میں روس نے کیوبا اور وینزویلا کا پانسہ پھینکا ہے جہاں وہ اپنے جوہری ہتھیار جمع کر رہا ہے۔ حالیہ خبروں کے مطابق روس سب میرین ایک سو تین کے قریب جوہری ہتھیار لے کر امریکا کے سمندروں میں گھوم رہا ہے۔ اقوام متحدہ اس تمام صورت حال کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا نے یوکرین کو حساس ہتھیار فراہم نہیں کیے ، عام میدانی جنگ کے ہتھیار فراہم کئے ہیں مگر روس کا اتنی بڑی مقدار میں جوہری ہتھیاروں کو امریکی سمندروں تک لانا ایک بڑا خطرناک قدم ہے۔
ایسے میں تمام عالمی برادری کو شدید تشویش ہے،مگر کچھ مبصرین جو روس کےصدر کی پالیسیوں اور ان کے اندازِ سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ صدر پیوٹن ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ سب کی توجہ چاہ رہے اور یوکرین کو بلیک میل کر رہے ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ یوکرین یورپی یونین کے قریب چلا گیا اور ان کے دوطرفہ تعلقات استوار ہوگئے تو یورپی یونین یوکرین میں ضرور فوجی اَڈّے تعمیر کرے گی جو ایک طرح سے روس کی سرحد پر ہوں گے کیونکہ روس اور یوکرین کی تین سو کلومیٹر سے زائد سرحد ملتی ہے۔ واضح رہے کہ یوکرین غریب پسماندہ ملک ہے۔
مہنگائی اور بیروزگاری کا گراف اُونچا ہے۔ یوکرین کے عوام مغربی کلچر کو پسند کرتے ہیں، خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے ہالی ووڈ کی فلمیں، ڈسکو، مغربی موسیقی فیشن ،کھیلوں کی دُنیا بہت کشش رکھتی ہے۔ امریکا نے سو برس سے زائد عرصے میں دُنیا میں اپنی نمایاں جگہ اپنی ثقافت، فلموں، موسیقی، فیشن اور آزاد خیالی اور آزاد معیشت کے ذریعہ بنائی تھی۔ اب جبکہ وسطی ایشیائی اور بالٹک ریاستوں، مشرقی یورپی سابق سوویت یونین کے دائرۂ اَثر سے باہر آ چکے ہیں، اپنی ترقّی خوشحالی اور صنعتی آزادی کے خواب دیکھتے تیس برس گزار دیئے ہیں۔ نئی نسل اب میدان میں اُتر چکی ہے اور وہ تبدیلی کی خواہاں ہے۔ لگتا ہے کہ روسی صدر تاریخ کے پہیے کو اُلٹا گھمانا چاہتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں زار روس کا زمانہ یا اشتراکی انقلاب کا زمانہ لوٹ کر نہیں آ سکتا۔
روس کے جاری رویہ اورسیاسی انداز نے وسطی ایشیائی ریاستوں، بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپ کے ممالک کو چوکنّا کر دیا ہے، وہ یوکرین کو روسی حملے سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا اپنا کردار اپنے اپنے انداز سے ضرور ادا کریں گے، پھر دُوسری طرف امریکا ہے۔ نیٹو ممالک میں جن کی پوری ہمدردیاں یوکرین کے ساتھ ہیں ۔بیش تر مبصرین نے دُرست کہا تھا کہ روسی صدر نے یوکرین کے خلاف شور مچا کر اپنے بعض سوئے ہوئے حریفوں کو بھی جگا دیاہے۔
برطانوی وزیر دفاع ہیلن ریلے نے برطانوی پارلیمان کو بتایا کہ امریکا نے یوکرین کو کوئی حساس ہتھیار نہیں دیئے۔ رسمی عام میدانی جنگ کے ہتھیار اور کچھ ٹینک شکن میزائل دیئے ہیں جو ٹینکوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں کیونکہ روس نے بڑے پیمانے پر جمع کئے ہیں۔ درحقیقت روس کو یوکرین کے اینٹی ٹینک میزائلوں سے خطرہ ہے تاہم وہ اس کا توڑ بھی کر سکتا ہے۔ یورپی مبصرین کا خیال یہ ہے کہ مغربی قوتیں کسی طور روس پر قابض ہونا نہیں چاہتی ہیں مگر روس کو سبق ضرور سکھانا چاہتی ہیں کہ چھوٹے اور غریب ممالک کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرنا سیکھ سکیں۔
تازہ خبر یہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اور روسی وزیر خارجہ کی جنیوا میں ملاقات ہوئی ہے جس میں دونوں وزرائے خارجہ یوکرین کے مسئلے پر جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تفصیلی ملاقات کا ایجنڈا تیار کریں گے۔ امریکی وزیر خارجہ نے میڈیا کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، فی الفور امریکی صدر اور روسی صدر کی ملاقات کا امکان نہیں ہے۔ البتہ امریکی صدر بائیڈن نے دو بار فون پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو یوکرین میں مداخلت کرنے سے باز رہنے اور اس کے نتائج پر غور کرنے کو کہا ہے۔ مگر روسی صدر نے نیٹو کے ترجمان سے کہا کہ نیٹو بھول جائے کہ یوکرین کبھی نیٹو کا رُکن بن سکے گا۔
روسی صدر کے اس بیان کے بعد یورپی یونین کا مؤقف مزید سخت ہوگیا ہے۔ پوری یورپی برادری نے پھر اس اَمر کا اعادہ کیا کہ یوکرین کی ہرممکن مدد کی جائے گی اور روس اس کو تنہا نہ سمجھے بلکہ روس کو سوچنا چاہئے کہ یورپی برادری ایسے کسی اقدام کا کیا جواب دے گی اور آئندہ اس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یوکرین کے ایک نامہ نگار مائیکل سمرنوف نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یوکرین کی بڑی آمدنی کا ذریعہ سیاحت کے شعبے سے وابستہ تھا۔ اب سیّاح ادھر کا رُخ نہیں کرتے، کیونکہ پورا ملک اور اس کے اطراف فوجی چھائونیوں کا منظر اُبھرتا ہے۔
یوکرین خطّے کا حسین ترین ملک ہے۔ حسین قدرتی مناظر میں بلند برفانی پہاڑ، اُجلی اُجلی نیلی جھیلیں، شمال مغربی ملک میں سرسبز و شاداب جنگل، رنگ برنگے پھول پودے، خوبصورت پرندے، خوبصورت پُرسکون ریزوٹس سیاحوں کے لیے یہاں ہر سہولت موجود ہے۔ مگر ایک عرصے سے سنّاٹا ہے۔ غیرملکی سیاحوں کی آمد و رفت نہیں ہے۔ بہت سے افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔
1986ء میں کیف سے سو کلومیٹر دُور غیرآباد علاقے میں چرنوبل ایٹمی پلانٹ بجلی گھر کے حادثہ کےبعد ایسی صورتحال تھی۔ نامہ نگار نے بتایا کہ اس وقت یوکرین سابق سوویت یونین کا حصہ تھا۔ پلانٹ کی دیکھ بھال میں غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے یہ تاریخ کا بڑا خوفناک جوہری حادثہ پیش آیا، اس حوالے سے بہت سی خبریں باہر نہیں آ سکیں آج بھی اس پر پردہ ہے۔
حالیہ خبروں کے مطابق یوکرین کی مسلح افواج اور نیم فوجی رضاکار گوریلا جنگ کی تربیت میں مصروف ہیں۔ یورپی یونین کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر یوکرین میں روس نے فوجی مداخلت کی تو اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں کیونکہ یوکرین اوراس کےا طراف کے بیش تر ممالک یوکرین کی مدد کر رہے ہیں اور ایسے میں اس خطّے میں روس کو گوریلا جنگ لڑنا پڑے گی تو پھر روس ایک نئی دَلدل میں پھنس سکتا ہے کیونکہ اطراف کے بیش تر ممالک یوکرینی گوریلوں کو جنگ کے دوران امداد کے ساتھ ساتھ پناہ گاہیں اور میڈیکل ایڈ فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسے میں روس کو اپنے کسی ایڈونچر کے بعد گوریلا جنگ کے لیے تیار ہونا ہوگا۔
بتایا جاتا ہے کہ 2014ء میں یوکرین کے ماسکو نواز صدر وکٹر ینکوچ کی غیرمؤثر پالیسیوں سے عوام تنگ آ چکے تھے، اس لیے 2014ء میں صدر وکٹر سے جان چھڑانے کے لیے عوامی مظاہرے شروع ہوئے جو دس دن سے زیادہ عرصے چلتے رہے جس میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں انیس سیکورٹی فورس کے اہلکار بھی شامل تھے۔
ان مظاہروں کے نتیجے میں صدر وکٹر وینکوچ نے استعفیٰ دےدیا،بعدازاں عبوری حکومت تشکیل پائی اس کا جھکائو یورپی یونین اور امریکا کی طرف تھا، تا کہ ملکی گرتی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔ ایسے میں یوکرین میں موجود روسی بولنے والے باشندوں نے عبوری حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے جزیرہ نما کریمیا کی سرکاری عمارت پر قبضہ کر لیا۔ اس دوران روسی فوجیں کریمیا میں داخل ہوگئیں اور وہاں روسی جھنڈا لگا دیا گیا، تب سے کریمیا پر روس کا قبضہ ہے۔
روس کی ہرممکن کوشش یہ ہے کہ یوکرین کے یورپی یونین سےتعلقات قائم نہ ہو سکیں، یوکرین مغربی ممالک کےساتھ تعلقات استوار نہ کرسکے جبکہ یوکرین کے عوام جو 1991ء میں سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد روس سے الگ ہو کر اپنی آزاد اور خودمختار ریاست قائم کی اس کا دفاع چاہتے ہیں نہ جمہوری عمل کا استحکام چاہتے ہیں اور خود مختار ہنا چاہتے ہیں اس طرح وہ معیشت کو بہتر بنانے کے شدید خواہاں ہیں تا کہ ملک شدید غربت، پسماندگی اور بیروزگاری کے گرداب سے باہر آ سکے، مگر روس کو یہ سب کچھ پسند نہیں کہ اس کا پڑوسی ملک جو محض تیس برس قبل روس سے آزاد ہوا تھا اب مغرب کی گود میں بیٹھنے جا رہا ہے۔
مگر یوکرین کے عوام اب اپنی آزادی اور خودمختاری کا دفاع کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ یورپی ممالک امریکا اور دیگر کھڑے ہیں۔ یوکرین کی ایک بڑی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس کو یورپ میں غلّہ کا گودام بھی کہا جاتا ہے۔ 2020ء میں یوکرین نے 18 ملین میٹرک ٹن گندم افریقی اور بعض ایشیائی ممالک کو ایکسپورٹ کی تھی۔ اس طرح افریقی، ایشیائی اور بعض یورپی ممالک یوکرین سے ہر سال گندم، مکئی، جو اور رائی خریدتے ہیں اگر یوکرین میں جنگ ہوئی تو بہت سے ممالک غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان ملکوں میں شورشیں برپا ہو سکتی ہیں۔ اس صورت حال میں روس کی سیاسی حیثیت کسی حد تک متاثر ہو سکتی ہے اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ روس کے لیے بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا تو اس پر طویل المدت اقتصادی اور ثقافتی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ روس کی معیشت یوں بھی اچھی نہیں ہے ، مزید اقتصادی پابندیوں سے روسی معیشت مزید کمزور تر ہو سکتی ہے۔
یورپی یونین کے ترجمان نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ روسی صدر پیوٹن سوچ سمجھ کر قدم اُٹھائیں۔ روس کے لیے صرف بامقصد مذاکرات اور خطّہ میں مستحکم امن کا قیام ہی مفید ہے۔ امریکا نے اپنے سارے پتّے اوپن کر دیئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی پتّے بھاری ہیں، روس کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا چاہئے۔
پہلا امریکی امدادی جہاز یوکرین پہنچ گیا
حال ہی میں امریکی طیارہ دو لاکھ پیکٹ امداد اور کچھ ہتھیار لے کر یوکرین کے دارالخلافہ کیف پہنچا۔ یہ امریکا کی طرف سے یوکرین کی امداد کا پہلا طیارہ ہے اس کے ساتھ ہی امریکی صدر نے یوکرین کے لیے مزید تین سو ملین ڈالر کی خصوصی امداد کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس امریکی اقدام سے امریکا کی یوکرین کے مسئلے پر اس کی اہمیت اور سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے۔
یہ امدادی جہاز جنیوا میں امریکی اور روسی وزرائے خارجہ کے بے نتیجہ مذاکرات کے ختم ہونے کے بیس گھنٹے کے اندر یوکرین پہنچ گیا۔ دُوسری طرف روس نے مزید فوجی دستے یوکرین کی سرحد پر پہنچا دیئے ہیں۔ اب ایک لاکھ سے زائد روسی فوجی یوکرین کی سرحد پر جمع ہیں۔ یورپی یونین کے مبصرین لمحہ لمحہ کی خبریں میڈیا کو دے رہے ہیں۔روسی صدر نے ایک بیان میں کہا کہ یہ محض پروپیگنڈہ ہے کہ روس یوکرین پر حملے کی تیاری کر رہا ہے، میں اس پروپیگنڈہ کو مسترد کرتا ہوں۔
بتایا جاتا ہے کہ روسی صدر نے امریکا اور نیٹو کو دو اہم مطالبات ارسال کئے ہیں ایک یہ کہ نیٹو کبھی یوکرین کو اپنا رُکن نہیں بنائے گا دُوسرا یہ کہ مغربی ممالک مشرقی یورپ سے اپنی فوجیں ہٹا لیں۔ امریکا نے ان دونوں مطالبات کو فوری رَدّ کر دیا ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ مشرقی یورپ کی تین ریاستیںایسٹونیانے اینٹی ٹینک میزائل اور لیتھونیا اور ایتھونیا دونوں ریاستوں نے اسٹنگر اینٹی ایئرکرافٹ میزائل یوکرین کو فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر امریکی وزیر خارجہ نے ان تینوں ریاستوں کو واشنگٹن کی طرف سے سلوٹ پیش کیا ہے۔
روس کے لیے امریکا کا جال تیار
یوکرین میں روسی مداخلت اور حملے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سفارت کاری بات چیت کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ جاری صورت حال میں بڑی تعداد میں روسی ٹینک، بکتربند گاڑیاں اور دیگر سامان حرب یوکرین کی سرحد پر پہنچا دیا گیا ہے۔ روسی نیوی نے بھی آبی راستوں کو گھیر رکھا ہے۔ یعنی لفظوں میں روس جنگ کی پوری تیاری کر چکا ہے۔ گزشتہ دنوں جنیوا میں روسی صدر امریکی نائب وزراء خارجہ کے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے تند و تیز بیانات جاری ہیں۔ایسے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکا کس حد تک جا کر یوکرین کی مدد کر سکتا ہے؟
اس بنیادی سوال کا جواب خود امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں واضح کر دیا ہے کہ امریکی روسی سپاہی آمنے سامنے نہیں لڑیں گے۔ امریکا نے یوکرین کو اسلحہ فراہم کر دیا ہے، فوجیوں کو بھی 2016ء سے تربیت دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ادویات دیگر سامان بھی فراہم کر دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ چار سو ملین ڈالر کی امداد بھی فراہم کر دی ہے۔ پینٹاگون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا حسب ضرورت یوکرین کو اسلحہ اور دیگر ضروری سامان فراہم کرتا رہے گا۔
جاری حالات میں امریکا نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر قبضہ کرنے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو اس کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ عسکری مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے پہلے ہی یوکرین کی مسلح افواج کو کنویشن وار کی تربیت کے ساتھ ساتھ گوریلا جنگ کی تربیت دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیٹو ممالک نے بھی یوکرین کے فوجیوں کی تربیت کی ہے اور انہیں گوریلا جنگ کے لیے بھی تیار کر لیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر گوریلا جنگ شروع ہوئی تو روس کو بہت نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ خطہ کے دیگر ممالک جیسے پولینڈ، ہنگری، رومانیہ اور سلواکیہ، یوکرین گوریلوں کو پناہ گاہیں فراہم کریں گے۔